بجلی کا بحران اور اس کاخاتمہ آج پوری قوم کا بڑا چیلنج بن گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بحران سے کوئی ”پاکستان کی بڑھتی ضرورتوں اور محدود پیدا واری ذرائع“کی ہارڈشپ جنم نہیں لیا ۔ اصل اور بڑی وجوہات حکمرانوں اور سیاست دانوں کی بد نیتی ، نااہلی اور ان کا محدود ویژن ہے جو گزری حکومت میں انرجی سیکٹر میں کھلم کھلا اور بھاری بھرکم کرپشن میں تبدیل ہو کر سامنے آیا ۔ یوں یہ بحران اپنی نوعیت کے اعتبار سے قطعی مصنوعی ہے ۔ گزشتہ عشرے میں خاکسار نے کتنے ہی کالم دنیا کے ہر ملک اور ہر حکومت کے ترجیحی ایجنڈے ”واٹر مینجمنٹ “پر لکھے اور انتباہ کے طور پر واضح کیا کہ امریکہ اور یورپی تھینک ٹینکس کے فیوچر سٹس نے نئی صدی کے آغاز پر ہی یہ اپروچ اختیار کی تھی کہ گزری صدی کی طرح ، جس طرح اسے آخری ربعہ میں کمیونیکیشن سنچری ( ابلاغی صدی ) قرار دیا گیا تھا ، نئی شروع ہونے والی صدی کا اندازہ پہلے ہی عشرے میں لگا یاجائے کہ یہ اپنے اختتام پر کیا کہلائے گی ؟ پھر اس پر انتہائی سنجیدگی سے اپنی اپنی سٹڈیز کی گئیں اور محتاط ترین اندازوں کے بعدتقریباً سب کاایک ہی جو حیرت انگیز جواب آیا ، وہ ہے ”واٹر مینجمنٹ“۔ یوں انہوں نے باہمی اتفاق کیا کہ اگلی صدی واٹر سنچری کہلائے گی ۔ یہ تجزیہ بھی ہوا کہ پوری دنیا میں آبی وسائل کی اہمیت بے پناہ بڑھ جائے گی ۔یہ ترقی ، سیاست اور عسکری سائنس و جنگوں کا موضوع بنے گا ۔ نتیجتاً واٹر مینجمنٹ ہر ملک اور پوری دنیا کا اہم ترین ایجنڈ ا بن گیا ۔ ترقی پذیر دنیا کی آنکھیں بھی کھل گئیں ۔ بھارت ڈیم پر ڈیم بنانے لگا ۔اور تو اور نکاراگواجیسے ترقی پذیر ملک نے بھی 280میل طویل نہر کے ذریعے دو سمندروں کو چینی سر مایہ کاری اور مہارت سے ملا کر واٹر مینجمنٹ کا شاندار منصوبہ بنایا ہے ۔ستم ظریفی دیکھیں جب یہ ایجنڈا پوری دنیا پر واضح ہو گیا تو پاکستان میں آبی وسائل کو سنبھالنے کی بدنظمی اپنی انتہا پر ہے ۔ ہماری علاقائی سیاست اور حکومت میں قومی سطح کی تیزی سے بڑھتی کرپشن ، واٹر مینجمنٹ کے پہلے سے موجود نظام کو بھی برباد کرتی جارہی ہے ۔ آغاز کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی مزاحمت سے ہوا ۔ واپڈا کے ایک چیئر مین شمس الملک چیختے رہے کہ بھارت پاکستان میں ترقیاتی عمل کو پانچویں گیئرمیں لے جانے والے انقلاب آفریں منصوبے کو رکوانے کے لیے اپنے مقامی ایجنٹس کو اربوں روپیہ پاکستان بھیج رہا ہے ، لیکن ہمارے بعض سیاست دانوں نے منصوبے کا نام لینا بھی حساس سیاسی مسئلہ بناد یا ۔ اس کی جانب اب ہماری قومی ذہنیت یہ ہے کہ ”چپ ہی رہو بابا“۔ سو، آج ہم اپنے سب سے بڑے دریاکا سال بھر میں صرف 16فیصد پانی استعمال کرتے ہیں ، اس سے بجلی بنا سکتے ہیں نہ قابل کاشت رقبہ بڑھانے کے لیے کوئی نیا نہری نظام بنا سکتے ہیں۔ یوں باقی تمام پانی بغیر استعمال سمندر میں جا گرتا ہے ۔ گویا اپنی سب سے بڑی قدرتی نعمت سے اذیت ناک کفران نعمت کا مسلسل انتظام کر ڈالا جو دنیا میں قومی سطح کے آبی وسیلے کا سب سے بڑا ڈیزاسٹر ہے ۔
اس المیہ مسلسل کو ہم نے قومی سطح پر قبول کر کے حساس ترین قرار دیتے ہوئے اب یہ چیپٹر توبند کر دیا ہے ۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ آبی بجلی پیدا کر نے سے متبادل ذریعے اختیار کر نے پر بھی بری طرح ناکام ہوئے ہیں ۔ دریائے کنہار، سوات اور کابل کے تیز تر بہاؤ میں موجود طاقت ، ہم بجلی میں کنورٹ کر نے کے اہل نہیں ، جو کہ واٹر مینجمنٹ کی سب سے مطلوب شکل ہے ۔ ہمارے جاہل سیاست دانوں کی اس ذہنیت میں جب خریدے ہوئے فرنس آئل سے بجلی بنانے پر مجبور کر دیا تو بھی ہم اس قابل نہیں کہ امپورٹ کر کے خود ہی بناتے ۔ ہم نے غیر ملکی کمپنیوں پر انحصار کرنا شروع کر دیا ، بھاری بھرکم کرپشن کے دروازے جو کھلتے ہیں۔
حکمرانوں نے کھل کر خود بھی کرپشن کی اور آئی پی پیز کی تو ”موجاں ای موجاں “ہوگئی۔ یوں وہ کرپشن کلچر پیدا ہوا جس میں لائن مین سے لے کر وزراء اعظم تک رنگے گئے ،شک تواس سے اوپر بھی ہے ۔ رہی سہی کسر بزنس اورانڈسٹریل سیکٹر کے بڑے بڑے بجلی چوروں نے نکال دی ۔ پھر قبائلی علاقے ، ریموٹ ایریاز جہاں بجلی پہنچانا بھی ضروری ہے اور بل لینا بھی ناممکن ۔ یہ ہی کیوں ، کنڈا کلچر تو بھرے بستے کراچی تک پہنچا ۔ یوٹیلیٹیز کے بلوں کی ادائیگی میں بااثر لوگوں کی ذہنیت تو ملاحظہ ہو ، انتخابی امیداوار بننے کی مجبوری نے سیاست دانوں کو سیاست دانوں سے 7 ارب روپے کے واجب الادا بلز ادا کر ا دیے ، وگرنہ قانون سمیت کوئی مائی کا لال ایسا نہیں جو ان سے یہ رقم لے سکے ۔
قدرت کا ”اسلامی جمہوریہ“پر فیاضی کا عالم بھی تو ملاحظہ ہو ، پاکستان شمسی توانائی کے حامل ہوٹینشل میں چوٹی کے ممالک میں سے ایک ہے ۔ پوٹینشل 29لاکھ میگا واٹ۔ صدیوں تک کوئلے کے ذخائرکی سکت ایک لاکھ میگاواٹ ، ونڈ پاور ( چلتی ہوا کی طاقت ) کا تین لاکھ چھیالیس ہزار ، افسوس کہ استفادے کے لیے سرمایہ ہے نہ ٹیکنالوجی نہ ماہرین ۔ سب سے بڑھ کر کسی ولولہ انگیز اور مکمل دیانت دار سیاسی قیادت سے محرومی ۔ سستی ترین آبی بجلی بنانے کا پاکستانی پوٹینشل ایک لاکھ میگا واٹ سے زیادہ ہے ۔قومی ضرورت صرف چھبیس ہزار کی ۔مقتول کالا باغ پلان سمیت پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پید اکر نے کی ٹیکنیکل سٹڈیز ہو چکیں ۔ارب ہا روپے سے تیار فذیبلیٹیز موجود ہیں ، خالی جیب حکومت ان کی طرف سوچ بھی نہیں سکتی ۔ سوری ، فقیر آ پ کو کہاں لے گیا ۔
آئیں اپنے اصل کی جانب !شہباز شریف کو جی بھر کر شاباش ۔بجلی اور گیس چوری کے خلاف زور دار آپریشن جاری ہے ۔ کچھ موٹی مچھلیوں پر بھی ہاتھ پڑ گیا ۔ امیدہے یہ علامتی نہیں ہوگا ، نئے نظام کا لازمی جزو بن جائے گا ۔فقیر پر تو بھائی جان وزیر اعظم اور سراپا شاباش شہباز کی سنجیدگی عیاں ہے ۔ ”واہ واہ گروپ “تو انہیں خلق خدا کی تنگی دیکھنے دے گا نہ اپنی اپنی واہ واہ کے شور میں کسی کے جملہ ہائے آہ و بکا سننے دے گا ۔ شاباش شہباز ، ادھر آؤ کان میرے منہ کی طرف لاؤ ، لوگ کہہ رہے ہیں بجلی کا مسئلہ حل کرناہے تو ماہرین کو ساتھ ملاؤ ۔ فقیر گلیوں میں اٹھتے سوال سن رہا ہے کہ یہ قریبی سیاست دانوں ، بااعتماد بزنس مین اور تاجروں کی قربت وتعاون سے حل نہیں ہوگا ۔ساتھ ان کو ملاؤ جو ہر اٹھتے سوال کا جواب دیانت اور اعتماد سے دے سکیں۔ سوالوں سے گھبرائیں نہ ۔ موضوع پر انفارمیشن رچ ترجمان مقررکرو جو عوام کے چبھتے سوالوں کو جواب دے سکے اور ان کی تسلی کرے ۔
ہاں سوالوں سے ایک سوال یاد آیا بجلی کی تقسیم کا قومی مر کز ، ایس ٹی ڈی اب تک کتنا کمپیوٹرائزڈ ہوا ؟جس کے لیے دنیا کے جدید ترین کمپیوٹر دو مرتبہ خریدے گئے ، وہ نصب ہو چکے ؟ مافیا نے نگران دور تک تو نہیں ہونے دیے تھے ۔ ہمارے اسلام آباد کے سینئر صحافی دوست جو منجھے ہوئے رپورٹر اور کالمسٹ ہیں نے ہمیں بتایا کہ پچھلے دنوں ایس ٹی ڈی تو مچھلی منڈی بنا ہو ا تھا ۔ پورے ملک میں بجلی کی تقسیم کا نظام کاغذوں اور میزوں پر پڑے چھ فونز پر چل رہا تھا ۔ خواجہ آصف صاحب اور شاباش شہباز بتائیں کے کہ اب ایسا تو نہیں؟ کیا درآمد کیے گئے وہ کمپیوٹرز جو بجلی چوری کی نشاندہی کرتے ہیں اور انسداد کے مشکل آپریشن کے اخراجات اور وقت بچاتے ہیں، اب اپنا کام کر رہے ہیں ؟