راولپنڈی (نمائندہ جنگ) سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں استغاثہ کے بظاہر آخری گواہ پر وکیل صفائی نے اپنی جرح مکمل کرلی جس کے بعد انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر ایک راولپنڈی کے جج رائے محمد ایوب خان مارتھ نے استغاثہ کی متفرق درخواستوں پر بحث کیلئے سماعت 16مئی تک ملتوی کر دی، بدھ کے روز جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سابق سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کے وکیل ملک رفیق نے بینظیر بھٹو قتل کیس کی تفتیش کیلئے بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ خالد قریشی کے بیان پر جرح کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ آپ اس جے آئی ٹی سے پہلے بینظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش کیلئے بنائی جانے والی پنجاب حکومت کی جے آئی ٹی کے بھی ممبر تھے تو خالد قریشی نے کہا کہ میں اس کا باضابطہ ممبر تو نہیں تھا لیکن صرف جائے وقوعہ کا جائزہ اور فرانزک تجزیہ کرنے کیلئے اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے نے مجھے ذمہ داری سونپی تھی اور میں نے مواقع ملاحظہ کر کے جائے حادثہ کے قریب پانی سے بھرے ایک گڑھے سے پستول کے دو خول برآمد کئے تھے، دوران جرح وکیل صفائی نے پوچھا کہ آپ نے اپنی تفتیش اور بیان میں کہا ہے کہ 27دسمبر 2007کو لیاقت باغ کے باہر بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جلد بازی میں کرائم سین واش کرائے جانے سے بہت سارے شواہد ضائع ہوگئے تھے تو ایسے کون سے شواہد یا چیزیں آپ کو درکار تھیں جو تفتیش میں مددگار ثابت ہوتیں مگر کرائم سین واش کروائے جانے سے ضائع ہوگئیں تو اس کے جواب میں استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا سب کچھ ہو جانے کے بعد یہ سپیکولیشن یعنی (مفروضوں) پر مبنی بات ہی ہو سکتی ہے جب کرائم سین ہی واش کروا دیا گیا تھا تو اب کیسے بتایا جا سکتا ہے کہ کن کن چیزوں کی ضرورت پڑ سکتی تھی، وکیل صفائی نے خالد قریشی سے پوچھا آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ بینظیر بھٹو نے مرنے سے قبل اپنے بیان میں یہ کہہ دیا تھا کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار اس وقت کے صدر پرویز مشرف اس وقت کے وزیراعلٰی پنجاب چو ہدری پرویز الٰہی، جنرل ریٹائرڈ حمید گل اور ڈی جی ایم آئی بریگیڈیئر اعجاز شاہ ہونگے، بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کیا آپ نے ان میں سے کسی سے تفتیش کی تو خالد قریشی نے کہا کہ پرویز مشرف سمیت اعجاز شاہ سے باقاعدہ تفتیش کی گئی جبکہ جنرل حمید گل اور پرویز الٰہی نے تحریری طور پر بھجوائے جانے والے سوالناموں کے جواب دے دیئے تھے، بعد ازاں ہم نے جن ملزمان کیخلاف ٹھوس شواہد ملے انہیں اپنے چالان میں ملزم ٹھہرادیا، وکیل صفائی نے استغا ثہ کے گواہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے اس بات کی تفتیش کی ہے کہ جس گاڑی میں بینظیر بھٹو سوار تھیں اس کا سن روف کس کے کہنے پر کھولا گیا اور بینظیر باہر نکلیں، تو خالد قریشی نے عدالت کو بتایا کہ امین فہیم کے بیان کے مطابق بینظیر بھٹو کے کہنے پر ناہید خان اور صفدر عباسی نے لیاقت باغ کے باہر موجود لوگوں کے نعروں کا جواب دیا تھا اور خود بھی نعرے لگوائے تھے اس دوران وہاں موجود لوگوں نے بینظیر کی گاڑی کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو بینظیر بھٹو ہاتھ ہلاتے ہوئے گاڑی سے باہر نکل آئی تھیں اب باہر نکلنے کا مشورہ انہیں کس نے دیا یہ معلوم نہیں، بینظیر بھٹو کی میت کا پوسٹ مارٹم کروانے کے حوالے سے وکیل صفائی نے خالد قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات آپ کے علم میں ہوگی کہ بینظیر کی شہادت کے تیسرے روز آصف علی زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ میں بینظیر بھٹو کی باقیات کا پوسٹ مارٹم کرنے کی آڑ میں ان کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دونگا، تو کیا آپ نے اس حوالے سے آصف زرداری سے تفتیش کی یا اس کام کیلئے ان کے سیکرٹری سے رابطہ کیا تھا تو گواہ نے کہا کہ آصف زرداری کی پریس کانفرنس کا تو مجھے علم نہیں البتہ بینظیر بھٹو کی میت کا پوسٹ مارٹم کروانا راولپنڈی پولیس کی ذمہ داری تھی، استغاثہ کے گواہ پر طویل جرح کے بعد عدالت نے مزید سماعت سولہ مئی تک ملتوی کر دی آئندہ سماعت پر متفرق درخواستوں پر بحث ہو گی اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ استغاثہ سب انسپکٹر ڈیرہ اسماعیل خان سوہنا خان جنہوں نے دو ملزمان کو گرفتار کیا تھا تاہم شدید علالت کی وجہ سے گواہی کیلئے نہ آسکے اور بعد ا ز ا ں فوت ہوگئے تھے ان کی جگہ اس وقت کے ایس ایچ او ڈیرہ اسماعیل خان نیاز خان کو بطور گواہ طلبی کی درخواست دیں گے۔