• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان کے مزارات، درگاہیں، خانقاہیں
زیارت بی بی نانی

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ، بلوچستان سنگلاخ چٹانوں، بلند وبالا پہاڑوں، 700 کلو میٹر طویل ساحل ِسمندر، سونے، چاندی، تانبے، سنگِ مرمر اور کوئلے سمیت متعدد معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس سرزمین کو عظیم بزرگ ہستیوں نے بھی وقتاً فوقتاً اپنا مسکن بنایا، تو صوبے کے طول و عرض میں کئی بزرگ ہستیاں بھی آسودئہ خاک ہیں۔ دینِ اسلام میں داخل ہونے کا مطلب خدائے وحدہ لاشریک کی وحدانیت پر صدقِ دل سے ایمان لانا اور پھر اسی دائرے کے اندر رہتے ہوئے دیانت داری و پرہیزگاری کے ساتھ اللہ کے بندوں سے محبت و اخوت کی راہ اپنانا ہے۔ 

بلوچستان کے مزارات، درگاہیں، خانقاہیں
درگاہ فتح پورشریف

جب کہ اللہ تعالیٰ کے وہ خاص بندے، جو اللہ اوراُس کے محبوب، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنا نفس مار کے عشقِ حقیقی کے رستے پر چل پڑتے ہیں، ’’اولیا ء اللہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ ایک قول ہے کہ’’ کوئی بھی زمانہ اولیاء اللہ سے خالی نہیں رہے گا۔‘‘ اسی قول کے تناظر میں برصغیر کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ خطّہ بڑی بڑی عظیم ہستیوں کا مسکن رہا ہے۔ یہاں اسلام کی ترویج و اشاعت اور تبلیغ کا جو کام بے سروسامان فقیروں، درویشوں نےکیا، وہ بڑے بڑے شہنشاہ بھی نہ کرسکے۔

سرزمینِ بلوچستان میں تصوّف، صوفیائے کرام اور کامل پیروں کی روحانی لڑیاں جا بجا ملتی ہیں۔ یہاں نقش بندی، سہروردیہ، چشتیہ اور قادریہ سلسلوں کے پیروکار موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطّے میں اولیائے کرام اورصوفیائے عظام کےمزارات کی بڑی قدر و منزلت ہے ،جہاں مریدین سارا سال عقیدت و احترام سے حاضریاں دیتے رہتے ہیں۔

بلوچستان کے مزارات، درگاہیں، خانقاہیں
درگاہ شاہ نورانی

صوبۂ بلوچستان کےدارالحکومت، کوئٹہ کے مشہور مزارات میں دربار حضرت پہلوان بابا، دربارِ غوثیہ پیر محمد یوسف شاہ غازی قادری چشتی، پیر سمندر شاہ بابا نوری المعروف رجب علی شاہ، زیارت بی بی نانی سریاب اور دربارِ عالیہ غوث زمان عبدالقدوس المعروف دکانی بابا قلندر قابلِ ذکر ہیں، تو صوبے کے دیگر شہروں کے قابلِ ذکر مزارات میں بابا خرواری کا مزار، کوئٹہ سے 125 کلو میٹر دُور وادئ زیارت کے ایک پرفضا مقام پر ہے، جب کہ صوفی بزرگ، خلیفہ ملی ملائی کا مزار ضلع خضداراور معصوم بابا پیر لاکھا کا مزار پشین میں واقع ہے۔ 

ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے شہرت کے حامل ضلع، چاغی کے علاقے نوکنڈی میں کوہِ سلطان بابا، ضلع، لورالائی کی تحصیل دکی میں میاں عبدالحکیم (نانا صاحب) بوستان میں خنائی بابا، ضلع لسبیلہ میں سہوت شریف اور شاہ بلال نورانی کے مزارات واقع ہیں، تو کوئٹہ سے 350کلو میٹر دور جھل مگسی میں درگاہ فتح پورکے علاوہ بھی صوبے کے طول و عرض میں کئی بزرگ ہستیوں کے مزارات و خانقاہیں موجود ہیں۔ واضح رہے کہ ان تمام مزارات کے تمام تر اخراجات کا انحصار زائرین، مریدین اور عقیدت مندوں کی جانب سے دیئے جانے والے عطیات و خیرات پر ہے۔ 

بلوچستان کے مزارات، درگاہیں، خانقاہیں
دربار یوسف شاہ غازی

زیادہ تر مزارات کا نظم ونسق، مریدین کے ہاتھ ہے، جو عوام کے تعاون سے یہ سارا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں، تاہم حکومتی چشم پوشی اور عدم توجہی کے باعث مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ سو، ضرورت اس امر کی ہے محکمۂ اوقاف، مزارات کے لیے خصوصی فنڈز مقرر کرے ، مزارات کی تعمیر و مرمت، دیکھ بھال کے مناسب انتظامات سمیت دیگر سہولتیں بہم پہنچائے اور ملک بھر سے آنے والے زائرین کی رہائش کے لیے مہمان خانے بھی تعمیر کیے جائیں۔

ذیل میں صوبۂ بلوچستان کے طول و عرض میں واقع بزرگ ہستیوں کے مزارات، درباروں اور خانقاہوں کی مختصر تاریخ و تفصیل پیش ِ خدمت ہے۔

دربار حضرت پہلوان بابا : اسپنی روڈ، کوئٹہ میں واقع دربار حضرت پہلوان بابا، اولیاء اللہ حضرت پہلوان بابا کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہ سیّد تاجک قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور افغانستان کے علاقے غزنی سے ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ دربار کے منتظم کے مطابق، ’’حضرت پہلوان بابا کے جدّامجد، حکیم ثنائی ہجرت کرکے غزنی، افغانستان پہنچے تھے، جہاں آج بھی ان کا مزار غزنی کے ایک قصبے، روزہ میں واقع ہے۔ 

اُن کے پوتے، حضرت پہلوان بابا سولہ برس کی عمر میں اپنا گھر بار چھوڑ کر کچھ عرصہ کوئٹہ میں سکونت اختیار کرنے کے بعد سندھ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے سندھ اور پنجاب کے سرحدی گائوں میں ایک مسجد بھی تعمیر کی۔ سندھ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد حضرت لعل شہباز قلندر کے پاس سیہون تشریف لے گئے اور ان سے کسبِ فیض کے بعد حضرت لعل شہباز قلندر کے تخت نشین مقرر ہوئے۔ حضرت پہلوان بابا، اللہ کے انتہائی عاجز اور صابر و شاکر بندے تھے۔ انہوں نے سندھ میں کچھ عرصہ بھٹّہ مزدوری بھی کی۔ بعدازاں، کوئٹہ کے علاقے جنگل باغ (موجودہ اسپنی روڈ) آگئے اور پھر مستقل وہیں سکونت اختیار کرلی۔ 

بلوچستان کے مزارات، درگاہیں، خانقاہیں
دربار حضرت پہلوان شاہ بابا

کہتے ہیں کہ جس درخت کے سائے میں اُن کا مسکن تھا، وہ آج بھی اُسی طرح موجود ہے۔ اس درخت پر اکثر ایک سانپ بھی آکر بیٹھ جاتا تھا۔ حضرت پہلوان بابا نے یہاں قیام کے دوران چالیس سال تک مسلسل بلا ناغہ روزے رکھے۔‘‘ دربار کے منتظم نے مزید بتایا کہ’’پہلوان بابا کا سالانہ عرس 5مئی سے شروع ہوتا ہے اور ایک ہفتہ جاری رہتا ہے، لیکن عرس اور دربار کے دیگر اخراجات کی مَد میں محکمۂ مذہبی امور و اوقاف کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ مزار کی آمدنی کے بھی کوئی خاص ذرائع نہیں، بس عقیدت مندوں کی زکوٰۃ وخیرات ہی سے تمام اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ ‘‘

دربارِ غوثیہ پیر محمد یوسف شاہ غازی قادری چشتی :کوئٹہ کے نواحی علاقے جیل روڈ، ہدہ میں واقع دربار محمد یوسف شاہ غازی قادری چشتی کے حوالے سے سجادہ نشین، آستانہ عالیہ غوثیہ یوسفیہ کے الحاج شہزادہ پیر سید نور علائو الدین شاہ قادری چشتی نے بتایا کہ’’پیر محمّد یوسف شاہ 1928 ء میں کوئٹہ تشریف لائے اور طوغی روڈ کے مقام پر قیام کیا۔ تاہم1935ء کے ہول ناک زلزلے کے بعد یہاں سے چلے گئے، کچھ عرصے بعد دوبارہ کوئٹہ تشریف لائے، اُس وقت اس علاقے میں زہریلے سانپوں کی بہتات تھی۔ 

آپ نے اس علاقے کو حصار میں لے کے دَم کیا، جس کی اجازت انہوں نے شیخ ماندہ درگاہ کے گدی نشین سے لی تھی، تو رفتہ رفتہ سانپوں کی تعداد گھٹتی چلی گئی۔ مرحوم کا وصال1953ء میں ہوا۔ وصال کے بعد اُن کے تین صاحب زادوں میں سے سب سے بڑے صاحب زادے، پیر نور نبی شاہ نے گدی سنبھالی، تو اُن کے عقیدت مندوں کا حلقہ بھی خاصا وسیع ہوگیا۔ بعدازاں، 1977ء میں پیر نور نبی کے وصال کے بعد پیر نور علائو الدین شاہ گدّی نشین مقرر ہوئے۔‘‘

زیارت بی بی نانی: کوئٹہ کے قدیم نواحی علاقے، سریاب روڈ پر زیارت بی بی نانی کا مزار واقع ہے۔ ان کے مقبرے کے قریب ہی معروف بزرگ، سیّد زین الدین آغا بھی مدفون ہیں، جن کا وصال2006ء میں ہوا۔ درگاہ زیارت بی بی کے منتظم کے مطابق ’’زیارت بی بی نانی کا وصال1935ء کے خوف ناک زلزلے کے چند ماہ بعد ہوا۔ 

بی بی نانی کے جدِ امجد، غوث ِاعظم دستگیر ہیں۔ اُن کے آباء بغداد سے ہجرت کرکے کوئٹہ آئے اور تبلیغِ دینِ اسلام کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ جب کہ موجودہ گدی نشین آج بھی یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جس سے ہزاروں مریدین فیض یاب ہورہے ہیں۔ مزار زیارت بی بی نانی کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کسی قسم کا کوئی چندہ، زکوٰۃ، خیرات، نذرانہ وغیرہ وصول نہیں کیا جاتا، بلکہ تمام تر اخراجات گدّی نشین خود ہی اٹھاتے ہیں۔‘‘

دربارِ عالیہ غوث زمان عبدالقدوس المعروف دکانی بابا صابری نقش بندی:یہ مزار بھی سریاب روڈ کی گنجان آبادی میں واقع ہے۔ دربار کے منتظم، آغا شیر محمد کے مطابق ’’دکانی بابا 1935کے زلزلے سے قبل بھارت سے ہجرت کرکے کوئٹہ آئے اوربانس روڈ میں آباد ہوگئے۔ تاہم، 1935ء کے زلزلے کے بعد جب شہر تباہ ہوگیا، تو دکانی بابا نے مستقل طور پر سریاب پھاٹک ہی کو اپنا مسکن بنالیا۔ یہاں وہ لگ بھگ پچاس سال تک تبلیغِ دین کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ دکانی بابا علی گڑھ سے ایم اے پاس تھے، نیز، ان کے پاس دینی علوم کا ایک پورا ذخیرہ تھا۔ 1988ء میں ان کا وصال ہوا۔انہوں نے ایک سو سال سے زائد کی عمر پائی۔ ہر سال ربیع الثانی کے پہلے ہفتے ان کا عرس منایا جاتا ہے اور اس دربار کے بھی تمام اخراجات کا انحصار مریدین کے عطیات ہی پر ہے۔‘‘

مزارپیر سمندر شاہ بابا نوری المعروف رجب علی شاہ: کوئٹہ کےعلاقے، جوائنٹ روڈ میں واقع اس مزار کا شمار صوبۂ بلوچستان کے قدیم مزاروں میں ہوتا ہے۔ اس کے احاطے میں ایک کشادہ مسجد بھی ہے۔ مزار کے منتظم کے مطابق ’’پیر سمندر شاہ بابا، 1800ء میں بھارت سے ہجرت کرکے آئے اور یہیں آباد ہوگئے تھے۔ آپ کا وصال 14مئی 1921ءکو ہوا۔ مزار کی جگہ ان کی ذاتی ملکیت ہے اور یہاں سالانہ عرس مریدین اپنی مدد آپ کے تحت کرتے ہیں۔‘‘

درگاہ پیر قلندر بابا المعروف قلندر مکان: کوئٹہ کے قدیم رہائشی علاقے کاسی روڈ سے متصل، نیچاری میں پیر قلندر بابا المعروف قلندر مکان کامزار واقع ہے اور اس مزار کے اخراجات بھی مریدین و زائرین کے عطیات و خیرات سے پورے کیے جاتے ہیں۔

مقبرہ سیّد بلاول شاہ المعروف نورانی بابا: سیّد بلاول شاہ المعروف نورانی بابا اپنے دور کے ایک بڑے ولی بزرگ گزرے ہیں۔ اُن کا مزار سرزمینِ بلوچستان میں صدیوں کی تاریخ رکھتا ہے اور عقیدت مندوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آپ کا مقبرہ حب میں سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ وادی میں واقع ہے، جو عمدہ دوامی چشمے سے سیراب ہوتی ہے۔  

بلوچستان کے مزارات، درگاہیں، خانقاہیں
درگاہ بابا خرواری

یہ کافی زرخیز جگہ ہے۔مزار کے اطراف میں املی،آم اور جامن کے درخت بڑی تعداد میں موجود ہیں جب کہ مزار سے ملحقہ ایک مسجد اورقدیم قبرستان بھی ہے۔ قریب ہی مائی جو گوٹھ کے نام سے ایک گائوں ہے، جہاں سے بڑی تعداد میں مریدین و زائرین روزانہ وہاں حاضری دینے آتے ہیں۔ نورانی بابا کا عرس ہر سال 10 رمضان کو منعقد ہوتا ہے، جس میں پاکستان کے علاوہ افغانستان، بھارت، کینیڈا اور بنگلا دیش سے بھی ہزاروں زائرین شرکت کرتے ہیں۔

درگاہ بابا خرواری: کوئٹہ سے 130 کلومیٹر کے فاصلے پر سطح سمندر سے 2449 میٹر بلند ایک پُرفضا مقام زیارت ہے، جسے ’’خرواریؒ بابا‘‘ کے نام سے مشہور بزرگ کے مزارہی کی وجہ سے ’’وادئ زیارت‘‘ کہا جاتا ہے۔ خرواری باباکا مزار اس خطّے میں صدیوں کی تاریخ رکھتا ہے، اور اسی سبب وادئ زیارت مُلک بھر میں پہچانی جاتی ہے۔ مزار پر مُلک کے طول و عرض سے عقیدت مند آتے ہیں۔ اطراف میں صنوبر کا 12600 ایکڑ پر وسیع جنگل ہے، جس کا شمار دنیا کے قدیم جنگلات میں ہوتا ہے۔ یہاں بعض درخت 5 ہزار سال پرانے بھی ہیں۔

مزار معصوم بابا: معصوم بابا کا مزار کوئٹہ سے 42کلو میٹر دُور اور پشین شہر سے چندکلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ معصوم بابا کو غائب بابا اور شیخ بابا بھی کہتے ہیں۔ مشہور ہے کہ دانت کے درد میں مبتلا افراد ان کی چوکھٹ پر کیل ٹھونکتے ہیں، تو حیرت انگیز طور پر ان کا درد ختم ہوجاتاہے۔ 2010ء میں چند شرپسندوں نےمزار مسمار کرکے اس کے صدیوں پرانے تاریخی گنبد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ،تاہم اپنی اس کوشش میں کام یاب نہ ہوسکے۔ آج بھی یہاں ہمہ وقت عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ہے۔

درگاہ فتح پورشریف: بلوچستان کے علاقے جھل مگسی میں موجود،درگاہ فتح پور شریف بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ اس درگاہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں مُلک بھر کے مسلمان زائرین کے علاوہ مختلف مذاہب سے وابستہ افراد بھی مَن کی مراد کے حصول کے لیے عقیدت مندی سے حاضریاں دیتے ہیں۔

تازہ ترین