• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: مرزا عبّاس علی بیگ عبّاس

صفحات: 127، قیمت: درج نہیں

ناشر: حسن تالپور اکیڈمی، لطیف آباد نمبر 4، حیدرآباد۔

سندھ کے تالپور حکم ران علم و ادب، بالخصوص شعر وشاعری کی دِل کھول کر سرپرستی کیا کرتے تھے، بلکہ اُن میں سے کئی ایک خود بھی بلند پایہ شاعر تھے، اِس ضمن میں سندھ کے آخری تاج دار میر نصیر خان تالپور، جو جعفری تخلّص کرتے تھے، خاص طور پر نمایاں ہیں۔ فروری 1843ء میں میانی کے مقام پر لڑی جانے والی جنگ میں انگریزوں نے تالپوروں کو شکست دے کر سندھ پر قبضہ کرلیا اور میر نصیر خان کو کلکتہ لے جا کر نظر کردیا، جہاں وہ دو سال بعد خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اس عرصے میں اُن کا شعر گوئی کا شغل جاری رہا اور نئے حالات نے اُن کے فن کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ اس دَوران اُن کی میر انیس اور دبیر سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ 

میر انیس نے اپنے ایک سلام میں میر نصیر کا ذکر کیا ہے۔اُن کا فارسی کلام شایع ہوچُکا ہے، اب صفدر عباس مرزا سیفی کی معاونت سے اردو دیوان شایع کیا گیا ہے، جسے سندھ کے تالپور دَور پر اتھارٹی سمجھے جانے والے مرزا عباس علی بیگ عباس نے مرتّب کیا تھا۔ میر صاحب کا کلام سادہ اور رواں ہے، جس میں مذہبی جھلک بہت نمایاں ہے۔ 

اُن کے کلام کے مطالعے سے اِس حقیقت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ میں قیامِ پاکستان سے ایک صدی قبل بھی اردو زبان اپنی ترقّی یافتہ شکل میں موجود تھی اور یہاں کے حکم ران اِس زبان میں اظہارِ خیال کو باعثِ فخر سمجھتے تھے۔ مضبوط جِلد اور معیاری کاغذ کے ساتھ طباعت بہت خُوب صُورت ہے۔

تازہ ترین