• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں لوڈشیڈنگ نہ صرف عوام کے لئے وبال جان بنا ہوئی ہے بلکہ صنعتوں کا پہیہ بھی جام ہے۔ ملک میں نہ صرف بجلی کی پیداوار ضرورت سے کم ہے بلکہ جو پیدا ہو رہی ہے وہ اتنی مہنگی ہے کہ حکومت کو سبسڈیز دینا پڑتی ہیں جس سے حکومتی بجٹ کا خسارہ کنٹرول کرنا ناممکن ہے۔ اس لئے پاکستان کا مسئلہ صرف بجلی مہیا کرنا نہیں بلکہ فی یونٹ لاگت کو بھی کم رکھنا ہے۔ اگر بجلی موجود بھی ہو لیکن وہ بہت مہنگی ہو تو نہ صرف بدحال عوام اس سے مستفیض نہیں ہو سکتے بلکہ ملک کی صنعتیں بھی بھاری لاگت کی وجہ سے عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ موجودہ حکومت مختلف ذرائع سے سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے لیکن بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک پن بجلی (ہائیڈرو الیکٹرک) کا تناسب کافی حد تک نہیں بڑھتا اس کا دیرپا حل نہیں مل سکتا۔ پن بجلی کے لئے داسو اور دیامیر بھاشا جیسے ڈیم تعمیر کرنا ناگزیر ہیں۔
اس وقت جو بجلی مہیا ہے اس میں صرف تیس فیصد پن بجلی ہے اور ستر فیصد تھرمل ہے جو کہ ڈیزل وغیرہ سے پیدا ہوتی ہے۔ پن بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت ایک یا دو روپے ہے جبکہ تھرمل سے پیدا ہونے والی بجلی (مع چوری و ناقص نظام ترسیل) تقریباً بیس یا اکیس روپے فی یونٹ ہے۔ یہ بجلی پندرہ روپے فی یونٹ صارفین کو فراہم کی جا رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر یونٹ پر حکومت کو پانچ یا چھ روپے خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس خسارے سے بجٹ کا توازن مستقل بگاڑ کا شکار رہتا ہے لہٰذا یہ لازم ہے کہ پن بجلی اور تھرمل کے تناسب کو تبدیل کیا جائے۔ یہ تناسب کوئلے اور گیس سے بجلی پیدا کرکے بھی تھوڑا بہت تبدیل ہو سکتا ہے۔موجودہ حکومت کا یہ فیصلہ انتہائی دانشمندانہ ہے کہ تھرمل پلانٹس کو ڈیڑھ دو سال میں کوئلے یا گیس سے چلایا جائے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کوئلے سے بجلی دس یا بارہ روپے فی یونٹ پیدا ہو سکتی ہے جو تھرمل سے سستی ہے۔ اس سے کلی طور پر بجلی پیدا کرنے کی فی یونٹ لاگت کم ہوگی لیکن وہ اس سطح پر نہیں آئے گی جس کی ملک کو ضرورت ہے۔ اس میں دوسرامسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو بجلی پیدا کرنے کے لئے کوئلہ درآمد کرنا پڑے گا جس کے لئے زرمبادلہ چاہئے۔ اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم ہیں اور اس صورتحال میں کوئلے کی درآمد آسان کام نہیں ہوگا۔ اس کے لئے ملک کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو کئی گنا بڑھانا پڑے گا۔
مندرجہ بالا حقائق کے تناظرمیں پاکستان کے لئے پن بجلی پیدا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ پن بجلی کی پیداواری لاگت اگر چار پانچ روپے فی یونٹ بھی ہو اور وہ کل بجلی پیداوار کا ستر فیصد ہو تو عام صارفین اور صنعتوں کو سستی بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔ پن بجلی پیدا کرنے کے لئے پاکستان کو بہت سے ہائیڈروالیکٹرک ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ بہت سی نہروں پر بھی چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔اس وقت دوبڑے ڈیموں کی تعمیر زیر بحث ہے جس میں داسو اور دیا میر بھاشا شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں ہی نہیں بلکہ مزید ڈیم بنانے کی شدید ضرورت ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ شروع کہاں سے کیا جائے؟
بعض حلقوں میں دونوں ڈیموں کے درمیان مصنوعی تضاد پیدا کیا جا رہے۔ یہ حلقے اس طرح کا تاثر دے رہے ہیں کہ یا تو داسو اور یا دیامیر بھاشا ڈیم بن سکتا ہے۔ یہ حقیقت کی عکاسی نہیں ہے بلکہ دانشمندی سے کام لیا جائے تو دونوں ڈیم بن سکتے ہیں اور دونوں کو بنانے کے مخصوص فائدے ہیں۔ دیامیر بھاشا ڈیم میں پانی بھی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے جبکہ داسو پر صرف بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت بجلی کا بحران شدید ہے اس لئے شاید داسو ڈیم پہلے تعمیر کیا جا سکتا ہے اور اسی کی تعمیر کے دوران دیامیر بھاشا ڈیم پر کام شروع ہو سکتا ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ داسو ڈیم کی ٹیکنیکل تیاریاں ہوچکی ہیں اور اس کیلئے دس سال کی چھوٹ کا قرضہ بھی فوراً منظور ہو سکتا ہے۔ مطلب پاکستان کو دس سال تک قرضے کی قسطیں ادا نہیں کرنا پڑیں گی۔ اس ڈیم کے پہلے مرحلے کیلئے 3.6بلین ڈالر درکار ہیں جبکہ اس کی تکمیل کے لئے چھ بلین ڈالر لاگت آئے گی۔یہ ڈیم پانچ سال میں 1080کلوواٹ بجلی پیدا کرنا شروع کردیگا۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے پر یہ تین ہزار سے زیادہ کلوواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ پانچ سال کے بعد اس ڈیم سے بجلی کی فراہمی کے نتیجے میں آمدنی شروع ہو جائے گی اور جب تک اس کی اقساط کی ادائیگی (دس سال) شروع ہوگی تب تک یہ کافی آمدنی دے رہا ہوگا۔ دیامیر بھاشا ڈیم دس سے بارہ سال میں مکمل ہوگا اور اس پر بارہ سے پندرہ بلین ڈالر کی لاگت آئے گی۔ اس وقت نہ صرف یہ کہ اس کی تیاری کے لئے ٹیکنیکل کام کرنا باقی ہے بلکہ ملک کی مالی صورتحال ایسی ہے کہ اسے دس سے پندرہ بلین ڈالر کا قرضہ ملنا کار دارد ہے اور اگر اس قرضے کا کہیں سے بندوبست ہو بھی جائے تو اس تیکنیکی تیاریوں اور چالیس ہزار افراد (جو اس ڈیم کی وجہ سے بے گھر ہوں گے) کو نئی جگہ بسانے کے کام میں تین چار سال کا عرصہ درکار ہے۔ مطلب یہ اگر اس سال اس کی تعمیر کے تقاضے پور ے کرنے کا کام شروع ہو تو اس کی حقیقی تعمیر تین چار سال بعد ممکن ہو پائے گی۔ مزید برآں کوئی مالیاتی ادارہ دس سال سے زیادہ اقساط کو موخر کرنے پر تیار نہیں ہو گا۔ اس لئے اس ڈیم کے گیارہویں سال میں قسطوں کی ادائیگی شروع ہو جائے گی جس سے گردشی قرضہ دوبارہ سے واپس آجائے گا۔
اس وقت دانشمندی کا تقاضا ہے کہ وہ کیا جائے جو فی الوقت ممکن ہے اس پر عمل شروع کردیا جائے اور مستقبل کی تیاری کی جائے۔ اس وقت داسو ڈیم کی تعمیر کو عملی جامہ پہنا دیا جائے کیونکہ اس کے تیکنیکی مراحل طے ہو چکے ہیں اور عالمی ادارے مناسب قرضہ دینے کے لئے بھی تیار ہیں ۔ دیا میر بھاشا ڈیم کی تیاریاں شروع کردی جائیں اور جب اس کے ماقبل تعمیری لوازمات پورے ہو جائیں تو اس کو بنانا شروع کر دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر داسو ڈیم تعمیر ہو جائے تو پاکستان کے ہائیڈروالیکٹرک اثاثے بڑھ جائیں گے اور دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے قرضہ لینا آسان ہوگا۔
یہ بات درست ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں بجلی کے ساتھ آبپاشی میں بھی اضافہ ہوگا۔ پاکستان کو آبپاشی کے لئے ڈیم کی سخت ضرورت ہے لیکن فی الحال پاکستان زرعی اجناس پیدا کرنے میں بحران کا شکار نہیں ہے۔ ملک میں غلہ اور کپاس ضرورت سے بڑھ کر پیدا ہو رہی ہیں ۔ مستقبل کی ضرورتوں کے پیش نظر تین چار سال میں بھاشا ڈیم پر کام شروع ہو سکتا ہے (جو ویسے بھی تین سال سے پہلے ممکن نہیں) لیکن اس وقت ملک کو بجلی اور بجٹ کے خسارے کا سامنا ہے۔ اس لئے جلد از جلد داسو ڈیم کی تعمیر سے پن بجلی پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ دنیا میں کوئی بھی دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے خلاف سازش نہیں کر رہا مسئلہ صرف عملی لوازمات پورے کرنے کا ہے۔
تازہ ترین