• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگ بندی کیلئے اشرف غنی کا ہٹنا ضروری، طالبان، افغان حکومت کی درخواست، طالبان ٹھکانوں پر امریکی بمباری

جنگ بندی کیلئے اشرف غنی کا ہٹنا ضروری، طالبان


کابل (اے ایف پی /جنگ نیوز )طالبان نے کہا ہے کہ جنگ بندی کیلئے افغان صدر کا عہدے سے ہٹنا ضروری ہے، دوسری طرف امریکا نے افغان حکومت کی درخواست پر گزشتہ چند روز میں 6 سے 7فضائی کارروائیاں کی ہیں اور ان میں سے اکثر ڈرون حملے کیے گئے۔

تفصیلات کے مطابق امریکا نے طالبان کیخلاف افغان فورسز کی لڑائی میں فضائی بمباری کرکے افغان حکومت کا ساتھ دیا جس کی پنٹاگون نے تصدیق بھی کی ہے۔

ادھر امریکا نے طالبان کی اسٹریٹجک برتری کا بھی اعتراف کیا ہے ، امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے پنٹاگون میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ میں بظاہر ʼاسٹریٹیجک برتری‘ حاصل کرلی ہے۔

جنرل مارک ملی کا کہنا تھا،”اب قوت ارادی اور افغان قیادت، افغان عوام، افغان سکیورٹی فورسز اور افغان حکومت کا امتحان ہونے والا ہے۔"ادھر طالبان کاکہنا ہے کہ امن معاہدے کیلئے افغان صدر کا عہدہ چھوڑنا ضروری ہے، طالبان کاکہنا ہے کہ امن معاہدے کیلئے افغان صدر کا عہدہ چھوڑنا ضروری ہے۔ 

ترجمان سہیل شاہین جو مذاکرات کرنے والے گروہ کے رکن بھی ہیں، نے طالبان کے مؤقف کی نشاندہی کی کہ ملک میں آگے کیا ہوسکتا ہے۔سہیل شاہین نے کہا کہ جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوگی اور دونوں فریقین کی جانب سے قابل قبول مذاکرات کے بعد نئی حکومت کابل میں قائم ہوجائے گی تو وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں گے۔

دوسری جانب افغانستان کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ طالبان کا ملک کی 90 فیصد سرحدوں پر قبضے کا دعویٰ ’سراسر جھوٹ‘ ہے اور ملک کی سرحدوں پر افغان سکیورٹی فورسز کا کنٹرول ہے۔اے ایف پی کے مطابق وزارت دفاع کے نائب ترجمان فواد امان نے طالبان کے دعووں کو ’بے بنیاد پروپیگنڈا‘ قرار دیا ہے۔

طالبان کے ترجمان نے جمعرات کو دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان کی 90فیصد سرحد پر طالبان کا کنٹرول ہے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے روسی میڈیا کو بتایا تھا کہ افغانستان کے تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران، یا90فیصد سرحد طالبان کے قبضے میں ہے۔تاہم ترجمان کے اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں امریکہ نے فضائی حملوں کے ذریعے افغان سکیورٹی فورسز کی طالبان کے خلاف لڑائی میں مدد کی ہے۔

پریس بریفنگ کے دوران جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی نے فضائی حملوں کی اجازت دی تھی۔پنٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکہ افغان سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ وہ فضائی حملوں کے حوالے سے تفصیلات نہیں مہیا کر سکتے۔ تاہم سیکرٹری دفاع کے بدھ کو دیے گئے بیان کو دہراتے ہوئے کہا کہ امریکہ افغان سکیورٹی فورسز اور افغان حکومت کی معاونت کے لیے پرعزم ہے۔

امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان ملک بھر میں پیش قدمی کرتے ہوئے مختلف علاقوں اور سرحدی راہداریوں پر قبضے کے علاوہ شہروں کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ملک کے تقریباً نصف یعنی 400اضلاع طالبان کے قبضے میں ہیں۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں داعش کو فعال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

طالبان ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں وسطی ایشیا یا چین سے تعلق رکھنے والے شدت پسند موجود نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ طالبان نے ترکی کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ انخلا مکمل ہونے کے بعد افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کی کسی طور بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔

علاوہ ازیں ترجمان سہیل شاہین جو مذاکرات کرنے والے گروہ کے رکن بھی ہیں، نے طالبان کے مؤقف کی نشاندہی کی کہ ملک میں آگے کیا ہوسکتا ہے۔سہیل شاہین نے کہا کہ جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوگی اور دونوں فریقین کی جانب سے قابل قبول مذاکرات کے بعد نئی حکومت کابل میں قائم ہوجائے گی تو وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں گے۔

تازہ ترین