نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری کے بعد اب سیاسی فرنٹ پر حکومت اور اپوزیشن میں دوبارہ الفاظ کی چھیڑ چھاڑ بڑھ گئی ہے اور پہلے کی طرح اب بھی یہی دعوے کئے جا رہے ہیں کہ PTIکی حکومت بس جانے ہی والی ہے۔ یہی صورتحال پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور میں بھی نظر آتی تھی لیکن اب کی بار معاملات میں غیرسنجیدگی زیادہ نظر آ رہی ہے۔ سیاسی میدان میں روا داری، برداشت اور ایک دوسرے کو عزت دینے کی بجائے ہر ایک کو نیچا دکھانے کی کوششیں کسی بھی طرح ہمارے معاشرتی اور سماجی حالات کے لئے صحت مند رحجان کی نشاندہی نہیں کر رہیں بلکہ اس سے قومی سطح پر سیاسی جماعتوں یا سیاست سے عام افراد کی بےزاری اور عدم دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے پاکستان کے بین الاقوامی مسائل کشمیر اور افغانستان کا موجودہ بحران پارلیمنٹیرینز اور پارلیمنٹ کے ریڈار پر اُس طرح زیر بحث نہیں آ رہا جیسے آنا چاہئے۔
اس سلسلے میں وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ قومی حکمت عملی کے جذبے کے تحت آل پارٹیز کانفرنس برائے افغانستان فوری طور پر بلائیں جس میں پارلیمنٹ کے اندر موجود قائدین کو مدعو کیا جائے، ان کی مشاورت سے افغانستان کے معاملہ کو ہینڈل کرنے کی سوچ بچار اختیار کرکے امریکہ اور دوسری طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور عدم اعتماد کی فضا کو بہتر بنایا جائے۔ اس سلسلے میں اگر ہماری سیاسی جماعتوں نے محض پوائنٹ اسکورنگ پر سیاست جاری رکھی اور افغانستان کے معاملہ کو سنجیدگی سے نہ لیا تو بھارتی مداخلت افغانستان میں مزید بڑھ سکتی ہے گو کہ اس وقت ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار نے بڑا حوصلہ افزا بیان دیا ہے کہ افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری ڈوب رہی ہے۔ اللہ کرے وہاں پر بھارتی لابی عملاً کمزور پڑ جائے اور پاکستان کیلئے وہاں حالات سازگار ہو جائیں۔ بعض سفارت کاروں کی رائے میں ابھی پوری طرح صورتحال سازگار نہیں ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم فوری طور پر افغانستان کے معاملے پر دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہوں کو اعتماد میں لیں اور اگر دو تین بڑے ممالک امریکہ، لندن وغیرہ کے دورے بھی کرنا پڑیں تو فوری اُن کی منصوبہ بندی کریں۔ اس وقت اصل میں افغانستان میں پاکستان کی پوزیشن اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی 10-15سال پہلے ہوتی تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ صورتحال ہمارے لئے اتنی بھی بُری نہیں ۔ پارلیمنٹ اس سلسلے میں کسی تعصب یا حکومت سے ناراضی کی بجائے بیک زبان افغانستان اور کشمیر کے حوالے سے کھڑی ہو جائے، اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو خدانخواستہ افغانستان کی صورتحال جوں جوں خراب ہو گی، پاکستان کے معاشی اور سماجی حالات پر اتنے ہی منفی اثرات پڑیں گے جس سے امیر نہیں بلکہ غریب طبقہ زیادہ متاثر ہوگا اور اگر دس بارہ لاکھ مزید افغانی یہاں آ گئے تو پھر پاکستان میں امن و امان کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں جس کے پیدا کرنے کیلئے بھارت اور اسرائیل ہر طرف بےچین رہتے ہیں۔ اس لئے پارلیمنٹ کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر سوچ بچار کر لیں تاکہ ساری دنیا پر ہمارا ایک ہی موقف سامنے آ سکے ورنہ پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے خدانخواستہ خطرات بڑھ سکتے ہیں جو کہ الحمدللہ اس وقت خاصے قابو میں ہیں مگر دشمن سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہئے ،چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا گھر سے باہر کیونکہ دشمن دشمن ہی ہوتا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)