• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خاکم بدہن…”اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا“
کیا لوڈ شیڈنگ غیر معینہ مدت تک کے لئے لوگوں کے مقدر میں لکھ دی گئی اور یہ طے ہوچکا کہ عوام کی قسمت میں اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا اور بجلی عیاشی کا آئٹم تصور ہوگی؟ ہاں ایسا ہی ہوگا کہ مجھے دوسری کوئی صورت دکھائی ہی نہیں دے رہی۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہوبھی گئی تو عوام کی بھاری ترین اکثریت کے لئے عملاً موجود رہے گی کیونکہ وہ اسے افورڈ ہی نہیں کرسکیں گے جیسے ”رینج روور“ سے لے کر”بی ایم ڈبلیو“ تک کی کوئی شارٹیج نہیں، مارکیٹ میں موجود ہیں، خریدنے پر بھی کوئی پابندی نہیں… جاؤ اور جاکر خرید لو ا گر خرید سکتے ہو جبکہ بجلی عیاشی نہیں بنیادی ترین ضروریات زندگی میں شامل ہے لیکن عنقریب اسے بھی عیاشی کا درجہ دیدیا جائے بلکہ سچ یہ کہ دیا جا چکا اگر آپ افورڈ ہی نہیں کرسکتے تو کسی بھی شے کا ہونا نہ ہوناایک برابر سمجھو تو بجلی ہوئی بھی تو سفید پوشوں کے لئے نہیں ہوگی۔
اول تو ان نابغوں سے لوڈ شیڈنگ ہی ختم نہیں ہونے والی کیونکہ ہر طرف”اگادوڑتے پچھا چوڑ“ والی صورتحال ہے۔ ملکی آبادی ہر صورت میں میگا واٹس کی نسبت زیادہ رہے گی۔ روپے کی قدر اور قوت خرید میں بتدریج ضعف بڑھتا چلا جائے گا۔ میں نے مختلف لوگوں سے ایک ہی جیسی بات سنی ہے کہ مہینے کی جن تاریخوں میں بجلی کے بل آتے ہیں ،گھروں میں لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ غریب آدمی کو تو چھوڑیں کہ وہ تو جیا مرا اور دنیا میں آیا نہ آیا ایک برابر، یہاں تو لوئر مڈل اور مڈل کلاس تو کیااپر مڈل کلاس بھی پیٹ کاٹ کر ہی اسے افورڈ کرے تو کرے۔
بھلے وقتوں میں طبقات محدود تھے اور ان کی تقسیم بھی بہت سادہ اور آسان تھی لیکن اب معاملہ بہت پیچیدہ ہوگیا ہے۔ہر طبقہ میں اتنے طبقے اور تہئیں موجود ہیں کہ سوچ کر ہی سر چکرانے لگتا ہے۔ غربت بھی5000 ہزار سے 25000روپے تک پنڈولم کی طرح جھولتی ہے۔ یہی حال لوئر مڈل، مڈل اور اپر مڈل کلاس کا ہے کہ سر ڈھا نپیں تو پاؤں ننگے اور پاؤں ڈھانپیں تو سرننگے، جو ڈیڑھ دو لاکھ کی رینج میں ہیں و ہ بھی تنے ہوئے رسے پر ہی رواں دواں ہیں۔ کرائے کا گھر، تین زیر تعلیم بچے، دو میاں بیوی، ایک آدھ بیمار بزرگ، خوشی غمی، چھوٹی موٹی مہمانداری اور اوپر سے بجلی کی فی یونٹ قیمت جو عید کے فوراً بعد عوام الناس کے تھوبڑے پر زوردار تھپڑ کی طرح رسید کی جائے گی تو”شیر کے نشان“سمیت پورا پاکستان روشن ہوجائے گا۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ن لیگ نے انتخابی مہم کے دوران”روشن پاکستان“ کی جو رٹ لگائی تھی وہ ہرگز جھوٹ نہ تھا…جاہلوں نے ہی سمجھنے میں غلطی کی ورنہ ن لیگ کی ”روشن پاکستان“ سے اصل میں مراد یہ تھی کہ ہم اقتدار میں آئے تو پوری قوم کے چودہ طبق روشن کردینگے اور واقعی یہ کارنامہ خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا جارہا ہے۔ مسلم لیگ(ن)کا تو فرض بھی بنتا ہے کہ چودہ اگست کو معرض وجود میں آنے والے اس ملک کے ہر شہری کے پورے چودہ طبق روشن رکھے سو اس حساب سے دیکھیں تو ہر پاکستانی چلتا پھرتا”جنریٹر“ کیا پورا ”پاور پلانٹ“ ہے۔
ایک اور بات قابل غور ہے کہ ماضی قریب میں جو جو کچھ”عیاشی“ سمجھا جاتا تھا آج ضرورت بلکہ بنیادی ضرورت بن چکا ہے مثلاً کار ہی دیکھ لیں۔60ء کی دہائی تک فاصلے بہت مختصر تھے، شہر محدود سو تانگے، سائیکل کافی اور کار عیاشی سمجھی جاتی اور تھی بھی جبکہ اب شہر شیطان کی آنت طرح پھیل چکا۔ ویرانے پوش آبادیوں میں تبدیل ہوچکے اور حقیقت یہ ہے کہ رکشہ یا ٹیکسی بارہ تیرہ سو سی سی گاڑی سے مہنگی پڑتی ہے۔ یہی حال ائیرکنڈیشنرز کا ہے کہ لوگوں کی عادات سے لے کر مکانوں کی ساخت تک میں ائیر کنڈیشنر کے بغیر گزارہ نہیں۔ وہ زمانے فسانے ہوئے جب لوگ چھتوں، صحنوں میں چھڑکاؤ کے بعد پیڈسٹل فین لگا کر نیند کرلیا کرتے تھے۔ اب تو اے سی چلے گا اور اس کی ”رننگ کاسٹ“ ائیر کینڈیشنر کی قیمت سے زیادہ ہوگی سو ذہنی طور پر تیار رہیں کہ……اس ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوگی اور ہو بھی گئی تو بھی اس لئے موجود رہے گی کہ اچھے خاصے لوگ بھی اسے افورڈ نہیں کرسکیں گے۔
اس ”دلچسپ“ صورتحال پر مجھے بچپن میں دیکھی ہوئی ایک فلم یاد آرہی ہے جو اپنے زمانے کی سپرہٹ ترین فلم تھی جس کا نام تھا”سات لاکھ“ سنتوش کمار اس فلم کے ہیرو اور ہیروئن تھیں صبیحہ جبکہ پروڈیوسر یا رائٹر سیف الدین سیف تھے۔ یہی وہ فلم تھی جس کے ایک گانے”آئے موسم رنگیلے سہانے“ نے ایکسٹرا ٹائپ نیلو کو باقاعدہ فلم سٹار بنادیا تھا۔ سات لاکھ کی کہانی اک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو مردوں سے بری طرح متنفر ہے، دولت مند باپ موت سے پہلے اپنے وکیل کو یہ وصیت دے جاتا ہے کہ میری موت کے بعد صاحبزادی جب تک شادی نہ کرے اسے صرف ”گزارہ الاؤنس“ دیا جائے۔ سات لاکھ روپے کی زرعی زمینوں،سات لاکھ روپے کی شہری جائیداد، سات لاکھ روپے مالیت کے مکانات ،سات لاکھ روپیہ نقد وغیرہ وغیرہ ہوگا تو میری اکلوتی بیٹی کا ہی لیکن شادی کے بغیر وہ ان میں سے نہ کچھ بیچ سکے گی نہ کرایہ کھا سکے گی، نہ اس کی آمدنی سے لطف اندوز ہوسکے گی فقط معمولی سے گزارہ الاؤنس پر گزر بسر ہوگی……شادی کے بعدجو چاہے کرے۔
”روشن پاکستان“کے عوام بھی مجھے ”سات لاکھ“ کی ہیروئن جیسے لگ رہے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ پر ملک میں روشنی ہوئی بھی تو ان کے لئے پھر بھی نہیں ہوگی کیونکہ بھاری اکثریت اس کا بوجھ ہی نہیں اٹھا سکے گی۔”روشن پاکستان“ میں متوسط طبقہ تک کے گھر اندھیرے ہوں گے۔ عوام کے لئے لوڈ شیڈنگ کبھی ختم نہیں ہوگی۔
تازہ ترین