• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں ہزاروں افراد سرکاری ملازمتوں سے فارغ ہو چکے ہیں کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد آنے والی حکومتوں نے سرکاری ملازمین کا مقدمہ نہیں لڑا، یہ وہ ملازمین تھے جن کو 1997میں برطرف کیا گیا تھا، 2008میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو ان ملازمین کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے بحال کیا کیونکہ ان کی ملازمت پر بحالی کا وعدہ محترمہ بےنظیر بھٹو شہید نے کیا تھا۔ مجھے اِس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ کسی پارٹی کے منشور میں نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کا نقطہ ہے بھی یا نہیں مگر میری پاکستان پیپلز پارٹی کا ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ منشور کا بنیادی حصہ ہے جس پر پیپلز پارٹی آج بھی قائم ہے۔ کسی کو یاد ہو یا نہ ہو مگر ہم کبھی یہ عوامی نعرہ نہیں بھول سکتے، بےنظیر آئے گی، روزگار لائے گی۔ پیپلزپارٹی کے ناقدین اکثر تنقید کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا نہیں کیا، بنیادی پہلو یہ ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا پہلا قدم روزگار کی فراہمی ہے جب کسی فرد کو روزگار دیا جائے تو روٹی اور کپڑے کے ساتھ گھر کی چھت مل ہی جاتی ہے۔ 1988کا ذکر ہے، محترمہ بےنظیر بھٹو شہید نے میرے حلقے سے تعلق رکھنے والے ایک لڑکے کو تعلیمی قابلیت کے مطابق ملازمت دی جس پر ایم این اے صاحب، جو وفاقی وزیر بھی تھے، نے وزیراعظم سے شکوہ کیا کہ آپ نے میرے حلقے میں ایک ایسے لڑکے کو بڑی ملازمت دی ہے جو پارٹی کا مخالف ہے تو شہید محترمہ بےنظیر بھٹو نے اپنے وزیر سے کہا کہ میں ملک کی وزیراعظم ہوں، ملک کے تمام نوجوان میرے بھائی ہیں، مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ میری پارٹی کا ووٹر ہے یا نہیں ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کے خلاف جہاں دیگر مقدمے بنائے گئے وہاں نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کا مقدمہ بھی بنایا گیا، محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کے ایک وزیر انور سیف اللہ کو مذکورہ مقدمے میں جیل بھی جانا پڑا تھا میں انور سیف اللہ کو سلام کرتی ہوں جنہوں نے محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی بجائے قید کاٹنے کو ترجیح دی تھی۔ میرے لئے حیران کن بات یہ ہے ریاست کے نوجوانوں کی روزی روٹی ریاست پر بوجھ کیوں بن جاتی ہے؟ دراصل معاملہ اپنی اپنی سوچ کا ہے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب بھی اقتدار میں آئی ہے ملک کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے دروازے کھولے ہیں، ہم ’’خزانہ خالی ہے‘‘ کا رونا بھی نہیں روتے کیونکہ ہمیں عوام اقتدار میں لاتے ہی اس لیئے ہیں کہ ان کی مشکلات حل کریں، ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کریں اور ریاست کے ثمرات میں انہیں حصہ دار بنائیں، 2008میں جب پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار گواہ ہیں کہ اس وقت بھی خزانہ خالی تھا، دہشت گردی عروج پر تھی مگر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے سیاسی جانشین جناب آصف علی زرداری نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ کرنے کا حکم دیا، سوات سے قومی پرچم اتارنے والوں کو مار بھگایا اور متاثرین کی دوبارہ بحالی تک ان کی ہر طرح کی مدد کی لاکھوں افراد کے کھانے پینے کے ساتھ ساتھ ان کی بنیادی ضروریات کا بھی خیال رکھا گیا۔

صدر آصف علی زرداری نے بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کروڑوں خواتین تک ریاست کے ثمرات بھی پہنچائے اور صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ بھی دیا، سنگاپور سے گوادر واپس بھی لیا اور قومی راہداری بنانے کا نقشہ اور شعور بھی دیا۔ صدر آصف علی زرداری کی زیر قیادت حکومت میں بیرونی قرضے بھی اتر رہے تھے اور بیت المال کے ذریعے غریبوں کی مالی مدد اور ان کے علاج کیلئے فی کس سات لاکھ ابتدائی اور مکمل علاج تک مزید رقم کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا تھا، صدر زرداری نے ملک کی معیشت کو درست سمت دی تھی، سوال یہ ہے کہ آخر کیا ہوا کہ ملک کی معیشت ڈانواں ڈول ہو گئی؟ پیپلزپارٹی کی حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد بیروزگاری کا سیلاب شروع ہوا جو سونامی کی صورت اختیار کر چکا ہے مگر ہم اپنے عظیم قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں کہ سیاسی جنت عوام کے قدموں میں ہے، ہم سرکاری ملازمین کے فیصلے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جا رہے ہیں اور استدعا کریں گے کہ جیسے کانسٹی ٹیویشن ایوینیو پر عمران خان سمیت مراعات یافتہ افراد کو ریلیف دیا گیا اس طرح سرکاری ملازمین کو بھی ریلیف دیا جائے۔

تازہ ترین