• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرخ آنکھیں ،بال بکھرے ہوئے ،چہرے پر تھکن کے آثار ،رات گیارہ بجے سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا لیکن پھر بھی وہ ایک عزیز کے گھر ان کی والدہ کا چیک اپ کرنے پہنچے ہوئےتھے، یہ ڈاکٹر راشد تھے جو کراچی کے بڑے سرکاری اسپتال کے کووڈ یونٹ کے انچارج تھے جو دن بھر کورونا کے مریضوں کی جان بچانے کے لئےاپنی جان خطرے میں ڈال کر ان کی دیکھ بھال میں مصروف تھے اور رات گئے گھر جانے کے بجائے یہاں ایک اور مریض کی جان بچانے پہنچے تھے، انہوں نے شہر میں کورونا کی جس حقیقی اور خطرناک صورتحال سے آگاہ کیا وہ واقعی رونگھٹے کھڑے کردینے والی تھی ،ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے اسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لئے جگہ ختم ہوچکی ہے، لوگ اپنے مریضوں کے ساتھ اسپتالوں کے باہر اپنی باری آنے کا انتظار کررہے ہیں جبکہ اس سے بڑی تعداد گھروں میں کورونا سے جنگ میں مصروف ہے جن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کورونا کے مرض کو گھر میں ہی ٹھیک کرلیا جائے لیکن جب ان کا آکسیجن لیول انتہائی کم ہوجاتا ہے اور گھر میں سیلنڈر کے ذریعے مریضوں کی ضرورت کے مطابق آکسیجن فراہم کرنا مشکل ہوجاتا ہے تو مریض کے اہل خانہ انہیں لے کر اسپتال کی جانب دوڑتے ہیں جہاں پہلے ہی جگہ ختم ہوچکی ہوتی ہے پھر زندگی اسپتال کے اندر کے ساتھ ساتھ اسپتال کے باہر دم توڑنا شروع کرتی ہے، یہی حالات اس وقت کراچی سمیت پاکستان کے کئی اور شہروں کےہیں، ڈاکٹر فیصل کے مطابق اسپتال کے باہر موجود کئی مریضوں کو یہ کہہ کر انتظار کرایا جاتا ہے کہ تھوڑا صبر کریں ایک مریض کی حالات خطرناک ہوگئی ہے۔ اس کے بعد ان کوبیڈ پر لے آتے ہیں ، بعض ایسی خطرناک باتیں بھی پتہ چلی ہیں جو شاید میرے لئےتحریر کرنا اور ادارے کے لئے شائع کرنا بھی ممکن نہیں ، لیکن ڈاکٹر راشد کی آنکھوں میں موجود آنسو یہی کہنا چاہ رہے تھے کہ خدارا قوم اس مرض کو سنجیدگی سے لیں، احتیاط برتیں، ماسک لگائیے، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں، گھر میں بزرگوں سے دور رہیں کیونکہ آپ جوان ہیں یہ مرض شاید آپ کو بہت زیادہ نقصان نہ پہنچا سکے لیکن آپ کے ذریعے اگر آپ کے والدین کو یہ مرض منتقل ہوگیا تو آپ کے بزرگ اور بیمار والدین اس مرض سے جیت نہیں سکیں گے ان کی زندگی کے لئے احتیاط کریں، ویکسین لازمی لگوائیں، ڈاکٹر فیصل اس وقت محترمہ آصفہ وقار کو دیکھنے میں مصروف تھے، جن کی عمر بہتر برس تھی جنھیں سانس لینے میں تکلیف کی شکایت تھی، شک تو سب کو ہی تھا کہ خداناخواستہ کورونا کا مرض لاحق نہ ہوگیا ہو لیکن نہ وہ خود اور نہ ہی ان کے اہل خانہ انہیں اسپتال لیجانے کے حق میں تھے، سب کی کوشش تھی کہ گھر میں ہی ان کا علاج کیا جائے یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر راشدکو گھر آنے کی زحمت دی گئی تھی لیکن انہوں نے بھی محترمہ کی تشویشناک حالت اور اکسیجن لیول چیک کرنے کے بعدانہیں فوراََ اسپتال لیجانے کا مشورہ دیا، اسپتال لیجانے کے صرف تین دن بعد محترمہ آصفہ وقار اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئیں اور پورے خاندان کو ایسا غم دے گئیں جو کبھی کم نہ ہوسکے گا۔

کورونا کا مرض ہی اتنا ظالم ہے جو نہ کسی کا رشتہ معلوم کرتا ہے نہ ہی کسی کی حیثیت اور اہمیت، یہ نہ امیری دیکھتا ہے نہ غریبی یہ دنوں میں انسان کو اس دنیا سے جانے پر مجبور کردیتا ہے، یہ مرض احساس دلاتا ہے کہ زندگی پانی کے بلبلے سے کم نہیں ہے،میرے والد بھی دو ہفتوں سے اس خطرناک مرض سے نبر آزما ہیں،کراچی کے معروف اسپتال میں زیرعلاج ہیں، پاکستان کے چند بہترین ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر بشیر حنیف اور ان کی ٹیم کی نگرانی میں ان کا علا ج جاری ہے ، لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا علاج صرف یہ ہے کہ اس بیماری کو ہونے ہی نہ دیا جائے جس کے لئے بھرپور احتیاط ضروری ہے ، لیکن جب یہ مرض لاحق ہوجائے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ مریض کو ضرورت کے مطابق آکسیجن فراہم کی جائے ، یہ مرض مریض کے پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے ، پھر مختلف قسم کے انفیکشنز ہوتے ہیں انھیں دیکھا جاتا ہے، کچھ عالمی ہیلتھ اسٹینڈرڈز ہوتے ہیں انھیں فالو کرتے ہوئے علاج کرتے ہیں، بہت سے مریضوں کو اللہ تعالیٰ اس مرض سے شفاء بھی دیتا ہے بعض دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں،لیکن میری پوری قوم سے صرف یہی درخواست ہے کہ خدارا احتیاط کریں، اس مرض کی سنگینی کو سمجھیں، یہ جان لیوا مرض ہے جس کا کوئی حتمی علاج دریافت نہیں ہوا، صرف احتیاط اور ویکسین اس مرض سے بچنے کا واحد طریقہ ہے،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اقوام عالم کو اس مرض سے محفوظ رکھے، خصوصاً میرے والد جو اس وقت مرض سے نبردآزما ہیں انہیں جلد از جلد صحتِ کاملہ عطا فرمائے، آمین،جبکہ پوری قوم کی جانب سے کورونا سے لڑنے والی فرنٹ لائن ٹیم،ڈاکٹرز،نرسز اور دیگر اسٹاف کو سلام پیش کرتا ہوں جو اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر کورونا کے مریضوں کے علاج ،ان کی تیمارداری اور دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین