• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرض کریں کہ یہ پاکستان کی نہیں ارجنٹائن کی کہانی ہے جس کے ریاستی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں نے اپنے ہزاروں شہریوں کو غائب کر کے رکھا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی گمشدگی نے پورے سماج اور حکومتوں کی آنکھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ لی ہوئی ہیں۔ یہ گمشدہ شہری ہیں جو اپنے ہی ریاستی اداروں و ایجنسیوں کے ہاتھوں غائب کردیئے گئے ہیں۔ زمین کھا گئی کہ ان کو آسماں نگل گیا۔ ماورا آئین و ماورا ملکی اور بین الاقوامی قوانین حراستی مراکز میں موجود و عدم موجود لوگ۔ یہ لوگ سیکڑوں نہیں ہزاروں میں ہیں۔
یہی کہانی پاکستان کی بھی ہے غائب ہونے والے لوگ ہر صوبے سے ہیں۔ ان میں کالعدم جہادی تنظیموں سے وابستہ لوگ بھی ہیں، بلوچ اور سندھی قوم پرست بھی ہیں، صرف مذہبی لوگ بھی ہیں، سیکولر لوگ بھی ہیں، حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی بھی ہیں، اساتذہ بھی ہیں، سائنسدان بھی ہیں، کچھ ایٹمی سائنسدان بھی، ڈیلی ویجز کمانے والے لوگ بھی ہیں تو بیروزگار نوجوان بھی، شاعر، ڈاکٹر، پیش امام، خطیب، سرکاری ملازم، انجینئر، سیاسی کارکن، گمنام و مشہور بھی، عورتیں ، بچے بھی (وہ بھی جب اپنے والدین کے ساتھ اٹھائے گئے تو شیر خوار تھے) ۔
کچھ حجام کی دکان پر شیو کراتے، بال بنواتے اٹھائے گئے، کچھ سفر کرتے، کچھ نماز پڑھ کر واپسی پر یا مسجد کے راستے، کچھ اپنی شادی والی رات، کچھ گھروں پر سوتے ہوئے، کچھ ایئرپورٹوں سے لاری اڈوں سے ، ریلوں سے ریلوے اسٹیشنوں سے، جیلوں ، تھانوں اور کچہریوں سے، کئی ایک تو کئی دوسری تیسری بار اٹھائے گئے،اسپتالوں سے ، کالجوں، اسکولوں اور قبرستانوں سے۔ جلسوں جلوسوں سے۔ میلوں و عرسوں سے اور کئی اعتکاف میں بیٹھے ہوئے۔ پُراسرار غازی اور بندے انہیں اٹھا کر لے گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو گم کردینے والے اکیسویں صدی کے پیارے پاکستان کا مقام 1980ء کی دہائی کے ارجنٹینا کا سا دلاتے ہیں جب ارجنٹینا کے ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے غائب کردیئے گئے تھے۔ پچھلے دنوں کالعدم سندھی قوم پرست تنظیم جئے سندھ متحدہ محاذ یا جسمم کے دو آپس میں بھائی کارکن علی نوناری اور ظفر نوناری بھی غائب ہونے والے ان ہزاروں پاکستانیوں میں محض عددی اضافہ تھے لیکن ان کی گمشدگی کے خلاف اور ان کی رہائی کیلئے احتجاج کرنے والی ان کی نوجوان بہن کی انگلی پکڑے ان کے چھوٹے بھائی جو کہ بمشکل تین چار سال کا ہوگا کا پولیس تشدد سے لہولہان چہرہ لئے تار کول کی تپتی سڑک پر اس بچے کی تصویر شاید اب تک گمشدہ لوگوں کیلئے ان کے اعزاء کی طرف سے لئے جانے والے احتجاج کی سب سے دردناک تصویر کشی کرتی ہے۔ بچوں کے چہرے لہولہان کرنے والی انتظامیہ سندھ حکومت کو مبارک ہو۔
کچھ عرصہ قبل اسی تنظیم کے دو بار گم کردہ لیڈر مظفر بھٹو کی گولیوں اور زخموں سے چھلنی ایش ٹرے بنی ہوئی جسم والی لاش قومی شاہراہ کے قریب ملی تھی۔ سندھ میں جسمم کے کارکن ہونے کا مطلب غائب کئے جانا اور پھر اس کی سوختہ لاش برآمد ہونا ہے۔ پاکستان میں صرف جسمم والے ہی نہیں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے غائب ہیں۔ گمشدگان گی گمشدگیوں کا دائرہ میرپورخاص سے مظفرآباد تک ہے۔ ان میں اوباڑو کا وہ نوجوان انجینئر غلام شبیر قمبرانی بھی شامل ہے جو تین سال قبل ملتان کے قریب اسلام آباد سے واپسی پر غائب کردیا گیا تھا۔ اپنے کنبے کا واحد کفیل غلام شبیر تب سے غائب ہے اور اس کے گھر والے فاقوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔
ہوسکتا ہے ان میں کئی ریاست کے باغی ہوں، ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہوں، شدت پسند، تشدد پسند ہوں، عسکریت پسند ہوں ، علیحدگی پسند ہوں، اہم شخصیات پر قاتلانہ حملوں اور ان کے منصوبوں کے ماسٹر مائینڈ ہوں، بندوق کی سیاست میں یقین رکھتے ہوں یا ان میں سے اکثریت سرے سے ہی معصوم و بے جرم و بے خطا ہوں۔ مہذب معاشروں میں کوئی بھی تہمت زدہ شخص تب تک بیگناہ ٹھہرایا جاتا ہے جب تک اس کے خلاف جرم کسی عدالت قانون میں ثابت نہیں ہوجاتا لیکن یہ ثابت کرنا تو عدالتوں کا کام ہے، ججوں کا کام ہے کہ ان کو سزا دیں لیکن ججوں اور عدالتوں کا کام ایجنسیوں نے سنبھالا ہوا ہے یعنی سزا جزا اب خفیہ والوں کے ہاتھ میں ہے۔ اپنے شہریوں کو غائب کرنے اور کئی کو ماورائے عدالت سزائے موت دینے کا آرٹ سابق فوجی آمر جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے آرجنٹینا کے فوجی آمر و صدر ہورخے ریفائیل ودیلا سے پالیسی کے طور پر مستعار لیا تھا لیکن آرجنٹینا کے فوجی آمر اور ڈیفیکٹو صدر کو تو انیس سو چھہتر سے انیس سو اسی تک اپنے ملک کے تیس ہزار شہریوں کو غائب کرنے کے جرائم میں سخت سزائیں ہوئی تھیں۔پاکستان میں تو شہریوں کو غائب کرنے پر کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ آرجنٹینا میں مارکسسٹ گوریلوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دنوں میں آرجنٹینا پر ہورخے ریفائیل ودیلا کی آمریت کے دوران ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو غائب کردیا گیا تھا۔ دوران گمشدگی عورتوں کو حاملہ کیا جاتا اور ان کے پیدا ہونے والے بچوں کو چرالیا جاتا۔ گمشدگان کو طیاروں سے ہزاروں فٹ کی بلندی سے بحراوقیانوس میں پھینک دیا جاتا۔ پاکستان میں دو ہزار ایک سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں ”کل اینڈ ڈمپ پالیسی “سابق فوجی آمر جنرل مشرف نے ہوبہو لگتا ہے ارجنٹینا کے فوجی آمر جنرل ہورخے ریفائیل ودیلا سے مستعار لی تھی۔ ہورخے ریفائیل ودیلا نے اپنے گمشدہ شہریوں کے بارے میں کہا تھا، نہ وہ زندہ ہیں نہ وہ مردہ بلکہ وہ گمشدہ ہیں۔”اس سے بڑی جانکنی کا عالم ان گمشدہ لوگوں کے پیاروں کا ہو نہیں سکتا۔ ہر ملنے والی لاش پر دل کو دھڑکا اور دروازے پر ہونے والی ہر آہٹ و دستک پر لمحے سے بھی کم بھر غیر یقینی مسرت نما کرنٹ شاید گمشدہ لوگوں کے پیاروں کے گلے پر اس گرفت جیسا ہو جسے ایک لاطینی امریکی ناول”امیجننگ ارجنٹینا“ میں جنرل کے تراشے خراشے ہوئے ناخنوں والے ہاتھ کی گرفت گمشدگان کے لواحقین کے ان کے گلے پر محسوس کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کتنی مماثلت ہے ارجنٹینا اور پاکستان کے گمشدگان میں۔ وہاں ان گمشدگان کی رہائی کیلئے ان کی ماؤں نے مدرس آف ففتھ پلازہ کے نام سے تنظیم شروع کی تھی۔ یہاں بھی گمشدگان پاکستانیوں کی خواتین ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ می عرضیاں ڈالے پھرتی ہیں۔ پٹیشنیں دائر کی ہوئی ہیں۔ زرداری ہو کہ نواز شریف یا ایوان صدر میں عطاء اللہ خان مینگل بھی آ جائیں لیکن یہ گرفت شاید بیگناہوں کے گلوں پر کبھی ڈھیلی نہ پڑ سکے۔ نہ ہی چوہدری نثار جو کہ خود فوجی آمریت کے ہاتھوں گمشدگی کا ذائقہ چکھ چکے ہیں۔ وہ جمہوریت اور جمہوری حکومتیں ٹوپی ڈرامہ ہیں جن میں ان کے شہری زبردستی غائب کردیئے جاتے ہوں اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی رہیں گی۔ حراستی مراکز اور سیف ہاؤسز عقوبت خانوں کی شکل میں ایک بڑے انتظام کے تحت چلائے جار ہے ہیں کسے پتہ نہیں ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کے پاس ان سیکڑوں گمشدہ بلوچوں کی ماؤں بہنوں اور گھروالوں کو جواب دینے کو کچھ ہے کہ نہیں لیکن عطاء اللہ مینگل جیسا آدمی جنہیں اگر مسلم لیگ (ن )ریاست کا بلوچوں کو کفارہ ادا کرنے کیلئے مسند صدارت کی پیشکش بھی کرے تو وہ دو مرتبہ قبول کرنے سے قبل سوچیں گے ضرور۔مجھے نواب اکبر بگٹی کی پارٹی کے سرگرم رکن رؤف ساسولی نے اپنی گمشدگی سے واپسی پر انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ گمشدگی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ احساس یہ ہوتا ہے کہ نہ تمہارے گھر والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ تم زندہ ہو کہ مردہ اور نہ ہی تمہیں پتہ ہوتا ہے کہ تم گھر والوں کے پاس زندہ واپس جا سکتے ہو“۔ بیس ماہ سورج کی روشنی و تمازت نہ دیکھنے والے صفدر سرکی نے مجھے بتایا تھا بس ایسا لگتا تھا جیسے آدمی کو زندہ قبر میں ڈال دیا گیا ہو۔زبردستی گمشدگی یا اینفورسڈ ڈس اپیئرنس عالمی قانون کی رو سے خلاف انسانیت جرم ہے جس کے مرتکب نہ صرف فوجی آمر پرویز مشرف پر اب تک آنے والی تمام نظر اور نظر نہ آنے والی حکومتیں بھی ہیں کہ یہ جرائم مسلسل ہور ہے ہیں۔ اب شاید ہی کوئی گمشدہ زندہ واپس لوٹتا ہے۔ ان بدنصیبوں کی مسخ شدہ لاشیں ہی ملتی ہیں۔
کتنے بیگناہوں کے گلے پر روزکمندیں پڑتی ہیں
بوڑھے بچے گھروں سے غائب بیبیاں جیل میں سڑتی ہیں
اس کے ناخن کھینچ لئے ہیں اس کے بدن کو داغ دیا
گھر گھر قبریں در در لاشے بجھا ہر اک چراغ دیا
دو ہزار چھ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے زبردستی گمشدگیوں کے خلاف قرارداد منظور کی تھی۔ پاکستان اس قرارداد پر دستخط کنندہ تو ہے لیکن اس کی توثیق کرنے سے اب تک قاصر ہے۔
تازہ ترین