• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیارومانوی انقلابی دور تھا، جب پاکستان کے تعلیمی ادارے، شاہراہیں اور میدان ’’سرخ ہے سرخ ہے ایشیاسرخ ہے‘‘کے پرجوش نعروں سے گونجتے تھے۔اُس دورمیں یہ نعرہ ترقی پسندقوم پرستوںسمیت رجعت پسندمخالف جماعتوں وتنظیموں کا استعارہ تھا۔اگرچہ ہم پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں بھی یہ نعرہ مستانہ لگاتے، مگر اس کی رعنائی وزیبائی اور ولولہ تازہ این ایس ایف ہی کے دم قدم سے تھا۔ دوسرانعرہ جو سامراج مخالف جدوجہد کو مہمیز دیتاتھاوہ ’امریکہ کا جو یارہے غدارہے‘تھا۔آج کی سیاست کا لطیفہ یہ ہےکہ یہ نعرہ آج وہ عناصر لگارہےہیں، جوامریکہ کےحلیف کہلائے جانےوالوں کےحلیف رہے، یہ سوویت یونین کے بخرے کرنے کا سہرااپنے سر باندھتے ہیں، حالانکہ اس کے بعد ہی تو امریکہ واحد سپرپاوربنا، توسوال یہ ہےکہ سوویت یونین کے انہدام کا کریڈٹ لینے والے امریکہ کےدوست کہلائیں گے یا دشمن؟ بات این ایس ایف کی ہورہی تھی، تمام عمر ابنِ آدم کے آدرشوں کیلئے بے باک وبااصول جدوجہد کرنے والے درویش صفت بے بدل قلمکاراحفاظ الرحمٰن طلبامیں جبر واستحصال کیخلاف ارتعاش وتحرک پیدا کرنے والی اس تنظیم کے متعلق لکھتے ہیں’’کیا عظیم الشان جماعت تھی، کیسے کیسے چہرے چمکتے تھے، کیسے کیسے کارنامے انہوں نے انجام دئیے، پائوں میں چھالے، جیب میں چنے، گلاس بھر پا نی، آسمان فتح کرنے نکلے تھے۔زخم زخم ہونے کے بعدفخرسے نعرہ لگاتے’’ایشیاسرخ ہے‘‘مزدورکسان طلبااتحاد زندہ باد، امریکی سامراج مردہ باد‘‘پوراپاکستان ان میٹھے نعروں سے گونجتاتھا‘‘۔راقم کو ڈاکٹرمحسن جاویداور اُستاد وادیب محسن ذوالفقارکی تصنیف’’سورج پر کمند‘‘کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ خیا ل آیا، تین جلدوں پرمشتمل یہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ ہے، مرحوم احفاظ الرحمٰن صاحب کی تحریر اسی کتاب کے ٹائٹل کی زینت ہے۔اگرچہ یہ کوتاہ علم وکج فہم طالب علم بھی 80کی دہائی میں طلباسیاست کا حصہ رہنے کے باوصف اُس دورکی سیاست سے کچھ کچھ واقف ہے، لیکن مذکورہ کتاب کے دوہزارسے زائد صفحات قیام پاکستان سے قبل اور بعدتاماضی قریب کےجملہ سیاسی واقعات اوربین الااقوامی دلچسپیوں کا جامع احوال لئے ہوئے ہے۔مختصریہ کہ این ایس ایف کی تاریخ کے تناظرمیں ملکی سیاست وسیادت کےتمام پہلواس قدرتفصیل سے سامنے آجاتے ہیں کہ تشنگی نہیں  رہتی۔ بنابریں اس کتاب کے مطالعہ سے اُن حقائق سے بھی آگاہی حاصل ہوجاتی ہے، جن پر آج دبیز پردے پڑے ہیں، دوسرے معنوں میں اس کتاب میں آپ کو مطالعہ پاکستان سے ہٹ کروہ سب کچھ پڑھنے کو ملے گاجو پاکستان کی اصل تاریخ ہے، یہ کتاب حقیقی محب وطن چہروں کابےلاگ تعارف بھی ہے۔ مصنّفین خودطلباتحریکوں کا حصہ رہے، دونوں کراچی میں تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ چلےگئے، ڈاکٹرمحسن جاویدجو ایک ماہرنفسیات ہیں انہوں نے ازراہِ کرم دوسری وتیسری جلدارسال کی ہے، پہلی جلد کی تقریب رونمائی کراچی آرٹس کونسل میں ہوئی تھی۔ اس کتاب کا ہر باب دلچسپ معلومات لئے ہوئے ہے، اس لئے یہاں کس کس پر بات کی جائے، اس مختصر کالم کا البتہ پیغام یہ ہے کہ آج کی سیاست میں اگر شائستگی، رواداری اور بالخصوص تہذیب خال خال نظرآتی ہے، تو اس کی بڑی وجوہات میں تربیت کا فقدان، سیاست کا روح سے خالی ہونا اور بہ وجوہ عوام کی نظر میں سیاست کو گالی بنادینا شامل ہے۔جب ہم این ایس ایف اور اس حوالے سے ڈی ایس ایف جیسی دیومالائی تنظیموں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں، توقاری دیومالائی داستانوں ہی کی طرح ورطہ حیرت میں مبتلا ہوجاتاہے، کہ کیا ماضی میں ایسی بے لوث اورکمیٹڈ تنظیمیں بھی رہی ہیں، کیا درحقیقت سیاسست مفادات کی بجائے خدمت کا نام ہےاور کیا ایسے دیوانے بھی تھے جو صرف دوسروں کے حقوق کی خاطر عقوبت خانےآباد کئے رکھتے تھے؟آج اگرایک طرف تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست کانام ونشان نہیں ملتاتو دوسری طرف والدین اپنے بچوں کو سیاست سے دوررہنے کی تلقین کرتے ہیں، آج سیاست میڈیکل کے طالب علموں کےمستقبل کیلئے خطرناک سمجھتی جاتی ہے۔ان طلبہ نے سیاست میں تمام تر مشقتوں کے باوجودنہ صرف یہ کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کی، بلکہ اپنے شعبوں میں آج بھی خدمت انسانیت سے وابستہ ہیں، ڈاکٹرادیب الحسن رضوی اپنی ٹیم کے ساتھ ایس آئی یو ٹی میں غریب عوام کی جو خدمت سرانجام دے رہے ہیں، وہ پورے ملک کیلئے ایک مثال ہے۔شعبہ امراض سرطان کے سربراہ ڈاکٹر الطاف ہاشمی سمیت پروفیسرادیب رضوی کی ٹیم میں شامل اکثر ماہر ڈاکٹر زاین ایس ایف سے ہی وابستہ رہےہیں۔کہنایہاں یہ ہے کہ ایک حکمت عملی کے تحت جہاں سیاست کو کرپشن کے ذریعے رسواکیا گیاوہاں تعلیمی اداروں میں تشدد کو رواج دے کر طلبہ سیاست کو معیوب بنادیاگیا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تربیت نہ ہونے اور نو دولتیوں وجاگیرداروں کی سیاست میں دراندازی سے سیاست کو جہاں آج مفادات کاکھیل کہا جانے لگاہے تو وہاں دشنام طرازی، ریاکاری و عیاری ناگزیرفن بن گیا ہے۔

تازہ ترین