• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے, سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تمام حکومتی تعلیمی اداروں میں خصوصاً اور نجی تعلیمی اداروں میں جزوی طور پر اردو ہی بولی جاتی ہے۔ گھروں میں پنجابی جبکہ ہر صوبے اور علاقے کی اپنی اپنی مادری زبان اورجب ملازمت کی تلاش ہوتی ہے تو وہاں انگریزی سمجھنے بولنے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے، اس ضمن میں ایک لطیفہ یوں ہے کہ ’’ایک دوست دوسرے دوست سے بولا، ہم پاکستانیوں کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ اسکولوں میں اردو بولو، گھروں میں مادری زبان اور دفتروں میں انگریزی آنی چاہئے جبکہ روز محشر حساب عربی میں دینا پڑے گا‘‘۔

پاکستان میں پچھلے 73سال سے زبان کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا، 17ویں صدی سے 1947ء تک براہ راست اور اس کے بعد سے آج تک بلاواسطہ انگریزی کے تسلط نے پاکستانی قوم کو غلامی کے بوجھ سے کلیتاً آزاد نہیں ہونے دیا ،انگریزی کا بھوت آج بھی ہم پر سوار ہے یقیناً اس لئے کہ ہم نے اردو سمیت اپنی کسی علاقائی زبان پر ایسی محنت کی ہی نہیں کہ اسے جاننے سمجھنے والا دنیا میں عزت ووقار کے ساتھ جدید علوم کا مقابلہ کر سکے ہم نے اپنی زبان میں بھی جدید وقدیم سمیت سائنسی علوم کی کماحقہ معلومات کے تمام خزینے جو انگریزی زبان میں ہیں اپنی قوم تک نہیں پہنچائے۔قومیں اور لوگ جو اپنے ملک میں ہوں یا بیرون ملک میں صرف اپنی زبان ہی بولتے ہیں ان کا معاملہ دوسرا ہے کیونکہ ان اقوام نے دنیا کی کسی بھی زبان میں لکھے گئے علوم اپنی زبان میں ترجمہ کئے انہوں نے انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی مہارت حاصل کی لیکن کسی قسم کی کمتری میں مبتلا ہوئے بغیر صرف انگریزی زبان کو اظہار کا وسیلہ بنانے کی بجائے اپنی قومی زبان میں گفتگو کو ترجیح دی یہی وجہ ہے کہ فرانس، چین، روس، جاپان، جرمنی اور یورپ کے تمام ممالک کے رہنما عالمی فورمز پر بھی اپنی قومی زبان میں گفتگو کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔

ادھر ہمارا یہ حال ہے کہ ہم بلاضرورت ہی جہاں اپنی مادری زبان میں بات کرنا ہو وہاں اردو اور جہاں اردو سے کام چل سکتا ہو وہاں انگریزی میں گفتگو کرنا فخر سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے وزرائے اعظم، صدور، وزرا اور بیرون ممالک میں تعینات سفرا تک کئی پاکستانی محفل میں بھی غلط ملط انگریزی بولنا بہادری اور پڑھا لکھا ہونے کی علامت سمجھتے ہیں، پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور تقریباً 12کروڑ انسانوں کی زبان تھوڑے بہت لہجے کی تبدیلی کے ساتھ پنجابی ہے لیکن صد حیف کہ نسل درنسل پنجابی بھی اپنی مادری زبان کی بجائے اردو بول کر خود کو اشرافیہ کی صف میں شامل سمجھتا ہے وہ اپنی ماں بولی کی عزت نہ کرکے اس لشکری زبان پر فخرکرتا ہےجس کا کوئی ایک ہجہ بھی اپنا ذاتی نہیں ہے، خصوصاً پنجاب میں تو صورتحال اتنی خراب ہے کہ بچوں کو اپنی مادری زبان لکھنا تو دور کی بات بولنا بھی درست طور پر نہیں آتی تین چار قسم کے رائج نظام تعلیم اورا سکولنگ سسٹم نے معاشرے کو کچھ اس طرح کھچڑی زدہ کر دیا ہے کہ نوجوانوں کو کچھ پتا نہیں کہ انہیں کس زبان میں مہارت حاصل کرنی چاہئے ۔تاکہ وہ عالمی سطح پر کامیاب و کامران ہوسکے ،پنجابی زبان تو خیر اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اس کا مرثیہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے غور کیجئے جو زبان ہماری عام بول چال میں بھی جگہ نہیں بنا پا رہی اور نہ ہی یہ ہمارے ابلاغی ذرائع میں کوئی جگہ رکھتی ہے، پنجاب کی تقریباً 90فیصد آبادی لکھی ہوئی پنجابی زبان پڑھ نہیں سکتی اور نہ ہی آسانی سے اسے لکھنے پر قادر ہے۔

پاکستان میں اردو کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں ہے اس کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ کہنے کو تو یہ قومی زبان ہے لیکن اندازہ کریں کہ پاکستان کے بے شمار صحافی تک غلط اردو لکھتے اور بولتے ہیں تو پھر اس ملک کے عام آدمی کی اردو کا کیا حال ہو گا، کسی بھی ملک کی زبان اس کے عوام کی تخلیقی اور ترقی کرنے کی صلاحیت سے گہرا اور براہ راست تعلق رکھتی ہے، پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی آمد نے اس قوم کی تہذیبی اور تمدنی اساس کو اس برے طریقے سے تہس نہس کیا ہے اور اس سرعت سے اردو زبان کی دھجیاں بکھری ہیں کہ حالت یہ بن چکی ہے کہ 24گھنٹے ٹیلی ویژن اینکر، نیوز ریڈر شرمناک حد تک نادرست اردو بولتے ہیں اور دیگر انتظامیہ ٹکرز میں چلنے والی اردو غلط لکھتی ہے۔ ایک اور بات جو تجربہ میں آئی ہے کہ لندن یا دیگر انگریزی زبان بولنے والے ممالک میں پاکستان کا کوئی عام گریجویٹ، ایم اے پاس نوجوان بھی آتا ہے تو اس لیول کی انگریزی بول سمجھ نہیں سکتا جس بنا پر وہ یہاں کسی اچھی جگہ ملازمت کر سکے، عام طور پر بیرونی ممالک میں اردو میڈیم اسکولوں سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد زیادہ آتے ہیں جو اکثر محفلوں میں اس طرح کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’کیا فائدہ ایسی زبان کا جسےجانتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ایک زینہ بھی چڑھا نہیں جا سکتا‘‘۔

ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم بدلتی اور لمحہ بہ لمحہ ترقی کرتی دنیا کے ساتھ اپنے خدوخال تبدیل کرنے پر بھی تیار نہیں ہوتے اسی وجہ سے جدید دنیا میں جاری ثمرات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ہندوستان میں انگریز دور حکومت میں بھی ہمارا المیہ یہی تھا کہ ہم حصول علم میں بھی مخاصمت اور لا تعلقی کا اظہار کرتے رہے جبکہ ہمارے پہلو میں رہنے والی قوموں نے آزادی کی جستجو بھی کی اور تحقیق و تعلیم سے بھی ناطہ جوڑا یہی وجہ ہے وہ ہم سے کوسوں آگے نظر آتے ہیں۔ عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو اردو دنیا کی 100زبانوں کی لسٹ میں 20ویں نمبر پر شمار ہوتی ہے لیکن اسے جاننے والے کیلئے ترقی کے در اس لئے نہیں کھلتے کہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا علم اردو میں ٹرانسفر نہیں ہو سکا۔مختلف ادوار میں پاکستان کو چلانے والوں نے ملک و قوم اور نظام تعلیم کی نہ تو سمت مقرر کی اور نہ ہی اردو جسے وہ قومی زبان قرار دیتے رہے اس کی ترویج و ترقی کیلئے کوئی تگ ودو یا جستجو کی۔ آج اگر حکومت اردو زبان کی ساکھ بہتر بنانے کیلئے کوئی قدم اٹھانا چاہتی ہے تو سب سے پہلے عالمی سطح پر ہونے والی سائنسی و علمی تحقیق کو اردو میں ٹرانسفر کرے تو وقت کے ساتھ کوئی وجہ نہیں ہے کہ اردو بھی عالمی زبانوں میں اپنی جگہ بنا سکے ورنہ اگر اردو کو فروغ دینے کا منصوبہ بھی سینکڑوں دیگر منصوبوں کی طرح گفتن، نشستن اور برخاستن کی نذر ہو گیا تو پھر ہم عالمی سطح پر بے زبان ہی رہیں گے۔

تازہ ترین