• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم بھی کتنے عجیب لوگ ہیں۔ انسان انسان کا دشمن اور قاتل بنا ہوا ہے۔ ہم مسلمان ہونے کے بھی دعویدار ہیں اور پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کےمتمنی بھی۔ لیکن اسلامی احکامات پر عملدرآمد سے گریزاں ہیں۔ قرآن کریم میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا اور ایک انسان کی زندگی بچانے کو پوری انسانیت کو بچانے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ یہاں زمین کے ٹکڑے اور دو ٹکوں کے لئے روزانہ جانے کتنے انسانوں کا خون کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے کی عز ت وآبرو،عزت نفس کا خیال رکھنے کے احکامات موجود ہیں ۔ لیکن ہم محض شیطانی ہوس اور دوٹکوں کے لئے دوسروں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرتے ہیں۔ ایسے مکروہ واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ حال ہی میں اسی طرح کے دو واقعات دارالحکومت اسلام آباد میں سامنے آئے ہیں۔ کیا یہ بھی مسلمان ہیں۔ کیا ایسے قبیح کام کرنے والوں کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں نہیں ہوتیں۔ جو دوسروں کی عزتوں کو برسر بازار بے حجاب کرتے ہیں؟

گھروں میں ملازمت کرنے والی کمسن بچیوں پر انسانیت سوز تشدد اور ظلم کرنے والوں کو کس اسلامی پیمانہ سے ناپیں۔ ورکشاپوں اور ہوٹلوں وغیرہ میں ننھے بچوں پرتشدد کرنے والے کون ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں اور ان کے بیوی بچوں کو غلام بنا کر رکھنے کے واقعات سے کون باخبر نہیں۔ غیرت کے نام پر اور کارو کاری کے الزام میں انسانوں کے قتل کی کہاں اجازت ہے؟ سود کو اللہ تعالیٰ سے کھلی جنگ قرار دیا گیا ہے۔ تو پھر سود کا کاروبار کرنے والوں کو کس طرح مسلمان جانا جاسکتا ہے۔ منافقت کرنے والوں کو کافروں سے بھی بدتر مسلمان دشمن کہا گیا ہے یہاں تک کہ اس مسجد کو جلانے کا حکم آیا جس میں منافق ’’نماز‘‘ پڑھتے تھے۔ منافق اس کو کہا گیا ہے۔ جو بظاہر مسلمان اور باطن میں مسلمانوں کا دشمن ہو۔ یعنی جس کے قول و فعل میں تضاد ہو جس کے فعل سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہو یا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ کیا آج اسلام کے نام پر دھوکا نہیں دیا جاتا۔ کیا مساجد میں قرآن سیکھنے کے لئے آنے والی بچیوں اور بچوں کے ساتھ بدکاری اور بدفعلی نہیں کی جاتی۔ کیا یہ چند گندی مچھلیاںنیک اور باعمل علماء کے پورے تالاب کو گندا نہیں کرتی رہیں؟ کیا وہ ناخواندہ لوگ،جن کو کلمہ پڑھنا نہیں آتا، وہ پیر بن کر لوگوں کی نفسیات، مجبوریوں اور خواتین کی عزتوں تک سے نہیں کھیلتے؟

کیا ضد ، انا اور دوسروں پر رعب جمانے اور دہشت زدہ کرنے والے اور گلے میں زنجیر ڈال کر ان پر تشدد کرنے والے اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے؟ کیا قبروں سے خواتین کی لاشیں نکال کر ان کی بے حرمتی کرنے کے واقعات نہیں ہوتے۔ کیا مردوں کے بالوں کی خرید و فروخت کا کاروبار نہیں ہورہا۔ ڈیرہ غازی خان کے علاقہ دیرہ دین پناہ میں ایک بدبخت دادا نے اپنے دو سگے معصوم پوتوں کے پیروں میں زنجیریں ڈال کر اور پھر ویلڈ کروا کر قید رکھا جن کی عمریں سات آٹھ سال تھیں۔ کیا اس بدبخت ظالم کو سرعام ایسی سزا نہیں دینی چاہئے جو دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو؟ کیا برہنہ کرکے وڈیو بنانے اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے والے شیطانوں کے خلاف یوں ہی مقدمات چلتے رہیں گے۔ شہادتیں اور گواہیاں درکار ہوں گی جبکہ ان کے گواہ اور شہادتیں وہ خود اور ان کے کالے کرتوت ہیں۔ پولیس تو ایسے ظالموں اور بدمعاشوں کو گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتی ہے لیکن قانون کی لمبی راہداریوں سے گزرتے گزرتے شہادتیں کمزور اور گواہ منحرف ہوجاتے ہیں۔ یوں سرعام عزتیں لوٹنے والے اور بدترین تشدد و ظلم کرنے والے بدکردار یا تو بری ہوجاتے ہیں یا معمولی سزا بھگت کر باہر آجاتے ہیں۔ ایسے شیطانوں کو سرعام سخت ترین سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے دوسرے لوگ عبرت حاصل نہیں کرتے اور طویل قانونی سفر کی وجہ سے لوگ ان کو بھول جاتے ہیں اور وہ قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح بے شمار واقعات اور مثالیں ہیں جو مسلمان ہونے کے باوجود احکاماتِ الٰہی کی کھلی خلاف ورزی کے بارے میں ہیں جو ہم کرتے رہتے ہیں۔ نہ روز قیامت اور حساب کتاب کا ڈر نہ خدائے برتر کا خوف، پھر بھی ہم مسلمان ہیں۔ ناپ تول میں کمی کرنے والوں اور ملاوٹ کرنے والوں کے بارے میں ان متفقہ علیہ احادیث پاک سے کون واقف نہیں جن میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ ایسے لوگ ہم میں سے نہیں۔ کیا اس فرمانِ نبی ﷺ کے بعد ایسے لوگوں کے بارے میں کوئی گنجائش باقی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کے اراکین کیا اس لئے منتخب ہوکر آئے ہیں کہ وہ ایوان میں ایک دوسرے پر تبرا بھیجیں ، گالم گلوچ کریں ایسے میں قانون سازی کیا خاک ہوگی۔ اپوزیشن تو اپوزیشن خود حکومت بھی اپوزیشن بن جاتی ہے۔ ایوان میں شورو غوغا اور غلیظ زبان کے استعمال سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اور عوام اس ذاتی غلغلے میں دب جاتے ہیں۔ اس وقت طرفین میں سے کس کو ہوش رہتا ہے کہ اس مظلوم، بے کس و لاچار قوم کی بہتری کے لئے قانون سازی کرے۔

وزیر اعظم عمران خان کا خواب ہے کہ نیا پاکستان ریاست مدینہ کی طرز پر قائم ہو۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو نہیں ایک قانون ہونا چاہئے۔ لیکن نہ جانے کیوں وہ اس نیک اور عظیم کام کی شروعات اپنے سرکاری گھر اور دفتر سے نہیں کرسکے۔ چینی چوروں، گندم و آٹا چوروں پیٹرول و گیس چوروں کے خلاف فائلوں پر یا تو سیروں مٹی پڑ گئی ہے یا ایسی فائلیں داخلِ دفتر اور نامزدگان یا مشتبہان کو بے قصور قرار دےدیاگیا جبکہ مخالفین کی ایسی کی تیسی اور کمزوروں کو ہی قربانی کا بکرا بنادیا جاتا ہے۔ کم از کم تازہ ترین رپورٹوں سے یہی محسوس ہورہا ہے۔ مذکورہ بالا حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے دل ڈوبنےلگتا ہے مگر پھر یہ سوچ حوصلہ دیتی ہے کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

تازہ ترین