• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّفہ: سلمیٰ اعوان

صفحات: 199، قیمت: 750 روپے

ناشر: دوست پبلی کیشنز، پلاٹ 110، اسٹریٹ 15، I 9/2، اسلام آباد۔

سلمیٰ اعوان معروف خاتون سیّاح ہیں۔ اُن کے سفرنامے مختلف اخبارات و جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں اور وہ کتابی شکل میں بھی دست یاب ہیں۔ یہ اُن کا11 واں سفرنامہ ہے، جب کہ اُن کے7 ناولز، 6 افسانوی مجموعوں کے علاوہ کالمز اور مضامین پر مشتمل کتب بھی شایع ہو چُکی ہیں۔ اُنھوں نے 2007ء میں حج کی سعادت حاصل کی، اُسی سفر سے زیرِ تبصرہ سفرنامے کا آغاز کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر’’ شہاب نامے‘‘ کے حوالے سے یہ واقعہ لکھا ہے کہ جب فیلڈ مارشل ایوب خان عُمرے کے لیے جا رہے تھے، تو شہاب صاحب نے اُن سے مخصوص دعاؤں کو یاد کرنے کی بابت پوچھا۔ 

اُنھوں نے جواباً کہا،’’ مَیں نے سوچ لیا ہے، مجھے اللہ سے بس یہ کہنا ہے،’’ پروردگار! مَیں تیرے حضور حاضر ہوگیا ہوں، جیسا بھی ہوں، قبول کر۔‘‘ کچھ اِسی طرح کی کیفیات مصنّفہ پر بھی طاری رہیں۔وہ ہر جگہ اپنے ربّ سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔گو کہ بعض مقامات پر قدرے بے باکی قاری کو کھٹکتی ہے، مگر عشق ومستی کے رنگ کچھ الگ ہی ہوتے ہیں۔ 

اگلی منزل اسپین ہے، جہاں دو اور خواتین بھی اُن کے ساتھ ہیں اور چوتھا کتاب کا قاری بھی، جو صفحہ 29 سے 165 تک پر پھیلے اِس سفر میںاِن سیّاحوں کے قدم بقدم چلتا ہے۔ اِس سفر کا مرکز غرناطہ اورقرطبہ ہیں، جہاں مسلمانوں کی روحیں آج بھی بھٹکتی پِھرتی ہیں۔ سفر سے قبل کے مسائل، بُکنگ، ٹکٹس کا حصول، مختلف مقامات تک رسائی کے مراحل، ہم جولیوں کے درمیان نوک جھونک کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ سارا منظرنامہ نظروں میں گھوم جاتا ہے۔ 

اِس سفرنامے کی ایک خُوبی یہ بھی ہے کہ اِس میں صرف گھومنا پِھرنا نہیں ہے، بلکہ جہاں ضرورت محسوس کی، ضروری معلومات بھی فراہم کر دی گئیں، جو اُکتاہٹ کا باعث نہیں بنتیں اور سفرنامہ ،تاریخ کی کتاب یا بروشر کا رُوپ دھارنے کی بجائے سفرنامہ ہی رہتا ہے۔ اگلے مرحلے میں اُنھوں نے ازبکستان کے دارالحکومت، تاشقند میں ڈیرے ڈالے اور چند صفحات میں پورا شہر گھما ڈالا، اِس موقعے پر وہاں کے قومی شاعر، علی شیرنوائی سے متعلق قیمتی معلومات بھی کتاب کا حصّہ ہیں۔ 

آخری پڑاؤ سمرقند رہا، جسے ایک زمانے میں علم وادب اور مسلم تہذیب و تمدّن کے لحاظ سے دنیا میں اہم مقام حاصل تھا۔ تحریر تصنّع اور بناوٹ سے پاک ہے۔ جو دیکھا، جیسا دیکھا، جیسا محسوس کیا، بلاکم وکاست بیان کردیا۔ اب یہ کسے اچھا لگے یا بُرا، مصنّفہ کا دردِ سر نہیں۔ البتہ، تصاویر کے بغیر سفرنامہ سونا سونا سا محسوس ہوتا ہے۔

تازہ ترین