• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کے لئے اگلے چھ ماہ ان کی سیاست ،جمہوریت کے استحکام، اداروں میں عدم تصادم اور میرٹ پر فیصلے کرنے کے حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان فیصلوں کے ملکی حالات پر نہ صرف گہرے اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس سے معاشی اور تجارتی سرگرمیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ جس سے پاکستان کی معاشی سمت کا تعین کرنے اور حکومت کو اپنے انتخابی وعدوں پر عملدرآمد کرنے کے مواقع بھی مل سکیں گے۔ دوسری صورت میں پاکستان کے لاتعداد داخلی اور خارجی مسائل کی وجہ سے اقتصادی امور کاایجنڈا کئی سال آگے جاسکتا ہے۔ آئندہ چھ ماہ میں جو تین بڑے فیصلے ہونے والے ہیں ان میں اگلے چند ہفتوں میں صدر آصف علی زرداری کی جگہ مسلم لیگ کے صدر کی تعیناتی اور تقرری کا معاملہ ہے جس میں ظاہر ہے کہ چھوٹے صوبوں میں سے کسی شخصیت کا چناؤ عمل میں لایا جائیگا۔ اس لئے کہ اس وقت وزیر اعظم اور سپیکر اسمبلی کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ وفاقی کابینہ میں کئی اہم عہدے بھی پنجاب کے پاس ہیں۔ اس لئے صدر کا ا نتخاب یقینا چھوٹے صوبوں میں سے ہوگا۔ اس وقت اس حوالے سے قابل ذکر نام سینیٹر سرتاج عزیز کا ہے جو اس وقت وزیر اعظم کے قومی سلامتی امور کے مشیر ہیں۔ وہ سابق وزیر خارجہ اور خزانہ بھی ہیں۔انہیں مسلم لیگ کے موجودہ منشور کا اہم کردار بھی کہا جاتا ہے۔ سرتاج عزیز بنیادی طور پر ٹیکنو کریٹ ہیں ، وہ1980ء کی دہائی میں عالمی ادارہ خوراک(FAO) سے وابستہ رہے، پھر اسلام آباد میں کئی اہم پوزیشنوں پر تعینات رہے۔ ان کا تعلق خیبر پختونخواہ(سرحد) سے ہے۔ اس کے بعد بلوچستان سے میر ظفر اللہ جمالی سابق وزیر اعظم اور سندھ سے سابق وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ وغیرہ کے نام بھی آتے ہیں۔ اسلام آباد میں اس وقت وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مزاج کے حوالے سے یہ ذکر ہورہا ہے کہ انہیں ایوان صدر میں ایک بزرگ کو بٹھانا ہے جس سے صرف مشاورت اور کئی اہم فیصلوں میں کلیدی کردار کا کام لیا جائے ۔ اس کے بعد ماہ ستمبر سے اکتوبر کے عرصہ میں نئے آرمی چیف کا تعین ہے جس کیلئے موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان رسمی مشاورت تو ہوچکی ہے۔ اس عہدے کے لئے دو سینئرجرنیل، لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود اور لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم کے نام لئے جارہے ہیں۔ ان میں کون جوائنٹ چیف سٹاف جنرل شمیم وائیں کی جگہ لیتا ہے اور اس کے بعد نئے چیف کا قرعہ کس کے نام نکلتا ہے۔
تیسرے مرحلہ میں ماہ اکتوبر سے دسمبر کے درمیان وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کا تقرر کرنا ہے۔ موجودہ چیف جسٹس مسٹر افتخار محمد چوہدری دسمبر کے پہلے اور دوسرے ہفتے کے درمیان ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔ ان سے چند ہفتے پہلے ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج کے زیر تربیت آفیسروں سے ملاقات میں سوال و جواب کی روایتی نشست میں پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ توسیع ملازمت چاہتے ہیں جس کے بعد جواب دیا گیا کہ اس بارے میں آئین کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا۔ ان تین فیصلوں کا انتظار جہاں قوم کو ہے وہاں بزنس سیکٹر کو کافی زیادہ ہے۔ ان کے مطابق اگر یہ فیصلے صرف اور صرف میرٹ پر ہوئے تو اس سے بیرونی دنیا پر اچھا تاثر جائیگا۔ دوسرا غیر ملکی سرمایہ کار اور تاجر اطمینان سے بزنس بڑھانے کا سوچیں گے کہ پاکستان میں کم ا ز کم اعلیٰ عہدوں کے لئے فیصلے میرٹ پر کئے جاتے ہیں اور یہاں رول آف لاء اور اصول ضوابط کار کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ ماضی میں تو حکمرانوں کے کئی غلط فیصلوں کا خمیازہ خود انہیں بھی اور قوم کو بھگتنا پڑا ۔ویسے بھی اعلیٰ اداروں میں صحیح فیصلوں سے قومی سطح پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ عملاً نواز شریف حکومت کے لئے آئندہ چھ ماہ کے لئے کافی ہیں۔ اسلام آباد میں بتایا جاتا ہے کہ اس حوالے سے وزیر اعظم پر کوئی دباؤ نہیں ہے بہتر ہے کہ وہ دیگر سیاسی قائدین سے بھی اس سلسلہ میں مشاورت کرلیں تو اس سے ان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ اس سے سیاسی میدان میں اعتماد سازی کو فروغ حاصل ہوگا۔ اس لئے کہ ان فیصلوں کے پس منظر میں کئی دوسرے ممالک بھی خاصی دلچسپی رکھتے ہیں، جہاں سے پاکستان کو مشکل حالات میں نہ صرف اخلاقی بلکہ مالی اور اقتصادی سپورٹ بھی ملتی ہے۔ اب خیال ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں وزیر اعظم اور ان کی فیملی عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے جائے گی تو یقینا وہ سعودی حکمرانوں اور شاید خاندان میں اپنے دوستوں سے ضرور مشاورت اور رہنمائی حاصل کریں گے۔ ان کی اس ملاقات میں طالبان کے ساتھ دوحہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی اور افغانستان کے حوالے سے مستقبل کے خدشات پر بھی تبادلہ خیال ہوگا جن کی وجہ سے پاکستان میں سیکورٹی کی صورتحال پریشان کن ہوتی جارہی ہے۔ اس ا یشو کو فوری طور پر حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے لئے کوششوں کو تیز کرے۔ دوسرا بعض حلقوں کے مطابق وزیر داخلہ چودھری نثار حسین کے بیانات سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ شاید وہ ابھی بھی اپوزیشن لیڈر کے طور پر بیان دے رہے ہیں۔
موجودہ حالات میں اگر یہاں امن اور سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہوگی تو اس سے دہشتگردی کے خاتمہ میں مدد ملے گی اس کے بعد ہی غیر ملکی سرمایہ کار اور انجینئرز یہاں آتے جاتے خوف محسوس نہیں کریں گے لیکن اگر نانگا پربت وغیرہ جیسے واقعات کا سدباب نہ کیا جاسکا اور قومی سلامتی کے حوالے سے را، موساد اور دیگر اداروں کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو دہشتگردی کی لہر میں اضافہ ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے کراچی ہو یا پورا ملک ہر جگہ معیشت بڑے دباؤ میں آسکتی ہے جس سے یقینا بے روزگاری اور غربت بڑھے گی۔ دوسری طرف انرجی کا بحران حل کرنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات سے عوام تو مطمئن نظر نہیں آرہے اس کے لئے وزیر اعلیٰ نے شہباز شریف ذاتی طور پر واپڈا حکام سے رابطے تو کررہے ہیں مگر معاملہ رابطوں سے نہیں عملی اقدامات سے کچھ کرنے کا ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اگلے چھ ماہ میں عوام سمیت سب حلقوں کو مطمئن کرنے کا بہترین وقت ہے یہ وقت ہاتھ سے نہیں نکلنا چاہئے عوام کو ان سے بڑی توقعات ہیں ۔یہ توقعات کم وسائل کے باوجود کچھ نہ کچھ تو پوری ہونی چاہئے۔
تازہ ترین