• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی آئینی اور عدالتی تاریخ میں اس قدر اتار چڑھاوہے کہ جب اس کا مطالعہ کیاجاتاہے تو انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ کو ئی قوم بار بار اس طرح کی آئینی اور قانونی موشگافیوں سے بھی گزر سکتی ہے۔لیکن یہ پاکستان ہے، جہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہونا ممکن ہے۔ اس سفر میں ایسے ایسے موڑ آئے کہ عقل چکراجاتی ہے ۔ اس دوران بعض ایسے معروف عدالتی فیصلے آئے جن کے بارے میں آج تک منفی آرا کا پلڑا بھاری ہے۔اسی طرح بعض ایسے فیصلے بھی دیے گئے جن کی آج تک تعریف کی جاتی ہے۔ایسے میں بعض منصفین کی جرات اور عظمت کو آج تک داد مل رہی اور اور بعض کو آج بھی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جاتا۔

فیصلوں کی گھڑی
جسٹس فخرالدین جی ابراہیم

پاکستان کے چوٹی کے ماہرینِ آئین و قانون کے علاوہ عوام کی بھی بہت بڑی تعداد کی رائے یہ ہے کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ زیادہ قابلِ فخر نہیں ہے اور ہمارے جمہوری سفر میں رکاوٹیں ڈالنے میں اعلیٰ عدلیہ کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس انوار الحق اور جسٹس ارشاد حسن کی سربراہی میں عدلیہ نے ہمیشہ آمروں کی بغاوتوں کو قانونی چھتری مہیا کی ،لیکن سِوِل قیادت کے ساتھ اس کا برتاو دوسری نوعیت کا رہا۔ایک جانب آمروں کوآئین میں ترامیم کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی اور دوسری جانب منتخب رہنماؤں کے حصّے میں پھانسی یا نااہلی آئی۔

رخ بدل گیا

پاکستان کے پہلے چیف جسٹس عبدالرشید نے آزاد عدلیہ کی بنیاد رکھی اور اسے درست سمت فراہم کی، مگر چیف جسٹس محمد منیر نے’’نظریہ ضرورت‘‘ ایجاد کرکے عدلیہ کا رخ ہی تبدیل کردیا۔ چیف جسٹس اے آر کارنیلیس نے مشکلات کے باوجود عدلیہ کا وقار بحال کیا۔تاہم ہماری عدلیہ کی تاریخ میں ایسے منصفین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے جنہوں نے اپنے حلف کی پاس داری کرتے ہوئے آئین اور قانون کی روح کے مطابق فیصلے سنائے۔ 

فیصلوں کی گھڑی
شریف الدین پیرزادہ

 پاکستان کے نام ور وکلاء عدلیہ کی تاریخ لکھنے سے گریز کرتے رہے تاکہ جج ناراض نہ ہوجائیں۔ تاہم ممتاز وکیل حامد خان نے یہ چیلنج قبول کیا اور عدلیہ کو تاریخ کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ ان کی پانچویں کتاب’’ اے ہسٹری آف جوڈیشری ان پاکستان‘‘ ،عدلیہ کے بارے میں بہت سے حقایق سے پردہ اٹھاتی ہے۔ حامد خان عدلیہ کی تاریخ کے عینی شاہد ہیں اور پس پردہ ہونے والی سازشوں کے رازداں ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ان تمام سازشوں کو بے نقاب کردیا ہے۔ یہ کتاب پاکستان کے ہر چیف جسٹس کے دور کا احاطہ اور محاکمہ کرتی ہے۔ ججز کو بہ حیثیت انسان اور جج پرکھتی ہے اور عدلیہ کے تاریخی فیصلوں کا جائزہ لیتی ہے۔

کش مکش

حامد خان نے اپنی کتاب میں عدلیہ کی تاریخ بیان کرنےکے بعد تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ اپنی بقا اور آزادی کی جدوجہد میں مصروف رہتی ہے۔ اس نے کبھی جوڈیشل ایکٹیو ازم اور کبھی احتیاط کا مظاہرہ کیا۔ عدلیہ کی تاریخ میں افتخار محمد چوہدری کا دور سرگرم اور پرجوش رہا اور ریاست کو آئین کے مطابق چلانے کے لیے دلیرانہ فیصلے سامنے آئے۔ سیاسی عدم استحکام نے عدلیہ سمیت سب ریاستی اداروں کی کارکردگی کو متاثر کیا۔ دیانت اور اہلیت کے حوالے سے ججوں کا معیار قابل ستائش نہیں رہا۔ جج اپنے کیرئیر کے لیے ایک دوسرے سےکش مکش کرتے رہے۔ 

کئی مواقعے پر شہریوں کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کیا گیا۔ پاکستان میں جج عمومی طور پرعدالتی فلسفےپرعمل نہیں کرتے اورضابطہ اخلاق سے انحراف کرتے ہیں۔ ان کی نظر ریٹائرمنٹ کے بعد اہم منصب پر ہوتی ہے۔ سیاست دانوں نے نااہلی اور بدعنوانی کا مظاہرہ کرکے ججز کوجگہ فراہم کی اور وہ بعض اوقات آئینی حدود سے تجاوز کرنے لگے۔ پاکستان کے عوام نظام ِعدل کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ بینچ اور بار کو عوامی توقعات پر پورا اُترنے کے لیے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

بھٹو کاکیس اورعدلیہ پر دباو

فیصلوں کی گھڑی
جسٹس ارشاد حسن خان

وہ بھٹو قتل کیس کے بارے میں پس پردہ محرکات بے نقاب کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح عدلیہ پر دباؤ ڈال کر اسے مفلوج کیا گیا۔ جسٹس انوار الحق اور جسٹس مولوی مشتاق نے دباؤ قبول کیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے سینئر ججز کی حق تلفی کرتے ہوئے چیف جسٹس بننے کے لیے آصف زرداری کی کار کا دروازہ کھولا اور ان کے گھٹنوں کو چھوا۔ چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے نہ صرف جنرل مشرف کا مارشل لاجائز قراردیا بلکہ اسے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے میاں نواز شریف کی حکومت (1993) بحال کرنے سے پہلے جی ایچ کیو فون کرکے آرمی چیف کی مرضی معلوم کی۔ جنرل آصف نواز نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا کہا۔

جسٹس منیر ،بگاڑ کی پہلی اینٹ

سیاسی اور آئینی امور کے ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اگر ہمارا عدالتی نظام معیاری اور مثالی بن جائے تو پاکستان کے آئینی، سیاسی اور اقتصادی بحرانوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں جب بھی آئین اور قانون کی بالا دستی قایم نہ ہونے اور پے درپے آنے والے سیاسی بحرانوں کے بارے میں بحث چھڑتی ہے تو جسٹس منیر کا نام کسی نہ کسی مرحلے پر آہی جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنے عدالتی فیصلوں کے ذریعے اس ملک کو اس کے ابتدائی ایّام ہی میں، آئینی، قانونی، اخلاقی ، سیاسی، سماجی اور اقتصادی لحاظ سے تباہی کاراستہ دکھادیا تھا۔

فیصلوں کی گھڑی
جسٹس سجاد علی شاہ

جسٹس منیر قیام پاکستان کے پنجاب چیف کورٹ (موجودہ ہائی کورٹ) کے چیف جسٹس بنے اور اس کے بعد فیڈرل کورٹ آف پاکستان (موجودہ سپریم کورٹ)کے چیف جسٹس بنے تھے۔وہ جج کی حیثیت سے اپنے طویل کیرئیر کے دوران اپنا کردار ادا کر کے چھبّیس جون1981کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے، لیکن ان کی جانب سےدیے گئے غلط فیصلوں کا خمیازہ نہ جانے قوم کب تک بھگتتی رہے گی۔

اگر انہوں نے اپنے فیصلوں میں ’’نظریہِ ضرورت‘‘ متعارف نہ کرایا ہوتا تو ملک کی تاریخ مختلف ہوتی۔ ان کے منفی کردار کا آغاز مولوی تمیز الدین کیس سے ہوتا ہے۔ وہ ایک سیدھا سادہ مقدمہ تھاجو اسمبلی کی تحلیل کے خلاف انصاف کے حصول کے لیے دائر کیا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کے مقابلے میں جب جگتو فرنٹ نے بھاری کام یابی حاصل کر لی تو یہ مطالبہ سامنے آیا کہ اب مرکزی آئین ساز اسمبلی غیر نمائندہ ہو چکی ہے، اس لیے مرکز میں بھی نئے انتخابات کرائے جائیں۔مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کا حشر دیکھ کر مسلم لیگ نئے انتخابات سے خوف زدہ تھی۔ اسے ڈر تھا کہ اگر کہیں انتخابات کرا دیے گئے تو اس کے پلے کچھ نہیں رہے گا۔

فیصلوں کی گھڑی
جسٹس آصف سعید کھوسہ

انتخابی نتائج کے خوف کے علاوہ مسلم لیگ کو کچھ عرصہ قبل وزیراعظم کی حیثیت سے خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کا بھی صدمہ تھا، جنہیں گورنر جنرل غلام محمد نے غیر آئینی طور پر برطرف کر دیا تھا۔ اسمبلی نے اس وقت تو کم زوری دکھائی اور خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کو قبول کرتے ہوئے ان ہی کے نام زد کردہ محمد علی بوگرہ کوبہ طور وزیر اعظم تسلیم کر لیا تھا، لیکن اب وہ چاہتی تھی کہ وہ آئندہ ایسا کوئی اقدام نہ اٹھاسکیں۔

چناں چہ اکیس ستمبر 1954 کو اسمبلی نے گورنر جنرل کے اسمبلی کی تحلیل اور حکومت کو برخواست کرنے کے اختیارات سلب کر لیے۔گورنر جنرل نے آئین ساز اسمبلی کے اس اقدام کا جواب تیئس روز بعد دیا۔ انہوں نے ملک میں ہنگامی حالات نافذ کر کے آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ یہ پاکستان کی یہ پہلی اسمبلی تھی جسے سربراہِ ریاست نے غیر معمولی اقدام اٹھاکر تحلیل کردیا تھا۔

جسٹس منیر کا بھونڈا جواز

سیاسی اور آئینی امور کے ماہرین کے مطابق گورنر جنرل کا یہ اقدام بلا جواز اور غیر قانونی تھا بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کارروائی میں فوج کی تائید شامل تھی، کیوں کہ اس کےبعد جو کابینہ بنائی گئی اس میں کمانڈر ان چیف (اب چیف آف آرمی اسٹاف) کو وزیر دفاع کی حیثیت سے شامل کیا گیاتھا۔ آئین اور جمہور کی حکم رانی کے خلاف طاقت ور طبقات کی ملی بھگت کے خلاف ایک ہی ادارے یعنی عدلیہ سے توقع تھی، لیکن یہ ادارہ بھی ان ہی قوتوں کے ساتھ مل کر اقتدار کی کش مکش میں حصے دار بن گیا۔

فیصلوں کی گھڑی
جسٹس سعید الزماں صدیقی

ایسے میں آئین ساز اسمبلی کے صدر( اب اسپیکر) مولوی تمیز الدین خان نے گورنر جنرل کا یہ فیصلہ چیف کورٹ (اب ہائی کورٹ) سندھ میں چیلنج کر دیا۔ چیف کورٹ نے مقدمے کی سماعت کے بعد گورنر جنرل کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا اور آئین ساز اسمبلی بحال کر دی۔ مرکزی حکومت سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں چلی گئی۔ فیڈرل کورٹ نے اس مقدمے کا فیصلہ ٹیکنیکل یعنی اکثریتی بنیاد پر گورنر جنرل کے حق میں کر دیا ،یعنی قرار دیا کہ ان کی طرف سے آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کا اقدام درست تھا۔اس فیصلے کا سب سے کم زور پہلو یہ تھا کہچونسٹھ صفحات کے فیصلے میں ایسی کوئی فائنڈنگ نہیں ملتی کہ آیا گورنر جنرل اسمبلی توڑنے کا اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔

فیصلوں کی گھڑی
جسٹس افتخار چوہدری

جسٹس منیر جیسے شخص سے یہ قطعاً پوشیدہ نہیں تھا کہ ان کا فیصلہ ملک کے جہاز کو گہرے پانیوں میں ڈبو دے گا، پھر بھی انہوں نے ایسا کیا ۔ اس فیصلے نے، جس کے تحت انہوں نے گورنر جنرل کو ملکہ برطانیہ جیسے اختیارات دے دیے تھے، عدلیہ کے بارے میں عوام کا تاثر ہمیشہ کے لیے مجروح کر دیا۔ جسٹس منیر نے اپنے اس فیصلے میں سندھ چیف کورٹ کی سرزنش کی تھی اور لکھا تھا کہ عدالت فیصلہ کرتے ہوئے کبھی یہ پیش نظر نہیں رکھنا چاہیےکہ فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے۔ جسٹس منیر نے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے پر تو تنقید کی، لیکن اپنا طرز عمل بھول گئے اور اپنے فیصلے کا جواز یہ پیش کیا کہ وہ اس قسم کا فیصلہ نہ دیتے تو ملک میں انقلاب آجاتا اور خون ریزی ہوتی۔

عام تاثریہ ہےکہ اس فیصلےکے پس پشت اسٹیبلشمنٹ سے ساز بازتھا۔قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت ’’شہاب نامہ‘‘ میں اس ضمن میں ایک انکشاف کیاہے۔وہ لکھتے ہیں کہ جن دنوں اس مقدمے کی سماعت جاری تھی، گورنر جنرل ہاؤس کے ایک سینئر افسر فرخ امین، ہرچند روز بعد دارالحکومت کراچی سے لاہور جایا کرتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے ان سے بازپرس کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ گورنر جنرل کے خفیہ پیغامات چیف جسٹس تک اور چیف جسٹس کے خفیہ پیغامات گورنر جنرل تک پہنچاتے ہیں۔مولوی تمیز الدین کیس کافیصلہ بہ ظاہر گورنر جنرل اور چیف جسٹس کے درمیان اسی ساز باز کا نتیجہ تھا جسے پاکستان کے عوام نے کبھی قبول نہ کیا۔

یوسف پٹیل کیس

پاکستان کی سیاسی، آئینی اور عدالتی تاریخ کا اگلا سنگ میل یوسف پٹیل کیس ہے، اس مقدمے کی جڑیں بھی مولوی تمیز الدین کیس میں پیوست تھیں۔فیڈرل کورٹ آف پاکستان نے نظریہ ضرورت کی بنیادپر مولوی تمیز الدین کیس کا جو فیصلہ دیا تھا، اس کے نتیجے میں صرف یہ نہیں ہوا کہ مقننہ بحال نہیں ہوئی بلکہ اس فیصلے کے نتیجے میں ملک کےچھیالیس قو انین بھی کالعدم ہو گئے۔اس وجہ سے کارِ ریاست کے روزمرہ کے امور کی انجام دہی بھی ناممکن ہو گئی اور ملک ایک بہت بڑے بحران سے دوچار ہو گیا۔

اس صورت حال سے نمٹنےکے لیے گورنر جنرل غلام محمد نے اس فیصلے کے چھ روزکے بعد ہنگامی اختیارات کے حصول کے لیے ایک آرڈی نینس جاری کیا۔غلام محمد چاہتے تھے کہ تحلیل شدہ اسمبلی کی جگہ وہ اپنے نام زد افراد کا ایک کنونشن منعقد کر کے ایک خود ساختہ آئین تیار کر لیں۔ اس آرڈی نینس کے ذریعے گورنر جنرل نے جو اختیارات حاصل کیے، وہ غیر معمولی نوعیت کے سیاسی مضمرات رکھتے تھے۔ ان میں ایک اختیار مغربی پاکستان کے چار صوبوں کو ون یونٹ میں تبدیل کرنے اور آئین سازی کے ضمن میں گورنر جنرل کو تمام تر اختیارات تفویض کرنے کا تھا۔

غلام محمد چاہتے تھے کہ تحلیل شدہ اسمبلی کی جگہ وہ اپنے نام زد افراد کا کنونشن منعقد کر کے ایک خود ساختہ آئین پیش کردیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے فیڈرل کورٹ میں ایک ریفرنس بھی دائر کر دیا۔دوسری جانب ان اختیارات کو ایک شہری نے وفاقی عدالت میں چیلنج کردیا۔ یہ مقدمہ یوسف پٹیل کیس کے نام سے مشہور ہوا۔اس ریفرنس اور یوسف پٹیل کیس کے نتیجے میں گورنر جنرل کا یہ اختیار تسلیم کر لیا گیا کہ وہ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔ اسمبلی کی تحلیل کی وجہ سے بہت سے قوانین کی توثیق نہیں ہو سکی تھی۔ 

گورنر جنرل نے آرڈی نینس کے ذریعے حاصل کیے جانے والے اختیارات کے تحت ان قوانین کی توثیق کر دی تھی۔اس فیصلےکے ذریعےیہ توثیق اس وقت تک بحال رکھی گئی جب تک نئی آئین ساز اسمبلی وجود میں نہیں آ جاتی۔تاہم عدالت نے نام زد افراد کے کنونشن کے ذریعے آئین سازی کی اجازت گورنر جنرل کو نہیں دی تھی۔ان مقدمات کے فیصلوں کے ذریعےاگرچہ گورنر جنرل کو سوفی صد کام یابی حاصل نہیں ہوئی تھی، لیکن ان کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ بھی کھڑی نہیں ہوئی۔

اب اکثر پاکستانی پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں توانہیں احساس ہوتا ہے کہ جسٹس منیر اگر یہ مقدمہ آئینی اور قانونی بنیاد پر نمٹاتے تو فیصلہ مختلف ہوتا، لیکن آئینی ماہرین اور مورخین کے مطابق ان کے پیش نظر کچھ دیگر مقاصد تھے ۔اس لیے انہوں نے اپنے ممکنہ فیصلے کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے جواز گھڑنے شروع کر دیے۔ بہ قول جسٹس منیر کے، انہوں نے واپس مڑنے یا خندق میں گرنے سے بچانے کا فریضہ ملک و قوم کے لیے ادا کرنے کی غرض سے خندق پر ایک پل تعمیر کر دیا۔تاریخ نے اسی پل کو’’نظریہ ضرورت‘‘ کا نام دیا جس نے اسی زمانے میں ملک کو ایک پے چیدہ بحران میں مبتلا کر دیاتھا۔اور بعد میں تو اس نے وہ تباہی مچائی کہ الامان ،الحفیظ۔

دوسو کیس

مگر جسٹس منیر یہیں پر نہیں رکے بلکہ ان کے سیاسی نوعیت کے دیگر فیصلوں پر بھی اسی اندازِ فکر کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ ان کی جانب سے دیے گئے تیسرے فیصلے نے پاکستانی میں جمہوری، سیاسی عمل کی راہ مزید کھوٹی کی۔ یہ فیصلہ دوسو کیس کے نتیجے میں سامنے آیاتھا۔ اس میں مقدمے میں ایوب خان کے مارشل لا کے نفاذ اور اس کے نتیجے میں ایک منتخب حکومت کے خاتمے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ 

جسٹس منیر نے اس مقدمے میں مارشل لا کے نفاذ اور اس کی وجہ سے جائز طور پر ایک منتخب آئینی اور قانونی نظام کے خاتمے کو بغاوت قرار دینےکے بجائے اسے ایک کام یاب انقلاب قرار دینے کے لیے ہینس کیلسنز کی معروف تھیوری آف سٹیٹ کا سہار لیا۔ اس تنظریے کے مطابق کام یاب انقلاب اپنا جواز خود ہوتا ہے اور اسے آئین سازی کا حق بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے فرانس،چین اور روس کے انقلابوں کی مثالیں پیش کی تھیں۔دل چسپ بات یہ ہے کہ خود اس نظریے کے خالق نے بھی اس موقعے پر کہاتھا کہ اس فیصلے کے ذریعے ان کے نظریے کو جو رنگ دیا جارہا ہے، وہ درست نہیں۔

دور رس سیاسی مضمرات کے حامل جسٹس منیرکے ان بنیادی فیصلوںکی وجہ سے ملک سیاسی اور آئینی طورپر اپنے راستے سے بھٹک گیا۔واضح رہے کہ چوبیس اکتوبر 1954 کو آئین ساز اسمبلی اپنی تحلیل سے چار روز قبل پاکستان کا پہلا آئین تیار کر چکی تھی۔ اس آئین کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان آبادی کے فرق کا تنازع طے کر دیا گیا تھا جس کے تحت قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی نشستوں کا تناسب پچپن فی صد اور مغربی پاکستان کی نشستوں کا تناسب پینتالیس فی صد طے کر دیا گیا تھا۔اسمبلی اسی برس دسمبر میں دستور کے مسودے کو حتمی شکل دے کر اس کی منظوری کا فیصلہ کر چکی تھی کہ غلام محمد نے اسمبلی کو تحلیل کر کے دستور کی منظوری کا راستہ روک دیا تھا۔

جسٹس انوارالحق اور مارشل لا کی تین حکومتوں سے وفاداری کا حلف 

جسٹس شیخ انوارالحق کا شمار پاکستان کی عدلیہ کے ان ججز میں ہوتا ہے جنہوںنےاپنےعدالتی کیرئیرمیں مارشل لا کے ذریعے بنائی گئیں تین حکومتوں سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا اورایسی ایک حکومت کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طورپرقانونی اور آئینی جوازبھی فراہم کیا تھا۔ شیخ انوارلحق نے بہ طورچیف جسٹس سپریم کورٹ، بھٹو کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد کی تھی جس سے بھٹو کی پھانسی کا راستہ صاف ہوگیا تھا۔قیام پاکستان سے قبل عدلیہ میں آنے کے بعد وہ پنجاب کے متعدد اضلاع میں بہ حیثیت سیشن جج خدمات انجام دیتے رہے۔ 

فیصلوں کی گھڑی
جسٹس بھگوان داس

جنرل ایوب خان نے آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو شیخ انوارالحق اکیس اکتوبر1959کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے۔جب جنرل یحیی خان نےمارچ1969میں جنرل ایوب کا آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کیا اور ون یونٹ توڑکر صوبے بحال کیے تو شیخ انوارالحق لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے تھے۔ بھٹودورمیں وہ سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ 

مارچ1977میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعقوب علی خان کو ریٹائر ہونا تھا۔ لیکن بھٹو نے چھٹی آئینی ترمیم کے ذریعے جسٹس انوارالحق کا راستہ روک دیا،جو اس وقت سپریم کورٹ کےسب سے سینئر جج تھے۔ بھٹو کایہ اقدام جسٹس انوارالحق کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ چناں چہ وقتی طور پر انہوں خاموشی اختیار کرنے ہی میں عافیت جانی اور مناسب موقعے کی تلاش میں رہے تاکہ وہ جوابی وار کرسکیں۔

نصرت بھٹو کیس

جسٹس انوارالحق کو جلد ہی یہ موقع جنرل ضیا کے مارشل کی صورت میں جولائی1977میں مل گیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے آئینی پٹیشن کے ذریعے جنرل ضیا کے مارشل لا کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ جسٹس یعقوب علی خان نے بیگم صاحبہ کی پٹیشن سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔ 

فیصلوں کی گھڑی
جسٹس ثاقب نثار

آمر کو خوف تھا کہ کہیں سپریم کورٹ مارشل لا کو غیر آئینی اور غیر قانونی ہی نہ قرار دے دے۔ چناں چہ جنرل ضیانے مارشل لا ریگولیشن کے ذریعے چھٹی آئینی ترمیم کو واپس لے لیا جس سے جسٹس یعقوب علی خان فوری طورپر ریٹائر ہوگئے اور شیخ انوارالحق ان کی جگہ چیف جسٹس بن گئے۔ اب بھٹو پر وار کرنے کی ان کی باری تھی۔ 

بیگم نصرت بھٹو کی پٹیشن ان کے سامنے پیش ہوئی اور انہوں نے مارشل لا کے نفاذ کو آئینی جواز فراہم کرتے ہوئے بیگم صاحبہ کی پٹیشن مسترد کردی اور نہ صرف مارشل لا کو نظریہ ضرورت کے تحت قانون اورآئین کے مطابق ٹھہرایا بلکہ جنرل ضیا کوبہ حیثیت مارشل لا ایڈ منسٹریٹر یرآئین میں ترمیم کرنے کا بھی اختیار دے دیا تھا۔

ذوالفقارعلی بھٹو ٹرائل کیس

سابق وزیراعظم پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے کئی دن بعد انہیں 1974 میں قتل کیے گئے سیاست داں اور صدارتی امیدوار احمد رضا قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ابتدائی طور پر ذوالفقار علی بھٹو پر لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ چلایا گیا اور عدالت نے انہیں پھانسی کی سزا سنائی۔ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے پھانسی کی سزا کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

تاہم عدالت نے فیصلہ دیا کہ پھانسی کی سزا صدر مملکت ہی تبدیل کرسکتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے اُس وقت کے آرمی چیف اور صدر،جنرل ضیاء الحق سے رحم کی اپیل کرنے سے پھانسی پر لٹکنا بہتر سمجھا۔ یوں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے مداخلت نہ کرنے اور دوسری اعلیٰ عدالت کی جانب سے منتخب وزیراعظم کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر آج تک عدالت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ظفر علی شا کیس

فیصلوں کی گھڑی
جسٹس اجمل میاں

جسٹس ارشاد حسن نے2002ء میں ایک آمر کے غیرآئینی اقدام کو درست قرار دیا، لیکن آج وہ فیصلہ بھی عدالتی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ پاناما عمل درآمد بینچ کے اہم رکن جسٹس عظمت سعید شیخ نے پناما کیس میں بیس اپریل کو اپنے فیصلے میں لکھا کہ بدقسمتی سے ظفرعلی شاہ کیس میں ماورائے آئین جمہوری حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا گیا، ماضی کے اس فیصلے کو اب عدالت غلط سمجھ رہی ہے۔

یوسف رضا گیلانی کی نااہلی

سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی اہلیہ بے نظیر بھٹو کے خلاف 1998 سے دائر سوئس کرپشن کیس میں سپریم کورٹ نے پیپلزپارٹی کے سابق دورِ حکومت میں اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنے صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھ کر کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔

عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر توہین عدالت کا مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت نے یوسف رضا گیلانی کو2012میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر انہیں نااہل قرار دیا، جس کے بعد وہ فوری طور پر وزیراعظم کے عہدے سے الگ ہوگئے اور پانچ سال تک کوئی بھی الیکشن لڑنے کے لیے بھی نااہل قرار پائے۔ عدالت کے اس فیصلے سے اُس وقت کی حکومت مشکلات کا شکار ہوگئی اور پاکستان کی سیاست لڑا کھڑا گئی تھی۔

فیصلوں کی گھڑی
جسٹس وجیہہ الدین احمد

پی سی او کیس

پروویژنل کانسٹی ٹیوشنل آرڈر (پی سی او) ججز کیس کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کی جانب سے جون 2009 میں سنایا گیا۔اس فیصلے کو سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے آئینی فیصلوں میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔پی سی او ججز کیس میں سپریم کورٹ نے سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر 2007کو اٹھائے گئے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے تین نومبر کو ملک میں پی سی او کے تحت ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے، ملکی آئین کو بھی منسوخ کردیا تھا اور ججز کی نظربندی کا حکم دیا گیا تھا۔پرویز مشرف نےتین نومبر 2007کو اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت سات معزز ججز کو ہٹاکر چوبیس نومبر2007کو چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سمیت سات دیگر ججز کو پی سی او کے تحت تعینات کیا تھا۔

پناما لیکس کیس

پناما لیکس اسکینڈل کیس کا فیصلہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کیوں کہ آج تک دنیا میں کہیں بھی، کسی بھی ملک میں کسی وزیراعظم یا صدر کے خلاف اس اسکینڈل کی وجہ سے کوئی عدالتی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے اکیس جولائی کو محفوظ کیا اور اٹھائیس جولائی کو سنایا تھاجس کے تحت اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرارپائے تھے۔

درجِ بالا کے علاوہ بھی ہماری عدالتوں نے بہت سے اہم آئینی اور سیاسی فیصلے دیے ،لیکن یا تو ان کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع نہیں تھا یا ان پر عمل درآمد کا مرحلہ نہیں آیا لہذا یہاں ان کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ تاہم تیکنیکی یا آئینی لحاظ سے وہ بھی کافی اہم تھے۔

تازہ ترین