• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس سال دو ہزار اکیس کے اگست میں چودہ تاریخ کی رات پورے ملک میں جس طرح یوم آزادی منایا گیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ یقینا "زندہ قوم " ہے۔ جس جوش و خروش کا اظہار کیا گیا وہ زندگی سے بھر پور تھا۔ یعنی ہم یقینی طور پر زندہ ہیں بھر پور جوشیلی قوم ہیں۔لیکن یہ زندگی اور جوش کا اظہار مستقل بنیادوں پہ کیوں نہیں ہوتا؟ کیوں یہ وقتی جذبہ ہوتا ہے؟ کیوں یہ زندہ دلی صرف چند مخصوص موقعوں پہ ہی نظر آتی ہے مستقل کیوں نہیں ہوتی؟یہ وہ سوالات تھے جو اس یوم آزادی کے دن پیدا ہوئے کہ وہ قوم جو اتنے برے حالات میں بھی بھر پور خوشیاں منا سکتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ملکی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا نہیں کرتی؟ آخر کیا چیز ان کو روکتی ہے؟ یہ کب اپنی اصل قوت کو سمجھے گی اور اپنے فرائض سرانجام دے گی۔ خوشیاں منانے پر کوئی اعتراض نہیں یقینا منانی چاہیں لیکن ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھنا چاہیے ۔ آخر کب تک اس امید پہ جیئیں گے کہ دوسرے آکر ہمارے حالات درست کریں۔ باہر والوں کو اپنا نجات دہندہ ہی سمجھیں گے۔ "خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا نہ ہو خیال جسے آپ اپنی حالت کے بدلنے کا "۔ یہ بات ہمیں ہی بتانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن افسوس ہم نے اس پر توجہ نہیں دی ۔اور دوسری قوموں نے اپنے قوت بازو پہ انحصار کیا اور معاشی اور سماجی لحاظ سے ترقی کرتی چلی گئیں۔ لیکن ہم نے چوہتر سالوں نعروں پہ اعتبار کیا، کبھی، روٹی کپڑا اور مکان پہ تن من دھن لگایا، پھر مذہبی دعوی داری پہ آنکھیں بجھا دیں، پھر سب سے پہلے پاکستان کے دھوکے میں آئے اور اب ریاست مدینہ کے نعرے کی گونج میں ہیں جس میں بیچ بیچ میں " زندہ ہے بھٹو زندہ ہے اور شیر کی دبی دبی دھاڑ سنائی دیتی ہے، تو کہیں منزل نہیں رہنماء چاہیئے، سندھو دیش کا مطالبہ، بلوچ لیبریشن فرنٹ کی آزادی کی فریاد۔ عام آدمی کو جو اچھا لگتا ہے وہ اسی پر سر دھنے لگتا ہے۔ چاہے :نعرہ کا اصل مطلب اور مقصد" معلوم نہ ہو۔آخر یہ سمجھدار لوگ لوگوں کے کھوکھلے نعروں سے کیسے متاثر ہوجاتے ہیں ؟ اتنے برسوں بعد بھی کیوں دوسروں سے امید لگائے بیٹھے ہیں؟ کب یہ اپنی حقیقت کو پہچانیں گے؟ کب اپنے قوت بازو پہ انحصار کریں گے؟ "مسلم ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی "، "اپنی ملت آپ پیدا کر اگر زندوں میں پے"، علامہ اقبال کی باتوں پہ عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا مشاعرے مشرق اور قومی شاعر قرار دے دینے سے ان کی تعلیمات پر عمل ہو جائے گا؟ یقینا نہیں! بس اب زندہ قوم صرف چند موقعوں کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے بن کر دکھانا ہوگا۔ اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت آگے جانا ہوگا، تعلیم صرف دستخط کرنے کے لئے نہیں بلکہ کچھ کر دکھانے کے لئے حاصل کرنی ہوگی۔ ملی نغموں کی حد تک محب وطن نہیں بلکہ سہی معنوں عملی طور پر وطن سے وفاداری کرنی ہوگی۔ درآمدی اشیاء استعمال کرکے خوش ہونے کہ بجائے نت نئی ایجادات کرکے اپنی اشیاء بیرون ملک بھیج کر خوش ہوں ، بیرون ملک سے ڈگری حاصل کرکے نوکری ڈھونڈنے کہ بجائے اپنے ملک اعلی تعلیمی ادارے قائم کریں اور جہاں بیرون ممالک سے لوگ آکر تعلیم حاصل کرنا اعزاز سمجھیں ۔ یہ کوئی خیالی پلاؤ نہیں صرف سوچ کو بدلنا ہے۔ زندہ قوم سے پائندہ قوم بننے تک کا سفر ہے۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین