• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نہ ڈرون ہماری چیخ و پکار پر کان دھرتے ہیں نہ ڈالر ہماری سنتا ہے۔ اونٹ جیسی حالت ہوگئی ہماری جس کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں لیکن اونٹ ہوتا بہت زبردست ہے کہ اس جیسا صابر جانور اور کوئی نہیں جیسے ہم جیسی صابر قوم بھی اور کوئی نہیں۔ کیسا کیسا جمہوری و غیر جمہوری تحفہ ہم نے بھگتا اور اب بھی بھگت رہے ہیں لیکن ایک بھی ایسا نصیب نہ ہوا جو ہمیں کوئی واضح سمت اور سکون کی زندگی عطا کرسکتا۔ قدم قدم پر کنفیوژن۔ کالا باغ ڈیم سے لیکر میڈیم کی تلاش تک کہ اردو ہو یا انگریزی؟ اور جمعہ یا اتوار کی چھٹی کے رپھڑ رؤلے سے لیکر دوستوں کے انتخاب تک کہ کبھی اس ملک کی سڑکوں پر اونٹ ”کیٹ واک“ کرتے تھے اور ان اونٹوں پر امریکن گندم کی بوریاں لدی ہوتی تھیں، اونٹوں کی صراحی دار گردنوں میں تختیاں مالاؤں کی طرح جھولتیں جن پر جلی حروف میں لکھا ہوتا … ”تھینک یو امریکہ“۔ پھر آہستہ آہستہ اک اور آرکسٹرا تیار ہوا اور بتدریج اس کی آواز بلند ہوتی چلی گئی۔ اس سریلے نغمہ کے بولوں میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلے کہتے تھے چین ہمارا دوست ہے، پھر آواز آئی ”یہ دوستی ”کے ٹو“ سے بھی بلند ہے “ اک اور ترمیم آئی کہ ”نہیں بھائی! یہ پہاڑوں سے بلند اور سمندروں سے بھی گہری ہے“ ابھی اسی میں مست تھے کہ کسی نے مصرعہ لگایا ”یہ تو شہد سے بھی میٹھی ہے“ یعنی امور خارجہ نہ ہوئے انڈین فلم کے گانے ہوگئے۔
”یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے
توڑیں گے دم مگر ترا ساتھ نہ توڑیں گے“
یا پھر وہ …
”یاری ہے ایمان میرا یار میری زندگی“
چلو مان لیا سب ٹھیک ہے۔ ہمارا نیا دوست بہت فٹ جارہا ہے، وہ اقتصادی دیو بن چکا ہے اور آنے والے سالوں میں سپر پاوری کا ٹائٹل بھی امریکہ سے چھین لے گا لیکن ہم کہاں کھڑے یا لیٹے ہیں اور آنیوالے دس بیس سالوں میں کہا ں کھڑے ہوں گے؟
بالفرض آئندہ چند عشروں میں چین سپر پاور بن بھی جاتا اور ہم بدستور ”زمیں جنبد نہ جنبد“ پر عمل پیرا رہتے ہیں تو یہ رشتہ کیسا ہوگا؟ اس کی نوعیت، اصلیت اور حقیقت کیا ہوگی کہ زندگی میں عزیز ترین دوست یا سگے بھائیوں میں بھی فاصلہ بہت بڑھ جائے، ایک کامیابی اور دوسرا ناکامی کی معراج پر ہو تو رشتے میں رخنے پڑ جاتے ہیں۔ دوستیاں کم و بیش برابری کی سطح پر سانس لے سکتی ہیں ورنہ سب کچھ آکسیجن کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ دو ایسے بہن بھائی کا تصور کریں جو ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہتے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک کی بیٹی بہت خوبصورت، سگھڑ اور بیحد قابل جبکہ ایک کا بیٹا نکما، نالائق اور آوارہ نکل آئے تو کیا دونوں میں رشتہ ممکن ہوگا اور اگر ہو بھی جائے تو کیا نبھ بھی جائے گا؟
کوئی تو ہو جو چند بنیادی ترین ایشوز پر اتفاق پیدا کرسکے خواہ ڈنڈے اور انڈے سمیت سب ہی کچھ استعمال کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہاں ڈنڈا اور انڈہ میں نے ”کیرٹ اینڈ سٹک“ کے متبادل کے طور پر استعمال کیا ہے لیکن ایسا کرے گا کون؟ یہ ”سیاسی ووٹ بینکوں“ کے بھکاری بھلا کسی کو کیا دے سکتے ہیں؟ الیکشن جیتنے کے جنون میں مبتلا گلوبل بازی جینے کا جوا کھیلنے کا رسک افورڈ نہیں کرسکتے۔
ابھی کالم کے دوران گھنٹی بجی، فون اٹھایا تو بیرون ملک سے کال تھی، مالیاتی دنیا کو اچھا خاصا سمجھنے والے ایک دیرینہ قاری نے مجھے یہ بتا کر سراسمیہ کردیا کہ پاکستان کرنسی نوٹ چھاپنے والی مزید مشینیں امپورٹ کررہا ہے۔ پاک چین دوستی اگر شہد سے میٹھی ہے تو یہ خبر میرے لیے زہر سے بڑھ کر زہریلی ہے۔ ظالم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جتنا اضافہ کرتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ قوت خرید اوریجنل تنخواہ سے کشید کرلیتے ہیں لیکن کب تک؟ لوگ پیچھے ہٹتے ہٹتے بالکل ہی دیوار کے ساتھ جا لگے اور ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کا بگل بج گیا تو ”قصر دروغ“ کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ جیسے ہر روز آئینہ دیکھنے والے کو اپنے ڈھلنے ڈھلکنے کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا اسی طرح مسلسل ملک میں رہنے والا بھلے سال میں ایک دو بار بیرون ملک ہو آئے … اسے اندرون ملک تبدیلیوں کا صحیح اندازہ و امپیکٹ نہیں ہوتا۔ دس پندرہ سال بعد پاکستان آنیوالا آپ کو بہتر طور پر بتا سکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے اور خدوخال کتنے بدل چکے خصوصاً جب ایسی شخصیت دنیا کی اک نامور سوشل سائنٹسٹ بھی ہو۔
ڈاکٹر خالدہ ذکی پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس کے شعبہ اقتصادیات میں میری کلاس فیلو تھیں۔ اکنامکس میں ماسٹرز کے بعد امریکہ جا کر سوشیالوجی میں ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کی۔ آج کل مشی گن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ پچھلے برس میں وہیں تھا، ان سے فون پر بات ہوتی رہی لیکن میرے بیحد ٹائیٹ شیڈول کے سبب خواہش کے باوجود ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔ آج کل اک پراجیکٹ کے سلسلہ میں پاکستان آئی ہوئی ہیں جمعرات کے روز بیالیس برس بعد ہماری ملاقات ہوئی تو جہاں دیر تک بیتے دنوں اور پرانے کلاس فیلوز کا ذکر ہوا وہاں جو کچھ پاکستان پر بیت رہی ہے وہ بھی زیر بحث رہا بلکہ سچ پوچھیں تو اپنی عادت کے برعکس میں بولا بہت کم اور سنا بہت زیادہ کہ میں ڈاکٹر خالدہ کی آبزرویشن سے آگہی چاہتا تھا۔ میں نے تب اور اب کا فرق پوچھا تو کہا۔
”ہم الفاظ کے بادشاہ اور اعمال کے حوالہ سے کنگال ہو چکے ہیں۔ دکانوں کے بورڈز تک پرمقدس الفاظ جگمگاتے ہیں لیکن اعمال تک پر اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ سارا زور ظواہر پر ہے، اندر سے کھوکھلے، باہر ہی نہیں اپنے اندر بھی بری طرح منقسم ، ہماری خوشحالی سو فیصد سطحی اور جعلی جبکہ ہماری غربت و بدحالی سو فیصد سے بھی بڑھ کر جینوئین اور اصلی ہے۔ ایجوکیشن اول تو ہے نہیں، ہے تو کئی قسموں کی اور ہر قسم کا معیار گھٹیا کہ ایسی ”تعلیم“ کا کیا کرنا جو سڑک پار کرنے اور گاڑی پارک کرنے کی تمیز نہ سکھا سکے۔ یہاں ہائیر ایجوکیشن پر فوکس ایسا ہی ہے جیسے کوئی کمزور ترین بنیادوں پر عمارت کھڑی کر کے اس کی بالائی ترین منزل کو بہت بھاری بنانا چاہے۔ سو فیصد ثواب اورئیٹنڈمذہبیت جس کا عملی زندگی پر اطلاق سرے سے ہی موجود نہیں۔ اقبال کے اشعار اور قائد کے اقوال سر آنکھوں پر لیکن خدارا سیکھنے، سمجھنے، سوچنے کو اور بھی بہت کچھ ہے“۔ طویل گفتگو کے دوران ڈاکٹر خالدہ کا لہجہ نجانے کتنی بار اور آنکھیں نم ہوگئیں لیکن دکھ میرا یہ ہے کہ لہجوں کے سوگ اور آنکھوں کی نمی کسی روگ کا علاج نہیں کہ ان سے نہ ڈرون رکتے ہیں نہ ڈالر، نہ ڈاکے!
تازہ ترین