• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طالبان آئے اور چھا گئے، لیکن اُن کی اصل آزمائش اب شروع ہوئی ہے۔ اُنھیں افغانستان میں ایک ایسا سیاسی نظام نافذ کرنا ہے، جس سے مُلک میں استحکام آئے اور برسوں سے جنگ کے شکار عوام سُکھ کا سانس لے سکیں۔موجودہ حالات میں استحکام کا مطلب افغانیوں میں یہ اعتماد بحال کرنا ہے کہ طالبان نہ صرف ایک کام یاب عسکری جدوجہد کرسکتے ہیں، بلکہ اُن کے پاس وہ تدبّر اور دُور اندیشی بھی ہے، جس کے ذریعے مُلک کو جدید خطوط پر چلایا جا سکتا ہے۔ 

غیر مُلکی فوجوں سے تو بندوق کے ذریعے مقابلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اپنے ہم وطنوں کے دِل جیتنے اور اُن کی خدمت کے لیے پیار ومحبّت، تدبّر اور گڈ گورنینس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو، تو جنگی میدان میں حاصل کی گئی کام یابیاں، ناکامیوں میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔طالبان نے کابل میں داخلے کے کچھ ہی دنوں بعد حکومت سازی کا آغاز کردیا تھا اور اِس سلسلے میں کئی تقرریاں بھی کیں، جن میں وزیرِ خزانہ اور افغان مرکزی بینک کے گورنر کی تقرّری خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ 

گو کہ ایسا لگا کہ وہاں سے غیر مُلکیوں اور کچھ ہزار افغانیوں کا انخلا ہی سب سے اہم ہے۔ ظاہر ہے، اِس کی وجہ وہ مغربی اور عالمی میڈیا تھا، جس کی تمام تر دِل چسپی اپنے ممالک کے لوگوں کی بحفاظت واپسی میں تھی۔اِسی لیے کابل ائیر پورٹ پر رونما ہونے والے واقعات مرکزِ نگاہ رہے، لیکن طالبان کے لیے مرکزی اہمیت معیشت اور قیامِ امن رہی۔ خاص طور پر یہ باتیں اِس پس منظر میں نہایت اہم تھیں کہ امریکا، یورپ، عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے افغانستان کے فنڈز اور امداری رقوم اُس وقت تک کے لیے منجمد کر دیں، جب تک کوئی قابلِ قبول حکومت قائم نہیں ہوجاتی۔

شاید اِسی لیے ایک طرف وزیرِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر کا تقرّر کیا گیا، تو دوسری طرف مختلف ممالک کو ترقّیاتی منصوبے جاری رکھنے کی پیش کش کی گئی۔ بات صرف امریکا اور مغرب ہی کی نہیں ہے، چین، روس اور دیگر ممالک بھی طالبان سے توقّع کر رہے ہیں کہ وہ ایک مستحکم افغانستان کی جانب قدم بڑھائیں گے تاکہ خطّہ اور دنیا منفی اثرات سے محفوظ رہ سکے۔ اِس ضمن میں اِن ممالک نے طالبان تک سفارتی، میڈیا اور دیگر ذرائع سے اپنے تحفّظات، مطالبات پہنچا بھی دیے ہیں۔

امریکا اور اُس کے مغربی اتحادی انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین سے متعلق معاملات پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ چین نے عالمی انسانی حقوق کی برسلز تنظیم میں افغان جنگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو زیرِ بحث لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ غالباً چین یہ چاہتا ہے کہ اُس انسانی المیے کو زیرِ بحث لایا جائے، جو غیر مُلکی فوج کی وجہ سے رونما ہوا۔لازمی اَمر ہے کہ اگر ایسی کوئی بحث ہوتی ہے، تو امریکا اور اُس کے مغربی اتحادیوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ اُن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ 

ایک اندازے کے مطابق گزشتہ بیس برس میں پانچ لاکھ افغانی ہلاک ہوئے، جب کہ زخمی اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔تو کیا اِس طرح کے بحث مباحثوں سے طالبان حکومت کو عالمی سطح پر کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟خاص طور پر یہ سوال بہت اہم ہے کہ آیا اِس کے نتیجے میں مالیاتی دبائو میں کمی آسکتی ہے؟ سرِدست کچھ کہنا ممکن نہیں، اجلاس کی کارروائی کا انتظار کرنا ہوگا، لیکن اگر طالبان کو کوئی مالی،سیاسی یا سفارتی فائدہ نہیں ہوتا، تو انسانی حقوق پر اِس طرح کے مباحثے اُس کے لیے بے فائدہ مشق ثابت ہی ہوں گے۔

گو کہ مہاجرین کا مسئلہ اُس طرح سامنے نہیں آیا، جیسا کہ بہت سے ممالک اور ماہرین کا خیال تھا، تاہم پھر بھی افغان شہریوں کے مُلک سے باہر جانے کے معاملات طالبان اور دنیا کے لیے دردِ سر بنے رہے اور اگلے بہت دنوں تک یہ معاملات عالمی میڈیا کی دل چسپی کا موضوع بنے رہیں گے۔اِس ضمن میں طالبان کا کہنا ہے کہ لوگ غربت کی وجہ سے خوش حال ممالک کی طرف جانا چاہتے ہیں اور باہر جانے والوں میں ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی بھی ہے کہ جن کی وفاداریاں افغان جنگ کے دَوران غیر مُلکیوں کے ساتھ رہیں۔ اِسی لیے وہ طالبان سے خوف زدہ ہیں کہ کہیں اُنھیں انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے اور اس کا ایک سبب ماضی کے تجربات بھی ہیں۔

طالبان کا کہنا ہے کہ افغان شہریوں کو اپنے مُلک ہی میں رہنا چاہیے کہ مُلک کو اُن کی ضرورت ہے اور وہ اُنہیں ایسا پُرامن ماحول فراہم کرنے کی کوشش کریں گے، جس میں وہ مکمل یک سُوئی اور اطمینان سے کام کرسکیں۔اُنھوں نے امریکا پر الزام لگایا کہ وہ اُن لوگوں کو مُلک سے نکالنے سے باز رہے، جن کی افغانستان کو ضرورت ہے، تاہم، اِس کے باوجود اُنہوں نے لوگوں کو زبردستی مُلک چھوڑنے سے نہیں روکا۔باہر جانے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جنھیں گزشتہ بیس برسوں میں مختلف شعبوں میں تعلیم وتربیت فراہم کی گئی اور وہ مختلف اداروں میں کام کر رہے تھے۔

اُن کی کارکردگی اچھی تھی یا بُری، یہ الگ بحث ہے، کرپشن ہوئی یا نہیں، یہ معاملات بھی اپنی جگہ اہم ہیں (پھر یہ کہ ایسا کون سا مُلک ہے، جہاں کرپشن نہیں، یہاں تک کہ چین بھی اس سے مکمل طور پر پاک نہیں ہے)، لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ ان تعلیم یافتہ افراد نے افغانستان کو ایک جدید مُلک کے طور پر چلایا۔ وہاں یونی ورسٹیز سے لے کر کرکٹ ٹیم تک قائم ہوئی، جنھیں عالمی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا۔طالبان کے لیے اِن تعلیم یافتہ افراد کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔

اِسی لیے اُن کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ پائلٹس ہمارا اثاثہ ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ طالبان نے کابل پر کنٹرول کے بعد اُسے ایک ماڈل بنانے کی کوشش کی۔وہاں فوری طور پر مئیر کا تقرّر کیا گیا تاکہ ضروری مسائل پر فوری قابو پایا جاسکے۔شہریوں سے بار بار اپیل کی گئی کہ وہ اپنی ملازمتوں پر واپس آجائیں، وہ سرکاری ملازمین کے گھروں تک بھی گئے تاکہ ُانھیں ملازمت پر آنے کے لیے قائل کرسکیں۔اِس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اُنھوں نے خواتین ڈاکٹرز سے بھی ڈیوٹی پر آنے کو کہا، جو اُن کے ماضی کے بالکل برعکس اقدام ہے۔اِن اقدامات کے نتیجے میں معمولاتِ زندگی جلد ہی بحال ہوگئے۔عالمی اور مقامی میڈیا پر سامنے آنے والی رپوٹس میں شہریوں کو واضح طور پر اپنے معمولات کی طرف لَوٹتے ہوئے دیکھا گیا۔اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان کسی معاملے میں دخل اندازی نہیں کر رہے۔ بلاشبہ یہ خوش آیند باتیں ہیں، لیکن طالبان کے لیے ابھی اور بھی امتحانات ہیں۔

طالبان کو مُلک کو چلانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے، تو دوسری طرف ملازمین کی تن خواہوں کے لیے فوری طور پر رقم درکار ہے۔اِس رقم کا بندوبست کیسے ہوگا؟ ایک طریقہ تو دھڑا دھڑ نوٹ چھاپنے کا ہے، لیکن اس کے لیے چھاپے خانے کو پوری صلاحیت کے ساتھ کام کرنا ہوگا، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم وہ زرِمبادلہ ہے، جو دوسرے ممالک میں افغان حکومت کے نام سے رکھا ہوا ہے، اسی کے ذریعے بین الاقوامی لین دین اور دوسرے معاملات چل سکیں گے۔ 

چین اور روس ،افغانستان کے ہم سائے ہیں اور اِس میدان میں وہ دونوں ہی اُس کی مدد کرسکتے ہیں، گو اِس ضمن میں روس کی صلاحیت عالمی پابندیوں کی وجہ سے بہت کم ہے۔تاہم، چین بھرپور مدد کرسکتا ہے اور طالبان کی اُس سے بہت سی توقّعات بھی ہیں، جس کا وہ کئی بار اظہار بھی کرچُکے ہیں۔ جواب میں چین کی جانب سے بھی خاصے حوصلہ افزا بیانات آ رہے ہیں، مگر ابھی تک اُس نے کسی امداد یا بڑی سرمایہ کاری کا اعلان نہیں کیا۔شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ چین کا مُلا برادر کی قیادت میں بیجنگ کا دورہ کرنے والے وفد سے اس نوعیت کا کوئی معاملہ طے پایا ہو کہ مالی مدد کا اعلان کسی مناسب وقت ہی پر کیا جائے گا۔ 

پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چین ابھی عالمی برادری کے رویّوں اور سیاسی دائو پیچ دیکھ رہا ہو اور کسی فیصلے کے انتظار میں ہو، کیوں کہ بہرحال وہ عالمی نظام کا حصّہ ہے اور اُس کے لیے دنیا کو نظر انداز کرکے یک طرفہ فیصلے کرنے بہت مشکل ہوں گے۔اِسی لیے وہ شمالی کوریا کے لیے بھی کچھ نہیں کرسکا، جس پر عالمی پابندیاں لگیں اور چین نے ان پابندیوں کی پاس داری کی۔روس کی مثال بھی سامنے ہے۔ اُس نے بھی ابھی تک طالبان کو دہشت گردوں کی فہرست سے نہیں نکالا، حالاں کہ اس نے طالبان وفود کی گزشتہ دوسالوں میں کئی بار میزبانی بھی کی۔

اُس نے بظاہر طالبان کے لیے نرم گوشہ بھی رکھا ہوا ہے اور اچھی توقّعات کے بیانات بھی دے رہا ہے۔ چین کے صدر شی جنگ پنگ اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان افغانستان پر تفصیلی بات چیت ہوئی،جس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ’’ دونوں ممالک افغانستان کی خود مختاری پر اتفاق کرتے ہیں۔‘‘دونوں ممالک کے صدور کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ افغانستان کی تمام جماعتیں جامع فریم ورک بنائیںاور دہشت گرد گروپس سے رابطے ختم کیے جائیں۔‘‘ اُنھوں نے منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام پر بھی اتفاق کیا۔شی جن پنگ نے زور دے کر کہا کہ’’ چین، افغانستان کی سالمیت، خود مختاری اور آزادی کا احترام کرتا ہے اور عدم مداخلت کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے۔‘‘

پاکستان نے، جو افغان مسئلے کے حل میں بنیادی کردار ادا کرتا رہا،کہا کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر افغانستان میں استحکام لانے میں ہر ممکن مدد کرے گا، کیوں کہ پُرامن افغانستان کی اُسے سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ پاکستان اپنے طور پر تو اِس طرح کی کوششیں کر بھی رہا ہے، لیکن اقوامِ متحدہ جیسے عالمی فورم پر اُسے اِس مسئلے پر بات تک نہیں کرنے دی گئی۔ضروری ہے کہ دوست ممالک کے ساتھ مل کر ایسی حکمتِ عملی بنائی جائے، جس سے پاکستان کو بھی عالمی فورمز پر بات کرنے کا موقع مل سکے۔

گو کہ پاکستانی حکومت واشگاف الفاظ میں کہتی رہی ہے کہ اُس کا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں، مگر پھر بھی امریکا اور مغربی ممالک میں یہ تاثر عام ہے کہ اسلام آباد، طالبان کے ساتھ خصوصی تعلقات رکھتا ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ طالبان کی کام یابی سے پاکستان کو فائدہ ہوا اور اُس کے دشمن، بھارت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا، جس نے وہاں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی۔خود بھارت میں بھی مودی حکومت کی ناکامی پر سخت تنقید ہو رہی ہے، ناقدین اپنا سَر پیٹ رہے کہ ہیں بھارت کے اربوں ڈالرز مٹّی میں مل گئے۔

عین ممکن ہے کہ اِس تحریر کی اشاعت تک افغانستان میں کسی حکومت کے قیام کا باقاعدہ اعلان بھی ہوچُکا ہو، مگر یہ سوال پھر بھی اہم ہے کہ طالبان افغانستان کے لیے مستقل بنیادوں پر کیسا نظامِ حکومت چاہتے ہیں؟کیا وہ آئین میں تبدیلیاں کریں گے؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے، تو وہ تبدیلیاں کس نوعیت کی ہوں گی؟ یہ بحث اِس لیے بھی اہم ہے کہ طالبان واضح طور پر کہہ چُکے ہیں کہ وہ مغربی جمہوریت کی بجائے شرعی امارات کا نظام قائم کریں گے۔تو کیا اُن کا نظام بھی ایرانی طرز کا ہوگا، جس میں سپریم لیڈر اور مذہبی رہنماؤں کی کاؤنسل اختیارت کا مرکز ہے۔

جہاں مُلکی فوج سے زیادہ پاسدارانِ انقلاب کو طاقت حاصل ہے، یہاں تک کہ وہ خارجہ امور پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور سپریم لیڈر کی سرپرستی میں کام کرتی ہے۔ عرب بادشاہتوں اور کمیونسٹ طرز کی حکومتوں کے ماڈل بھی سامنے ہیں۔ افغانستان میں سوویت حملے سے قبل ظاہر شاہ کی بادشاہت تھی، جس کا تختہ اُلٹ کر سردار داؤد اور بعدازاں ببرک کارمل نے کمیونسٹ انقلابی طرز کی حکومت قائم کی۔ اُسے سوویت یونین کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔قصّہ مختصر،یہ طالبان کے لیے امتحان ہوگا کہ وہ ایسا کون سا نظام نافذ کرتے ہیں، جو عالمی برادری کے لیے بھی قابلِ قبول ہو اور وہاں کے عوام بھی اُسے قبول کرسکیں۔

تازہ ترین