اسلام آباد (مہتاب حیدر) سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کے ستھ انتہائی ناقص پروگرام پر مذاکرات کیے ہیں اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں جو کمی منظور کی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، شرح سود میں اضافہ کیا گیا جس کے نتیجے میں مہنگائی کا سخت دبائو پاکستان پر پڑا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے سب سے بڑی غلطی کرنسی قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافہ کرکے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد پر جو جے آئی ٹی رپورٹ میں مبینہ ڈکٹیشن پر غلط طور داخل ہوئے، جس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے 1981 سے 2001 تک گزشتہ 20 برس میں ریٹرنز فائل نہیں کیے ، حالاں کہ وہ منتخب رکن پارلیمنٹ اور سابق وزیر رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی اپنے ریٹرنز فائل کرنے میں 20 منٹ کی تاخیر بھی نہیں کی، اس لیے جس نے بھی ان پر الزامات عائد کیے انہیں جیلوں میں ہونا چاہیئے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اگر وزیر خزانہ اپنے ریٹرنز جمع نا کرے تو اسے پھانسی پر لٹکادینا چاہیئے۔ لیکن ایسے فرسودہ عمل کو دفن کردینا چاہیئے۔ پیر کے روز اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے 2013 میں آئی ایم ایف پروگرام پر مذاکرات کیے تھے تو انہوں نے آئی ایم ایف پر واضح کردیا تھا کہ انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ زرمبادلہ کی سطح کیا ہونی چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی کا دبائو ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے کیوں کہ حکومت رواں مالی سال میں جی آئی ڈی سی کی مد میں 130 ارب روپے اور 610 ارب روپے پٹرولیم لیوی کی مد میں جمع کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے پانچ سالہ دور حکومت میں ہر سال گردشی قرضوں میں 110 ارب روپے اضافہ ہوا، بجلی ٹیرف میں اضافے کے باوجود گردشی قرضہ گزشتہ تین برس میں ہر سال 400 ارب روپے بڑھا ہے۔ پی ٹی آئی کی معیشت کے ہر محاذ پر کارکردگی افسوس ناک رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان غلط پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کا دبائو بڑھ رہا ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھاکہ مہنگائی میں کمی ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ موجودہ حکومت کی توجہ عوام کی جیبوں سے پیسہ نکالنے پر مرکوز ہے۔ انہوں نے اسد عمر کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پی ایل کو جگا ٹیکس قراردیتے ہوئے کہا تھا کہ ن لیگ نے لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل پر لیوی میں کمی کی تھی جو کہ منفی سطح پر تھی لیکن اب وہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں کو کس طرح درست کہہ سکتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ شکر کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ان کے فنانسرز نے دگنا منافع حاصل کیا جو کہ 350 ارب روپے سے بڑھ کر 700 ارب روپے ہوگیا۔ گندم کا آٹا 900 ارب روپے میں فروخت ہوا اور وہ اب بڑھ کر 1900 ارب روپے تک ہوچکا ہے۔ بجلی کی قیمتیں بھی بہت بڑھی ہیں لیکن گردشی قرضہ 400 ارب روپے سے زائد سالانہ گزشتہ تین سال میں بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے دور میں 5 سال کے دوران 14 اشیائے ضروریہ میں اضافہ نہیں ہونے دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے اقتصادی محاذ پر ابتدائی تین سال میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا جس میں ہر آئی ایف آئیز رہنما نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2013 میں منعقدہ انتخابات شفاف تھے اور اس کا سہرا سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کو جاتا ہے۔ وہ مشکل وقت تھا۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کے دھرنے شروع ہوگئے یہاں تک کے چین کے صدر کا دورہ بھی ایک سال تاخیر کا شکار ہوا۔