کابل (اے ایف پی) اتوار کو فاتحانہ انداز سے کابل کا کنٹرول سنبھال کر طالبان نے مکمل کامیابی حاصل کر لی۔ اس سے قبل طالبان نے 1996ء سے 2001ء تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور سخت شریعہ قوانین نافذ کیے تھے جس کے بعد انہیں اقتدار سے بے دخل کیا گیا اور یوں طالبان نے مزاحمت کا آغاز کیا۔ طالبان تحریک کا آغاز پاکستان کے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے ان افغان طالب علموں نے کیا جو 1979ء سے 1989ء تک جاری رہنے والے سوویت قبضے کے دوران افغانستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے لفظ ’’طالب‘‘ کا انتخاب کیا جس کے عربی میں معنی طالب علم کے ہیں۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں جب افغانستان میں کرپشن اور افرا تفری کا ماحول تھا اور ملک خانہ جنگی کا شکار تھا، اس وقت طالبان نے جنوبی صوبے قندھار سے ملا عمر کی قیادت میں اپنی تحریک کا آغاز کیا اور 2013ء میں ملا عمر انتقال تک وہی اس تحریک کے سربراہ رہے۔ اب طالبان کے سینئر ترین رہنما ہیبت اللہ اخوند زادہ ہیں جبکہ سیاسی ونگ کے سربراہ ملّا برادر ہیں۔ طالبان کو نمایاں حمایت پاکستان سے ملی جبکہ پہلے انہیں امریکا سے بھی خاموش حمایت حاصل تھی۔ 1994ء میں انہوں نے بغیر کسی لڑائی قندھار کا کنٹرول سنبھال لیا۔ بھاری اسلحے اور ٹینکوں سے لیس اور مقامی کمانڈرز کی حمایت خریدنے کیلئے نقد رقوم کی آسان دستیابی سے طالبان تیزی سے ملک کے شمال پر غالب آگئے اور اس کے بعد بالآخر 27؍ ستمبر 1996ء کو کابل کا کنٹرول سنبھالا۔ صدر برہان الدین ربانی پہلے ہی فرار ہو چکے تھے تاہم اس کے بعد طالبان نے سابق کمیونسٹ صدر محمد نجیب اللہ کو اقوام متحدہ کے دفتر سے گرفتار کر لیا جہاں وہ پناہ لیے ہوئے تھے۔ انہیں سرعام پھانسی دی گئی۔ طالبان نے ملک کی حکمرانی سنبھالتے ہی سخت شریعہ قوانین نافذ کیے جبکہ موسیقی، ٹیلی ویژن اور وقت گزاری کیلئے ماضی کی مقبول ترین سرگرمیوں جیسا کہ پتنگ بازی پر پابندی عائد کر دی، لڑکیوں کیلئے قائم اسکولز بند کر دیے گئے جبکہ خواتین کو کام کاج سے روک دیا گیا اور انہیں سخت پردہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اسلامی سزائوں کا نظام بھی متعارف کرایا گیا۔ 1998ء تک طالبان کا ملک کے اسّی فیصد حصے پر کنٹرول تھا تاہم صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی وہ ممالک تھے جو طالبان کی حکومت کو قانونی تسلیم کرتے تھے۔ 2001ء میں طالبان نے بامیان وادی میں گوتم بدھ کے 1500؍ برس پرانے بت کو توڑ دیا۔ ملا عمر زیادہ تر وقت قندھار میں اس گھر میں گزارتے تھے جو مبینہ طور پر ان کیلئے اسامہ بن لادن نے تعمیر کرایا تھا۔ طالبان نے افغانستان کو القاعدہ کیلئے محفوظ مقام بنایا اور ان کیلئے تربیتی کیمپ قائم کیے۔ اس کے بعد گیارہ ستمبر کو امریکا میں ہونے والے حملوں کے بعد امریکا نے فوری طور پر اس واقعے کا ذمہ دار القاعدہ کو قرار دیا۔ اسامہ بن لادن کو حوالے نہ کرنے کا الزام طالبان پر عائد کرتے ہوئے امریکا نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان پر اکتوبر میں بمباری کی اور دسمبر کے اوائل تک طالبان حکومت ختم ہوگئی اور تحریک کے رہنما جنوب اور مشرق کے علاقوں کی طرف فرار ہوگئے اور کچھ سرحد عبور کرکے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد طالبان نے مغربی ممالک کی حمایت یافتہ نئی افغان حکومت کیخلاف مزاحمت کا آغاز کیا۔ طالبان نے اپنی جدوجہد کے دوران دھماکوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ شروع کیا اور نیٹو سمیت افغانستان میں جنگ کرنے والے ممالک کو قابض فوج قرار دیا۔ افغانستان میں سرگرم مغربی ممالک کی نیٹو کے تحت افواج کا مینڈیٹ دسمبر 2014ء میں ختم ہوگیا جس کے بعد زیادہ تر افواج افغانستان سے نکل گئیں۔ جولائی 2015ء میں پاکستان نے افغان اور طالبان رہنمائوں کے درمیان براہِ راست مذاکرات کرائے جنہیں چین اور امریکا کی حمایت حاصل تھی تاہم ملا عمر کے انتقال کی خبر سامنے آنے کے بعد ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ 2015ء میں افغانستان میں ایک متحارب نیا جہادی گروپ سامنے آیا جس نے کابل پر تباہ کن حملے کیے۔ اس طرح 2018ء میں امریکا اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں خفیہ مذاکرات کا آغاز ہوا، کئی ادوار ہوئے جس کے بعد فروری 2020ء میں دونوں فریقین کے درمیان تاریخی معاہدہ طے پا گیا۔ 6؍ جولائی 2021ء کو امریکی فوج نے ا علان کیا کہ اس نے طالبان کے ساتھ معاہدے پر 90؍ فیصد عمل کرتے ہوئے انخلاء کو یقینی بنایا ہے جس کے پانچ ہفتوں بعد اب طالبان ملک کے اہم قصبوں، شہروں ، صوبائی دارالحکومتوں کا آہستہ آہستہ کنٹرول سنبھالتے ہوئے اتوار کو بالآخر کابل تک پہنچ گئے اور ملک کے دارالحکومت کا قبضہ حاصل کر لیا۔ سابقہ حکومت نے پرسکون انداز سے کنٹرول طالبان کے حوالے کر دیا۔