• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک بیان سو سیاستدان

بلاول بھٹو: سیاسی یتیم ہمارے خلاف اکٹھے کئے جا رہے ہیں، زیادہ پیسے والا کشمیر کا وزیر اعظم بنے گا۔ فرخ حبیب: سندھ میں سیاسی عہدوں کا کیا ریٹ ہے؟ اگر سیاست خدمت،صلاحیت و اہلیت کو کہتے ہیں تو اس ملک میں سیاسی یتیم خانہ کھول دینا چاہئے،سیاست باپ دادا کی میراث نہیں کہ کسی کوسیاسی یتیم کہا جائے، کیوں نااہلی کو مرحومین کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے، یہاں کبھی کوئی اپنی ذاتی صلاحیت سے بھی خالہ جی کے باڑے میںداخل ہوا ہے، دراصل سیاست یتیم ہے ورنہ یہاں اس کےکتنے ہی لائق فائق باپ ہوتے۔ جس جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیاست دانے، ایک دانہ چکھ لو پوری دیگ کا مزا لے لو، صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے، بظاہر ہر دوسیاستدان عاقل بالغ ہیں اس لئے عقل بھی ایک جیسی بلوغت بھی ایک جیسی، الغرض نابالغ سیاسی جھنڈے تلے ہم سب ایک ہیں، سبز ہلالی پرچم تو بس ایک سائبان ہے جس کے نیچے سارے بے پروا ’’ڈھولے’’ اپنے گناہوں سے پناہ لیتے ہیں، اگر سارے ہجویہ سیاسی بیانات کو یکجا کیا جائے تو سیاست کپتی عورتوں کا محلہ ہے جس کی ہر منڈیر آباد اور غریب عوام کےمحلے برباد، کوئی بیان دیتے وقت الزام کو اپنے دامن پر نہیں دیکھتا، سارے امیرکبیر سیاستدان بیچ میدان یہی کہتے ہیں، آزاد کشمیر کا وزیر اعظم زیادہ پیسے والا بنے گا کیونکہ یہاں چپراسی لگنے کے لئے بھی پیسہ چاہئے۔ کیا وطن عزیز میں کوئی غریب ترین سیاستدان بھی ہے، یا سب جہانگیر ترین ہیں، ہماری سیاست کا مدعا زن، زر، زمین ہے، یہ ہیں وہ بت جن کے پرستار ہیں ہم۔ اقبال سوال کرتے ہیں ؎

ہم پوچھتے ہیں مسلمِ عاشق مزاج سے

الفت بتوں سے ہے تو برہمن سے بیر کیوں؟

٭٭٭٭

ہم نے مانگی تھی سرمہ دانی لے آیا ظالم بنارس کا زردہ

مردان تعلیمی بورڈ نے فرسٹ ایئر کے طلبہ کو نہم ریاضی کا پیپر تھما دیا ؎

عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا

جس صوبے پہ ناز تھا وہ صوبہ نہیں رہا

خیبر پختونخوا میں ہر شخص کو کچھ نہ کچھ تھما دیا گیا ہے، اور تھامنے والا کہتا ہے ؎

قید مانگی تھی رہائی تو نہیں مانگی تھی

گویا جو وہاں کے عوام کے پاس ٹوٹا پھوٹا تھا اس سے بھی آزاد کردیا، صوبے کے اکثر شہروں میں بجلی ایک گھنٹہ آتی ہے ایک گھنٹہ جاتی ہے۔ جہاں اس طرح کی لوڈشیڈنگ چل سکتی ہے، فرسٹ ایئر کے طلبہ کو نہم جماعت کی ریاضی کاپیپر کیوں نہیں تھمایا جاسکتا، کیا آنجناب محمودخان اپنے انتہائی مثالی صوبے میں ان غلط نوازیوں کا بھی کچھ نوٹس لیں گے یا چیف منسٹری ہی کھیلتے رہیں گے، الغرض اب مردان میں گیارہویں کے طلبہ نہم کےطلبہ بن جائیں گے، بھلا ترقی معکوس کی اس سے بہتر مثال کیا ہوگی؟ سنا ہے جیل میں مفت کھانابھی ملتا ہے اور لوڈشیڈنگ بھی کم ہوتی ہے۔ یہ گورننس ہے یا مزاح کثیف؟ امن امان کا مثالی حال یہ ہے کہ پولیس نفری وقوعہ کے بعد موقع پرپہنچتی اور پانچ سو فی کس لے کر واپس آ جاتی ہے، پی ٹی آئی تاحال اپنے نظریات کی دلدل سے نہیں نکلی باقی دوبرسوں میں شاید نئے نظریات لے کر آ جائے اسی کو تو تبدیلی کہتے ہیں، لوگ نظریات لوٹ رہے حکومت کے ذمہ داران دولت، اس لئے مردان تعلیمی بورڈ نے جو کیا وہ ٹھیک ہی کیا، یہ تو وہی بات ہے کہ ڈیم ٹوٹ گیا پیچھے کو دوڑو، تنور جلائو جتن سے روٹیاںلگادرو دیوار پر، عجیب داستان ہے ہم رہے نہ ہم تم رہے نہ تم، مردان تعلیمی بورڈ تو برسات کا اندھا تھا، مگر انجن کو کیا ہوا کہ دوڑ رہا ہے پیچھے کی طرف۔

کوئی حیرانی سی حیرانی ہے

مردان تعلیمی بورڈ دیکھ کر پورا گھر یاد آیا

٭٭٭٭

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ برآمدات بڑھانے کے لئے صنعتوں کو سہولتیں دے رہے ہیں، جبکہ مہنگائی کی شرح 0.3فیصد بڑھ گئی۔یہ ایک بڑا آسان سا جواب ہے حکمرانوں کے پاس کہ فلاں ملک میں بھی فلاں چیز کے دام بڑھ گئے، یہ نہیں بتاتے کہ وہاں کی معیشت کتنی تگڑی ہے، مزدوری کے لئےہم دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں وہ تو ہمارے ہاں نہیں آتے جہاں درختوں پر نوٹ لگتے ہیں، ہمارے ہاں ببول کے کانٹے، اگر صنعتوں کو حالت بیداری میں سہولتیں اب جا کر دے دی جائیں تو ابھی دوسال باقی ہیں ٹپکے کےآم ہماری جھولی میں ہوں گے، پر کتھوں۔یہ تو وہی بات ہوئی کہ پیار ویار دل دل میں کیا جانوں رے، جانوں تو جانوں بس اتنا کہ تجھے اپنا وزیراعظم جانوں رے! آخر 72 برس بعد بھی ہمارا یہ حال کہ دمڑی کی بڑھیا ٹکا سرمنڈائی، کیوں حکومتی اخراجات عام آدمی کی سطح پر نہیں لائے جاتے، فرد واحد کا تقویٰ باقی ساری ٹیم کے لئے حلوہ ہی حلوہ، ترقیاتی فنڈ اللوں تللوں پر کل بھی خرچ ہوتے تھے آج بھی، اچھی بات ہے کہ صنعتوں کوسہولتیں دی جارہی ہیں، مگر یہ جو عوام کو صعوبتیں دی جا رہی ہیں کچھ اس کا بھی علاج اے چارہ گراں ہے کہ نہیں، قلم وہی لکھتا ہے جو کاتبِ تقدیر لکھواتا ہے کہ کیوں حکمرانی کے شوق میں غریبوں کی تقدیر سے کھیلتے ہو، یہ ستم ستم کھیل کب بند ہوگا، کب گلیوںسے صاف غربت کا گند ہوگا، کب تک سبز پرچم تلے یہ ملک بے نام و ننگ ہوگا، بلاول بھٹو کہتے ہیں آزاد کشمیر کا وزیر اعظم کوئی امیر ترین شخص بنایا جائے گا، کاش آپ کشمیری ہوتے اور ایک عدد سیٹ جیت لیتے، ہم تو لفظوں کے پیچ و خم میں بات کر جاتے ہیں کہ کسی طرح کام نکلے۔

٭٭٭٭

تازہ ترین