• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو کینال روڈ پر رہائش کسی نعمت سے کم نہیں، ایک طرف جلو پارک جو کہ 200کنال پر محیط ہے، سرسبز و شاداب درخت، نہر میں بہتا پانی، بھینسوں کی مست چال، بوٹینکل پارک میں اُڑتی تتلیاں، میں 6سال قبل ارشد گارڈن بالمقابل رضوان گارڈن لاہور میں شفٹ ہو چکا ہوں۔ آج سوچا اُن لوگوں کے بارے لکھا جائے جن کے بارے میں لکھنا شاید ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ کینال بینک روڈ تقریباً 30کلومیٹر پر محیط ہے جو بی آر بی نہر سے شروع ہوکر ٹھوکر نیاز بیگ تک جاتا ہے، آج میں بات کروں گا جلو پارک سے مصطفیٰ آباد انڈر پاس تک کی، یہ روڈ سگنل فری ہونے کی بنا پر فائدہ تو ہے لیکن دونوں ٹریک پر کوئی ٹریفک وارڈن نظر نہیں آتا، میں جب اپنے جیو نیوز کے دفتر کے لئے نکلتا ہوں تو پہلی مشکل اپنی سوسائٹی کے گیٹ پر ریڑھیوں کی بھرمار اور سڑک پر بےترتیب کھڑے رکشے ہوتے ہیں پھر لاہور میڈیکل سوسائٹی، اُس کے بعد صحافی کالونی کا پل نہیں بلکہ پلی ہے جہاں پر کئی گاڑیوں کا مقابلہ لگا رہتا ہے کہ مجھے پہلے گزرنا ہے، سب آپس میں پھنسے و اُلجھتے رہتے ہیں۔ اگر پارکوں کی بات کی جائے تو بےشمار ہائوسنگ اسکیموں کے اس علاقہ میں جلوپارک اور صحافی کالونی پارک کے علاوہ کوئی پارک نہیں، صحافی کالونی پارک میں ہم دوست جمشید رضا، امیر علی، سینئر صحافی ناصر نقوی، سید تنویر انہی مسائل پر باتیں کرتے واک سے کم جبکہ مسائل پر گفتگو کرنے سے زیادہ تھکتے ہیں۔

نہر پر موٹر سائیکل اور چنگ چی ایسے دھوئے جا رہے ہوتے ہیں جیسے یہ لوگ اپنے گھروں کے صحن میں دھو رہے ہوں، رنگ روڈ انڈر پاس سے 300میٹر پہلے غیرقانونی سبزی منڈی لگنی شروع ہو چکی ہے، انڈر پاس سے جونہی باہر نکلتے ہیں تو گاڑیوں کی قانونی اسپیڈ 70کلو میٹر فی گھنٹہ ہے جو کہ عموماً 80سے 90کی اسپیڈ پر چل رہی ہوتی ہیں جبکہ موٹر سائیکل 30سے 40کلو میٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ پر چلتے ہیں۔ کئی بار گلیوں سے اچانک ہی سٹرک پر ایسے آتے ہیں جیسے گھر کے صحن میں داخل ہوتے ہیں اور پھر اپنی مرضی سے موٹر سائیکل چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ موبائل فون جیسے بجتا ہے تو موٹر سائیکل جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر کھڑا کرکے کال سننا شروع کر دیتے ہیں۔تاج باغ، مغل پورہ، علاقہ رشید پورہ، کینال بینک ہاوسنگ سوسائٹی، عزیز پلی، لال پل، مغل پورہ اور پھر مصطفیٰ آباد تک سڑک ایسے لاوارث لگتی ہے کہ جیسے یہ حصہ لاہور کا ہے ہی نہیں۔ مال روڈ انڈر پاس پر کیمرے موجود ہیں اور اس کے بعد آٹھ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہربنس پورہ کیمرے ہیں، گاڑیوں کی لین میں موٹر سائیکل چل رہے ہوتے ہیں، بیجینگ انڈر پاس میں تو موٹر سائیکل چلانے کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہئے، دونوں سائیڈز پر بہترین سڑک موجود ہے۔ سینکڑوں لوگ یہاں حادثات کا شکار ہو چکے ہیں۔ نہرپر جہاں بورڈ لگا ہوتا ہے کہ یہاں نہانا منع ہے، وہیں پر نہا رہے ہوتے ہیں، جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو اپنے لئے کم اور دوسروں کیلئے زیادہ دعا کرتا ہوں کیونکہ میری نظروں نے کئی بار موٹر سائیکلز چلانے والوں کے اوپر گاڑیوں کو چڑھتے ہوئے دیکھا ہے جس کے نتیجہ میں درجنوں جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوکر ہمیشہ کیلئے معذور ہو چکے ہیں۔ لال پل، فیروز پور انڈر پاس، ظہور الٰہی انڈر پاس تو نشئیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے یہاں کئی بار میں نے پولیس کو نشئیوں کو آگے دوڑاتے ہوئے دیکھا ہے، مجھے پولیس پر ہی ترس آیا کیونکہ سینکڑوں نشئیوں کی موجودگی میں 4پولیس کے جوان کیا کر سکتے ہیں؟

مصطفیٰ آباد انڈر سے اپر مال کی طرف چنگ چی چلانا منع ہے تو پھر کیوں جلوکی طرف چلانا جائز؟ 95فیصد غیرقانونی ہائوسنگ اسکیموں کا پھیلا ہوا جال لوگوں کا پیسہ اور سکون تباہ وبرباد کیے ہوئے ہے کہ نہ جانے کب سرکاری مشینری آ کر ہمارے گھروں کو گرا دے۔ غریب لُٹ رہے ہیں، رُل رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ سی ٹی ڈی ہیڈ کوارٹر، لاہور میڈیکل کالج، جلو پارک، واہگہ باڈر کی وجہ سے بھی اس علاقہ کی نہیں سنی جا رہی۔ اوپر سے ظلم یہ ہوا کہ جلو بازار سے ٹھوکر نیاز بیگ تک اکلوتی بس چلتی تھی، ہمارے جیسے مڈل کلاس لوگ بھی بعض دفعہ بچوں کو شہر لے جانے اور واپس گھر لانے کے لئے یہی بس استعمال کرتے تھے، 20لاکھ پر محیط آبادی سے واحد بس سروس بھی چھین لی گئی۔ ناجانے شہباز شریف کے دور میں ہر 10منٹ بعد آنے والی گاڑیاں کہاں چلی گئی ہیں۔ گھرکی اسپتال میں پورے پنجاب سے مریض آتے ہیں، نہر سے آگے واہگہ بارڈر تک 300دیہات پھیلے ہوئے ہیں جنہوں نے اسی نہر کے راستے کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اطراف میں غیرقانونی فروٹ ریڑھیوں کی بھرمار جبکہ ٹریکٹر ٹرالیوں اور رات 12بجے سے پہلے بڑے ٹرکوں نے رہی سہی کسر نکال دی ہے، سینئر وزیر پنجاب علیم خان، تحریک انصاف کے عابد مناواں ناجانے کب جاگیں گے کہ وہ اپنے علاقہ کے لئے کچھ کریں۔ ن لیگ کے دو ایم این اے روحیل اصغر اور ایاز صادق کو کب علم ہوگا کہ لوگوں نے ان کو ووٹ دیے ہیں، وہ کم ازکم اپوزیشن لیڈر کے طور پر آواز تو بلند کر سکتے ہیں نا لیکن ایسا کہیں دور دور تک بھی نظر نہیں آتا۔ میری بات ڈی جی 1122پنجاب ڈاکٹر رضوان نصیر سے بھی ہوئی، میں نے ان کو اس حوالہ سے خراج تحسین پیش کیا کہ آپ کی ٹیم پوری استقامت کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پنجاب میں روزانہ ایک ہزار ٹریفک حادثات کے شکار لوگوں کو سروسز فراہم کرتے ہیں۔

ہمارے جناب مجیب الرحمٰن شامی کے بڑے بھائی صاحبزادہ ضیاء الرحمٰن شامی 85برس کی عمرمیں بیٹے عمران ضیاء شامی، بیٹی نبیرہ ضیاء شامی اور دیگر لواحقین کو روتا ہوا چھوڑ کر اِس فانی دنیا سے حقیقی دنیا کی طرف لوٹ گئے، دعا کریں کہ ﷲ ان کی بخشش فرمائے۔

تازہ ترین