• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بد سے بدتر اور بدتر سے بدترین
نہ کل کچھ ہوا، نہ آج کچھ ہو رہا ہے نہ آنے والی کل کی کوکھ میں کچھ دکھائی دیتا ہے۔ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس دوست محمد خان کہتے ہیں کہ حکومت اور اس کے ادارے مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور خدا جانے نئی حکومت کون سی نئی دنیا بسانے جا رہی ہے، جس کی اسمبلی، انتظامیہ اور پولیس کوئی کام نہیں کر رہی۔ یہی حال رہا تو خونیں انقلاب آئے گا۔ جج صاحب نے کہا کہ عدلیہ نے غیر معیاری ادویات کے اربوں روپے خوردبرد کیس میں جعلی ادویات بنانے کے مراکز اور سپلائی کی تفصیلات دیں لیکن حکومت تاحال اس سلسلہ میں چیکنگ اور مانیٹرنگ کا طریقہ کار وضع نہیں کر سکی، چیف جسٹس نے اور بہت سی نااہلیوں کا بھی حوالہ دیا تو میں بھی سوچ رہا ہوں کہ نئی حکومت کون سی نئی دنیا بسانے جا رہی ہے؟
شاید ایک ایسی نئی دنیا جس میں بھوک اور بلٹ ٹرین کے درمیان مقابلہ ہو گا اور بھوک جیت جائے گی… میٹرو اور مہنگائی کے درمیان میچ ہو گا اور مہنگائی جیت جائے گی… انڈر پاس بنتے رہیں گے، عوام ”بائی پاس“ ہوتے رہیں گے… ڈالر بڑھتا اور روپیہ مزید گھٹتا رہے گا… حکمران طبقات تو پیداوار ہی تیرگی کی ہیں، ان سے اجالوں کی امید ایسے ہی ہے جیسے کوئی تھانے سے انصاف، سرکاری ہسپتال سے علاج یا سرکاری سکول سے تعلیم کی ا ٓس لگا لے۔ مجھے ان بیچاروں پر رحم آتا ہے جو کہتے ہیں… ”حکومتیں ڈلیور نہیں کرتیں“۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ ”بانجھ“ عورت چاہے بھی تو ڈلیور نہیں کر سکتی، ممکن ہو تو کسی ”ٹیسٹ ٹیوب بے بی“ کا بندوبست کرو ورنہ اٹھارہ کروڑ انسانوں کے گھر کا آنگن اسی طرح ویران اور سنسان رہے گا جن کی وجہ سے عوام کی زندگیاں حرام اور جینا عذاب ہوا ان سے سکھ اور سکون کے خواہش مندوں کو ابھی اور سزائیں بھگتنی ہیں کہ ابھی تو حکومتیں ”وارم اپ“ ہو رہی ہیں۔
یہ تو وہ ”ہیومن میٹریل“ ہی نہیں جو عوام کی اذیتوں کی الف بے سے بھی واقف ہو، یہ مگر مچھ آنسو بہائیں گے، یہ لگڑ بگڑ آپس میں لڑتے مرتے بھی دکھائی دیں گے، یہ باگھ ایک دوسرے پر پنجے بھی چلائیں گے لیکن ان کے درمیان اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ عوام کو گیم میں نہیں گھسنے دینا، نام نہاد میگاپراجیکٹس رومن اکھاڑوں کی جدید شکلیں ہیں جہاں بنیادی ترین ضروریات زندگی کیلئے عوام سہک رہے ہوں، وہاں ترقی یافتہ ترین ملکوں اور معیشتوں جیسے منصوبے؟ لیکن میگا کمیشن تو میگا پراجیکٹس میں ہی ممکن ہے۔ سکولوں، ڈسپنسریوں میں ریز گاری کے علاوہ ہوتا ہی کیا ہے اور یوں بھی گلیمرس قسم کے یہ میگاپراجیکٹ انتخابی مہم میں بھی بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں، عوام کو بیوقوف بنانے کے کام آتے ہیں:
لفظ کیا لوگ تو تحریر سے پھر جاتے ہیں
تو نے کیوں میری ہر اک بات کو سچ جانا تھا
ایک طرف لاہور پر تھوپا گیا اربوں روپیہ جس میں نہ تھانہ کلچر تبدیل ہوا نہ پٹوار کلچر تو ان پر بھی لعنت بھیجیں کہ یہی کلچر تو ان کا سروائیول ہے لیکن لاہور شہر کا بھکاری مافیاؤں میں نیلام اور تقسیم ہوتا بھی تو کوئی داستان بیان کر رہا ہے۔ یہ ہے گڈ گورننس کا اصلی چہرہ!
میں جب بھی کوئی ذلت اور کراہت میں لتھڑی خبر پڑھتا ہوں تو یہ سوچ کر پرسکون ہونے کی کوشش کرتا ہوں کہ اب اس سے زیادہ گھٹیاپن ممکن نہیں، مثلاً پچھلے دنوں میں نے دیکھا کہ ایک ”فیکٹری“ میں ادرک ”تیار“ ہو رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے تالاب سے بنا کر ان میں کیمیکل ڈال کر اس میں ادرک ڈبویا ہوا ہے جو چند گھنٹوں میں نہ صرف ادرک کا وزن بڑھا دیتا ہے بلکہ اسے لیڈروں کے چہروں جیسی چمک بھی عطا کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کھانے والوں کو کینسر بھی۔ یہ ٹی وی رپورٹ دیکھ کر میں دنوں کڑھتا رہا اور پھر یہ سوچ کر شانت ہو گیا کہ اس سے آگے اور کوئی گندگی ممکن نہیں لیکن اس تازہ ترین انکشاف نے تو طبیعت ہی صاف کر دی ہے کہ …
”گڈ گورننس کے گڑھ“ اور ”میٹرو فیم“ لاہور میں بھکاریوں نے مختلف علاقوں کے ”ٹھیکے“ لے رکھے ہیں مثلاً انارکلی، نیلا گنبد، چھ لاکھ، لاری اڈہ 8 لاکھ میں نیلام ہوا۔ دو سو روپے دیہاڑی پر بھکاری بچے بھی دستیاب ہیں لیکن ”Rent A Child“ کا کلچر خوب پروان چڑھ رہا ہے۔ داتا دربار گھاگروں کا نہ صرف ”کیپٹل“ ہے بلکہ بھکاریوں نے اپنا نجی بینک بھی قائم کر رکھا ہے جو ابھی تک قرضہ خور سیاستدانوں کی دست برد سے بھی محفوظ ہے اور اس کا کوئی سکینڈل بھی ابھی تک سامنے نہیں آیا، گداگر مافیاز بھی یہ سب کچھ انتظامیہ سے ملی بھگت کے بعد کر رہے ہیں۔
یہ کیسی حکومتیں ہیں جنہیں ترجیحات تک کی تمیز نہیں، تھانہ کلچر یہ نہ بدل سکے، پٹواری کو نتھ یہ نہ ڈال سکے، جعلی ووٹوں کی پروڈکشن یہ نہ ر وک سکے، اوزان کی درستگی کی انہیں پروا نہیں، پرائس کنٹرول ان کے بس کی بات نہیں، ملاوٹ کا مکو یہ نہ ٹھپ سکے، ٹریفک کو یہ منظم نہ کر سکے، سرکاری محکموں سے پٹرول چوری کا سدباب یہ نہ کر سک، علی ہذا القیاس!
ان میں سے کسی کام پر کچھ نہیں لگتا سوائے ”گڈگورننس“ کے کہ یہی دراصل ”گڈ گورننس“ کے مختلف معیار ہیں کہ ہر پرزہ اپنی اپنی جگہ پر درست کام کر رہا ہو، لوگوں کی زندگیاں محفوظ اور آسان بنائی جا رہی ہوں لیکن خود دیکھ لیں، ہر جگہ صفر بلکہ سچ پوچھو تو صفر بھی نہیں کیونکہ
میتھی میٹکس میں صفر بہت قیمتی ہوتا ہے۔ پیسہ عوام یعنی ٹیکس پیئر کا… منصوبہ ڈیزائن فیزیبلٹی وغیرہ سب کام پروفیشنلز کا، محنت مزدوروں کی تو یہ کون سی توپ ہے؟ مزہ تب ہے کہ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری نہ ہو۔جعلی دوائیں بنانے کا کوئی تصور نہ کر سکے اور ملاوٹ کرنے والا ایسا سوچ کر ہی سہم جائے۔ٹریفک اتنی منظم ہو کہ ڈیزل پٹرول کا ایک قطرہ فالتو خرچ نہ ہو۔ٹکڑیاں، وٹے، سکیل سو فیصد قابل اعتبار ہوں۔ یہ اور ایسے بیشمار بظاہر چھوٹے چھوٹے معمولی کام ہی اصل میں گورننس کا امتحان ہیں، ورنہ موٹروے سے میٹرو تک سب کچھ بودا، بیکار اور دکھاوا سمجھو۔ آؤ گڈگورننس کو اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق Re Define کریں لیکن یہ کلرکوں کا کام نہیں۔معیشت، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی اور ڈرون کو تو گولی مارو کہ یہ میکرو لیول کے چیلنجز ہیں… ہمت ہے تو صرف ملاوٹ، مصنوعی مہنگائی اور جعلی ادویات کی پروڈکشن ہی روک کر دکھا دو لیکن کوئی ماں کا لعل اس میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کر سکتا۔”گڈگورننس“ جیسے ڈھونگ ڈراموں سے نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے جس کی طرف عزت مآب چیف جسٹس دوست محمد نے اشارہ کیا… خونیں انقلاب، کہ اتنی غلاظت خون کے غسل سے ہی صاف ہو سکتی ہے، جب تک جمہوری قسم کے معمر قذافی، حسنی مبارک اور زین العابدین کٹہرے میں نہیں آئیں گے… پاکستان اور پاکستانی عوام کو قرار نہیں آئے گا، گڈگورننس اسی طرح ان کی چیر پھاڑ میں مصروف رہے گی۔ ”ڈرون“ سے کہیں زیادہ خوفناک یہ ڈھونگ اور ڈرامہ یونہی چلتا رہے گا۔
تازہ ترین