کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’‘جرگہ‘‘میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا ہے کہ نواز شریف سے ملنے کی خواہش کبھی ظاہر نہیں کی،مجھے اس بات پر اطمینان بھی ہے اور فخر بھی ہے کہ میں ایک فوجی خاندان کے بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتا ہوں،عمران خان نیتاً اچھے انسان اور اچھے لیڈر ہیں ، مگر جب ایک شخص حکومت میں آجائے تو صرف نیت کافی نہیں ہوتی اقدامات بھی ضروری ہیں،ہم قوم نہیں رہے ایک کراؤ ڈ بن گئے ہیں، جب تک ہم قوم نہیں بنیں گے ہم حالات کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔
میرا ارادہ ہے کہ میں قومی سیاست میں ایک دفعہ پھر متحرک ہوں، اس کی ٹائمنگ کیا ہوگی یہ کہنا قبل از وقت ہے، میں اپنے حلقے میں پچھلے تین سالوں میں متحرک رہاہوں مگر قومی سیاست سے میں نے کنارہ کشی اختیار کی۔ اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں، پہلی یہ کہ ایک جماعت جس کو میں نے اپنی ساری زندگی دی اس سے اختلاف ہوا جس کو انہوں نے ضرورت سے زیادہ سنجیدگی سے لیا تو میں نے علیحدگی اختیار کرلی۔
جو دوسرا آپشن تھا باوجود اس کے کہ اس آپشن کو جو لیڈ کررہے تھے وہ میرے بچپن کے دوست تھے اور انہوں نے مجھے دعوت دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی، اس آپشن میں پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این میں سیاسی مخالفت نہیں تھی یہ تقریباً دشمنی میں تبدیل ہوگئی تھی، میری اقدار اور روایات نے مجھے اجازت نہیں دی کہ ایک جماعت سے اٹھ کر دوسری جماعت میں جاؤں اور اس میں ایک دوسرے کی دشمنی میں جو باتیں ہورہی ہیں اس کو اپنے کانوں سے سنوں ۔
ایک تو یہ وجہ تھی دوسری وجہ یہ تھی کہ اس وقت جو سیاست ہورہی ہے میں اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتا، سیاست تو ہو ہی نہیں رہی ہے سیاست تو نام ہے خدمت کا لیکن آج کل تو گالم گلوچ اور بیہودگی ہورہی ہے، خواہ وہ اسمبلی ہو یا میڈیا میں جب سیاستدان آتے ہیں، میں اس سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا، میں کوشش کررہا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے پھر موقع دیا تو سیاست کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرسکوں۔
جب آپ متحرک ہوں گے تو دوبارہ ن لیگ کے پلیٹ فارم سے متحرک ہوں گے؟ اس سوال پر چوہدری نثار نے کہا کہ یہ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہے، میں نے ابھی اس حوالے سے فیصلہ نہیں کیا، تمام آپشنز موجود ہیں جب میں قومی سیاست میں ایکٹو ہوں گا تو آپ کو علم ہوجائے گا۔کوشش تو دور کی بات ہے میں نے میاں نواز شریف سے ملنے کی خواہش کبھی ظاہر نہیں کی، اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن کا میں اس وقت ذکر نہیں کرنا چاہتا۔
یہ جھوٹ کا ایک سلسلہ ہے جو چند پیادے گاہے بگاہے کہتے رہتے ہیں، میرا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ میں اپنی وضاحت دیتا ہوں، میں نے اس حوالے سے بالکل وضاحت دی تھی ،میں نے نواز شریف کو ٹیلیفون بھی نہیں کیا۔ چوہدری نثار نے کہا کہ عمران خان ایک اپنی طرز کا آدمی ہے مطلب میرے ساتھ اس کا رویہ بہت ہی اچھا رہا ہے، صرف بطور سیاستدان نہیں جب وہ کرکٹر تھا اور دنیا میں اس کی شناسائی اور مقبولیت تھی اس نے اس وقت بھی مجھے بڑی عزت دی۔
دوستی اور اکثر و بیشتر عمران خان یہ کہتے تھے کہ میرا اسکول کے زمانے سے ایک ہی دوست ہے اور وہ نثار ہے۔میری اس کے بارے میں اچھی feelings ہے جو آج بھی موجود ہیں۔چوہدری نثار نے کہا کہ میں نے کوئی آپشن کلوز نہیں کیا ہے، آپ بار بار مجھ سے تصدیق کروانا چاہتے ہیں، اگر ملاقات ہوئی یا نہیں وہ ون ٹو ون تھی تو میں ان کی باتوں کی تصدیق یا تردید نہیں کروں گا، میں اتنا ہی کہوں گا کہ میں پاکستان کا واحد سیاستدان ہوں جس کا عمران خان نے بطور اپوزیشن لیڈر اسٹیج پر چڑھ کر خواہ وہ دھرنے کا اسٹیج تھا یا الیکشن سے پہلے تھی۔
اسٹیج پر چڑھ کر مجھے دعوت دی کہ آپ ہماری جماعت میں آئیں، یہ ساری چیزیں میرے ذہن میں ہیں، اس میں بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ ن لیگ کے بنانے اور ترقی میں میرا بہت کردار رہا ہے اس کی دشمن جماعت، ایک دشمنی کی صورت تھی مگر اب کافی عرصہ گزر چکا ہے اب میرا ذہن یہ ہے کہ میں کسی ایسی جماعت میں شامل نہ ہوں جو اقتدار میں ہو، اگر اقتدار ہی میرا مقصد ہوتا تو میں وزارت داخلہ کیوں چھوڑتا، اگر اقتدار ہی مقصد ہوتا تو میں ایم پی اے کا حلف کیوں نہ لیتا۔
اگر اقتدار ہی مقصد ہوتا تو میں ان تین سالوں میں پی ٹی آئی جوائن کرچکا ہوتا اور آج کسی اہم عہدے پر ہوتا، جب اقتدار مقصد نہیں ہے تو جب حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور الیکشن کا اعلان ہوگا تو وہ وقت ہوگا جب میں پی ٹی آئی کو consider کروں گا۔
میں کوئی ایسی خبر آپ کو نہیں دوں گا جو بریکنگ نیوز ہو یا جس سے سنسنی پھیلے، آج کل ویسے ہی بہت سنسنی پھیلی ہوئی ہے، میں اس وقت اتنا ہی کہوں گا کہ سب آپشنز اوپن ہیں جب الیکشن کا اعلان ہوگا تو میں فیصلہ کروں گا، اور آپ سے مشورے کے بعد فیصلہ کروں گا۔اللہ تعالیٰ کے کرم سے ساری زندگی فیصلہ ازخود کیا ہے۔
میرے خلاف کوئی اور بات نہیں ہوتی تو یہ چلادی جاتی ہے، مجھے یہ بتائیں میں تقریباً 27سال ن لیگ میں رہا، 1990ء میں جنرل اسلم بیگ نے اسٹریٹجک ڈیفائنس کے حوالے سے بیان دیا جو حکومت کی پالیسی کے خلاف تھا، اس میں صرف چوہدری نثار نے اس کی تردید کی اور کہاکہ آرمی چیف کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کا پبلک اظہار کریں، میرے جنرل اسلم بیگ سے بہت اچھے تعلقات تھے جو اس سے خراب ہوئے۔
جنرل آصف نواز سے دو پشتوں سے ہمارا خاندانی تعلق تھا مگر جب انہوں نے نواز شریف کی اجازت کے بغیر کراچی میں آپریشن کیا، انہیں سندھ میں ڈکیتوں کے خلاف آپریشن کی اجازت تھی انہوں نے آپریشن ایم کیو ایم کے خلاف کردیا، اس وقت صرف میں بولا ان کے اور انقلابی دوست کہاں تھے، کوئی بولا ہو تو مجھے بتائیں۔
جنرل مشرف سے میری اس وقت سے واقفیت ہے جب وہ کرنل تھے، جب وہ آرمی چیف بنے تو میں آٹھ سال ضد لگا کر بیٹھا رہا، میں اپنے حلقے کے لوگوں کو کہتا تھا کہ یہ آٹھ سال کا روزہ ہے، جتنے بھی سال کیونکہ اس وقت تو نہیں پتا تھا کہ یہ آٹھ سال رہیں گے اور میں کہاں کہاں تک ا ن کی مخالفت میں نہیں گیا۔
جنرل پاشا میری بے انتہا عزت کرتے تھے بڑے اچھے انسان اور جنرل تھے، صرف ایک اصول پر کہ میری پارٹی یہ سمجھتی تھی کہ یہ ہمارے مخالف ہیں میں کہاں تک نہیں پہنچا، میری گزارش ہے کہ ان کے جوا نقلابی دوست ہے وہ تب بات کرتے ہیں جب موسم ٹھیک ہو، جب موسم خراب ہو تب تو کوئی بات نہیں کرتا، اگر میں اتنی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ، ابھی ہمارے دور حکومت میں ایک ٹوئٹ آیا۔
جو موجودہ آرمی سیٹ اپ ہے ان کا ٹوئٹ تھا "Rejected" اس پر جواب نہ وزیراعظم کا آیا نہ ان کے کسی اور انقلابی وزیر کا آیا، میں نے اس پر جواب دیا اور کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے حکومت وقت سے کسی ادارے کا مخاطب ہونا، میں نے یہ بھی کہنا کہ یہ جمہوریت کیلئے زہر قاتل ہے، مجھے کسی کو صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے،مجھے اس بات پر اطمینان بھی ہے اور فخر بھی ہے کہ میں ایک فوجی خاندان کے بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتا ہوں، صرف میرے بھائی نہیں میرے دادا فوجی تھے، میرے والد فوجی تھے، میرے ایک بھائی فوجی تھے۔
چار میں سے تین میرے بہنوئی فوجی تھے اور اب چوتھی جنریشن ہے، مجھے آج تک یاد ہے مشرف دور میں یہاں امریکا کے ایک ایمبیسٹڈر مسٹر کروکر تھے مجھے ملنے آئے ، جیسے ہی میں گاڑی میں جارہا ہوں تو مجھے کہتے ہیں میں اسٹڈی کررہا ہوں کہ کسی پاکستانی سیاستدان کا فوج کے حوالے سے اتنا اسٹرونگ بیک گراؤنڈ نہیں ہے جو آپ کا ہے۔میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اتنا قریبی تعلق ہونے کے باوجود میں نے میاں نواز شریف اور پی ایم ایل این کو جہاں بھی مسئلہ درپیش آیا میں نے آواز اٹھائی۔
سلیم صافی کے اس سوال پر کہ ایک دور آپ نے skip کیا جنرل راحیل شریف کا، وہ مشکل دور تھاجب عمران خان اور طاہر القادری دھرنوں کیلئے آئے تھے، خود عمران خان کہتے تھے کہ میں نے چوہدری نثار سے وعدہ کیا ہے کہ میں آبپارہ سے آگے نہیں جاؤں گا، آپ نے پھر ان کو آبپارہ سے آگے پارلیمنٹ تک کیوں جانے دیا؟
چوہدری نثارنے کہاکہ صافی صاحب میرے پاس بیہودگی کا کوئی علاج نہیں ہے، یہ چیز سچ اور جھوٹ میں تفریق ڈالنا کوئی مشکل نہیں ہے، اس وقت کی آپ ٹی وی کی کلپس نکال لیں، اخبارات نکال لیں، میں ایک قدم بھی پی ٹی آئی اور قادری صاحب کو ادھر سے آگے جانے کی اجازت دینے کے حق میں نہیں تھا جہاں میں نے دی، میں نے پرائم منسٹر ہاؤس سے اٹھ کر جاکر ایف سی، رینجرز اور پولیس کو کہا کہ آپ آپریشن شروع کریں، میں پنجاب ہاؤس پہنچا تو پیچھے پرائم منسٹر نے پی ٹی آئی اور طاہر القادری کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت دیدی، میں نے تواس پر استعفیٰ دیدیا تھا۔
آپ فواد حسن فواد سے پوچھیں میرے پاس اب بھی اس استعفے کا ریکارڈ ہے، میں تو ان کوآگے آنے کی اجازت دینے کے حق میں نہیں تھا یہ تو وزیراعظم نے اجازت دی، ریکارڈ نکالیں کسی کی بات نہ سنیں نہ میری سنیں نہ یہ بیہودہ لوگ جو پراپیگنڈہ کرتے ہیں ان کی بات سنیں۔ سلیم صافی: وزیراعظم نے یہ کس کے ذریعہ کیا اپنے انٹریئر سیکرٹری کے ذریعہ؟
چوہدری نثار: مجھے نہیں پتا ایم ایس کے ذریعہ کیا یا اسٹاف کے ذریعہ کیا۔ انہوں نے پولیس اور ایف سی کو آپریشن سے روک دیا حالانکہ آپریشن شروع ہوچکا تھا۔ سلیم صافی: یعنی معاملہ الٹ تھا، آپ ان کو نہیں آنے دے رہے تھے وزیراعظم نے آنے دیا، اس پر آپ نے احتجاجاً استعفیٰ دیا؟
چوہدری نثار: استعفیٰ دیا جس کا ریکارڈ اب بھی میرے پاس ہے، میں نے فواد حسن فواد کو پنجاب ہاؤس بلا کر کہا کہ یہ میرا استعفیٰ ہے، میں کچھ اور وہاں فیصلہ کرا کے آیا ہوں میں ادھر پہنچا ہوں تو ایک اور فیصلہ ہوگیا ہے تو میں اس پر استعفیٰ دینا چاہتا ہوں۔ سلیم صافی: استعفے میں ریزن بھی یہی تھا کہ میں انہیں آنے نہیں دے رہا تھا اور وزیراعظم نے مجھے بائی پاس کیا؟ چوہدری نثار: استعفیٰ تو وہی تھا بالکل، اسی لیے تو میں نے استعفیٰ دیا تھا۔
سلیم صافی: ایک اور دورجو جنرل کیانی کا دور تھا، بار بار میڈیا میں بھی ذکر ہوتا ہے کہ آپ اس وقت جبکہ بظاہر اپوزیشن میں تھے تو آپ راتوں کو چپکے چپکے جاکر جنرل کیانی سے کیوں ملتے رہے؟ چوہدری نثار: یہ بھی ایک ہوائی باتیں ہیں جو بنالی جاتی ہیں اور بار بار دہرائی جاتی ہیں کہ چھپ چھپ کر ملتے تھے، میں اپوزیشن لیڈر تھا ، میاں شہبازشریف چیف منسٹر پنجاب تھے، بہت سارے ایشوز تھے جنرل مشرف کے بعد، ابھی جنرل مشرف صدر تھے۔
پہلی ملاقات تب ہوئی اور صرف ہمارے سے نہیں ہوئی تمام سینئر لیڈرز سے ہوئی، میں نام کسی کا نہیں لینا چاہتا مجھے علم ہے جو تمام چھوٹی پارٹیوں کے بھی لیڈرز تھے ان کی بھی جنرل کیانی سے علیحدہ علیحدہ ملاقات ہوئی اور وہ ایشو تھا جنرل کیانی رول ادا کرنا چاہتے تھے، جنرل کیانی اب بھی حیات ہیں بڑے آنریبل آدمی ہیں ان سے اس بات کی تصدیق ہوسکتی ہے۔
میٹنگ اس حوالے سے ہوئی کہ جنرل کیانی چاہتے تھے کہ ایک گڈ ول جیسچر کے طور پر کہ مواخذہ نہ ہو اور جنرل مشرف خود استعفیٰ دیدیں اور اس کیلئے انہوں نے رول ادا کیا، اس میں تمام پولیٹیکل پارٹیوں سے ملے، میں ن لیگ کا اپوزیشن لیڈرتھا، شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بھی تھے اور نوا ز شریف کے بھائی بھی تھے اس حوالے سے ہم سے بھی ملاقات ہوئی۔
ہمیں اس بات پر اتفاق تھا کہ اگر وہ استعفیٰ دیدیں تو ہم مواخذہ نہیں کریں گے، انہوں نے استعفیٰ دیدیا اور گھر چلے گئے۔ سلیم صافی: یہ جنرل کیانی نے تجویز دی تھی کہ آپ مواخذہ نہ کریں وہ استعفیٰ دیدیں گے؟ چوہدری نثار: ہاں، ان کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے بات کرنے کا مگر اس ایشو پر تمام سیاسی جماعتوں کے ہیڈز سے جنرل کیانی نے بات کی، ایک رول ادا کیا اور یہ معاملہ افہام و تفہیم سے ہوگیا۔
ظاہر ہے حکومت کے ساتھ بھی مل کر بات ہوئی ہوگی، اس کے علاوہ تین چار اور مواقع آئے، ایک جب ساؤتھ وزیرستان پر آپریشن ہونا تھا، انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے، کیونکہ جنرل کیانی ایسے آرمی چیف تھے جو consensus سے آگے بڑھتے تھے political اور military کے تو انہوں نے اعتماد میں لیا۔
نارتھ وزیرستان میں وہ آپریشن کرنا چاہتے تھے اس پرا نہوں نے اعتماد میں لیا، چوتھی مجھے یاد ہے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا بل پیش ہوا، میں اپوزیشن لیڈر تھا میں نے اس کی مخالفت کی، میں نے کہا یہ قانونی طور پر صحیح نہیں ہے، اس پر انہوں نے مجھے اورچونکہ وہ بل پنجاب میں تھا تو شہباز شریف کو بلایا، اسی میٹنگ کے نتیجے میں ایک کمیٹی بنی، ہماری طرف سے زاہد حامد اس کمیٹی میں تھے ان کی طرف سے کوئی بریگیڈیئر صاحب تھے،پھر اس کو فائن ٹیون کر کے دونوں طرف سے ٹھیک کرکے وہ اسمبلی میں پیش کیا گیا۔
جب میری پہلی یا دوسری ملاقات ہوئی تو یہ ایک انگریزی اخبار میں رپورٹ ہوا، میں نے دوسر ے دن صبح اسمبلی میں اٹھ کر کہا کہ ہاں، بالکل ملاقات ہوئی ہے مگر اس میں حکومت کے خلاف کوئی بات نہیں ہوئی نہ ہوگی، میں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہے خدانخواستہ کسی غیرملک کی تونہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ ایک مثبت کردار ادا کررہی ہے، ہم اپوزیشن میں ہیں نہ کبھی ہم نے نہ کبھی انہوں نے حکومت وقت کو غیرمستحکم کرنے کے حوالے سے کوئی بات کی ہے۔
سلیم صافی: جنرل کیانی میں یہ بڑی خوبی تھی ، وہ تو ہم جیسے طالب علموں کو بھی مشاورت کے لئے بلاتے تھے ، ایک بڑے اچھے آرمی چیف رہے ہیں، لیکن وہ ملاقاتیں تو اعلانیہ ہوتی تھیں، یہ کہا جاتا ہے کہ آپ اور شہباز شریف راتوں کو جاکر چھپ چھپ کر ملتے تھے؟
چوہدری نثار: نہیں وہ بات کا بتنگڑ بناہی لیا جاتا ہے، اگر چھپ کر ملتے تو کسی کو پتا نہ چلتا، ہم پنجاب ہاؤس سے جاتے تھے اسٹاف پولیس وہاں تو پوری دنیا ہوتی تھی تو پتا ہوتا تھا کہاں جارہے ہیں، یہ چھپ چھپانے کی بات نہیں تھی، جو سب سے بڑی بات ہے میں یہ دعوے سے کہتا ہوں کہ ان پانچ سالوں میں نہ فوج کی طرف سے، نہ جنرل کیانی کی طرف سے، نہ ہماری طرف سے حکومت کی ڈی اسٹیبلائزیشن کے حوالے سے کوئی بات ہوئی، جو بھی بات ہوئی وہ قومی مفاد میں ہوئی، جنرل کیانی جو چاہتے تھے کہ ملٹری اور سیاستدانوں کا اتفاق رائے ہونا چاہئے اور جو اس حوالے سے پالیسی بنے گی وہ پاکستان کے لئے بہتر ہوگی، وہ صرف ہمیں نہیں ملتے تھے دیگر پولیٹیکل لیڈرز سے بھی ملتے تھے۔
سلیم صافی: آپ نے مہربانی کی چپ کا روزہ تو توڑ دیا لیکن کارڈز اب بھی اپنے سینے سے لگا کر رکھے ہیں، آپ اپنے ارادوں کے بارے میں کچھ واضح نہیں کرتے، اسی لئے میں کہتا ہوں موقع ہاتھ آیا ہے تو آپ کے تجربے ، تجزیے ارو مشاہدے سے فائدہ اٹھاؤں، اس وقت پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کون سی پارٹی اچھی سیاست کررہی ہے؟
چوہدری نثار: بڑا مشکل سوا ل ہے، ذاتی پسند و ناپسند سے ہٹ کر ایک سیاسی ورکر کے طور پر میں سمجھتا ہوں پیپلز پارٹی اپنے سیاسی کارڈز صحیح کھیل رہی ہے، ایک سیاستدان کو خاص کر سیاسی لیڈر کو اتنے ہی پاؤں پھیلانے چاہئیں جتنی چادر ہے بلکہ اس سے تھوڑے کم پھیلانے چاہئیں، پیپلز پارٹی اپنی سیاسی طاقت اپنے مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے پاؤں پھیلارہی ہے، میرا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں سب سے بہتر سیاسی کارڈ کھیل رہی ہے۔
سلیم صافی: سیکنڈ، ن لیگ یا پی ٹی آئی؟ چوہدری نثار: پی ٹی آئی چونکہ حکومت میں ہے اور کامیاب بھی ہے اور فوج کے ساتھ اور ایڈمنسٹریشن کے ساتھ ان کے ٹھیک ٹھاک تعلق ہیں تو میں اسے دوسرا نمبر دوں گا۔ سلیم صافی: عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، ان کو آپ کس طرح ریٹ کرتے ہیں بطور سیاسی لیڈر؟
چوہدری نثار: آصف زرداری کے ساتھ میری سیاسی ان بن رہی ہے ویسے وہ اچھے انسان ہیں، میں آصف زرداری کو ایک زیرک سیاستدان کہوں گا، عمران خان نیتاً اچھے انسان اور اچھے لیڈر ہیں ، مگر جب ایک شخص حکومت میں آجائے تو صرف نیت کافی نہیں ہوتی اقدامات بھی ضروری ہیں، بہت سارے ایریاز ہیں جہاں وہ اقدامات نہیں ہورہے جو ان کی نیت ہے، ن لیگ اور خاص کر میاں نواز شریف کے بار ے میں بہت کچھ کہہ سکتا ہوں مگر آج کچھ نہیں کہوں گا۔ سلیم صافی: یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ آج کچھ نہیں کہیں گے۔
چوہدری نثار: چلیں جب میں نے لب کشائی کی تو پھر آپ کے سامنے ہی کروں گا۔ سلیم صافی: جب سے آپ سیاست میں آئے ہیں بہت سے کرداروں کے ساتھ آپ کا تعلق رہا ہوگا، ان میں آپ نے سب سے بہترین کس سیاستدان کو پایا ہے یا کس سیاستدان نے آپ کو زیادہ متاثر کیا؟
چوہدری نثار: اس کاجواب تو میں ایک سیکنڈ میں دے سکتا ہوں، خان عبدالولی خان۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ سلیم صافی: آپ انتہائی رائٹسٹ سمجھے جاتے ہیں ولی خان لیفٹسٹ تھے، میں خود بھی ان کو بڑا ہائی ریٹ کرتا ہوں لیکن آپ نے نظریاتی لحاظ سے بالکل مخالف سائڈ کے لیڈر کا نام لے دیا اس کی کیا وجہ ہے؟ چوہدری نثار: میں خان عبدالولی خان پر گھنٹوں بات کرسکتا ہوں، میں نے بہت کچھ ان کی سیاست سے سیکھا ہے۔
ضروری نہیں کہ کئی ایریاز میں ان کا جو موقف تھا میں اس سے اتفاق کروں مگر میں ان کی strength of character اور ان کی شخصیت اور ان کے کردار کی تعریف کررہا ہوں۔ سلیم صافی: ہم نے جب سے ہوش سنبھالا یہ فقرہ سنا کہ ملک تاریخ کے نازک دور سے گزررہا ہے، کیا واقعی اس وقت کچھ ایسا اسپیشل ہے کہ ملک نازک ترین دور سے گزررہا ہے؟
چوہدری نثار: میں پہلے اس بات کا مذاق اڑاتا تھا، میں کہتا تھا کہ جو بھی پارٹی اور اس میں ہماری پارٹی شامل ہے جب ہم اقتدار سے جاتے تھے تو ہم کہتے تھے کہ ملک خدانخواستہ نازک دور سے گزر رہا ہے، میں اس فقرے کا مذاق اڑاتا تھا، آج میں اپنے چالیس سالہ سیاسی تجربے کی بنیاد پر صدق دل سے کہہ رہا ہوں کہ واقعی ملک بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔