• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد کابل میں طالبان کے سجدہ شکر کی کچھ ایسی وڈیوز وائرل ہوئیں جنہیں دیکھنے والا ہر شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ وائرل وڈیوز میں آخری امریکی فوجی کی روانگی کے بعد کابل ایئرپورٹ کی فضا ’’ﷲ اکبر‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی اور طالبان سجدہ شکر میں گرگئے جبکہ کابل میں ہی ایک کھلے میدان میں سینکڑوں طالبان جنگجو سجدے میں گڑگڑا کر روتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے نظر آئے۔ اِسی طرح ایک اور وڈیو وائرل ہوئی جس میں طالبان کے امیر ملا ہیبت ﷲ اور اعلیٰ قیادت نے صوبہ زابل میں اپنے بانی امیر ملا عمر کی قبر پر حاضری کے بعدکہا کہ ’’آپ نے افغانستان کی آزادی کا جو خواب دیکھا تھا، وہ آج پورا ہوگیا اور ہم ﷲ کی مدد سے فتح یاب ہوئے‘‘۔

2001 میں افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد گزشتہ 20 برس کا سفر طالبان کیلئے کوئی آسان نہ تھا جس میں اُنہیں بے شمار مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا جبکہ دوستوں نے بھی اُن کا ساتھ چھوڑ دیا۔ گزشتہ دنوں سابقہ طالبان حکومت کے پاکستان میں سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی کتاب ’’گوانتاناموبے کی کہانی۔ ملا ضعیف کی زبانی‘‘ پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مشرف دور حکومت میں طالبان کے ساتھ شدید زیادتیاں ہوئیں جو یقیناً طالبان کو آج بھی یاد ہوں گی۔ پشتو میں تحریر کردہ کتاب کا ترجمہ اردو، عربی اور دیگر زبانوں میں بھی کیا گیا ہے۔ اپنی کتاب میں ملا عبدالسلام نے یہ ہوشربا انکشاف کیا ہے کہ افغانستان پر امریکی حملے کے تیسرے روز 3 پاکستانی اہلکار اُنہیں گرفتار کرنے گھر آئے، میں نے اہلکاروں سے کہا کہ سفیر کی حیثیت سے مجھے سفارتی استثنیٰ حاصل ہے جس پر اہلکاروں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’’سفیر صاحب! آپ ابسفیر نہیں رہے۔‘‘ میں نے اُن سے درخواست کی کہ مجھے گرفتار نہ کیا جائے بلکہ کسی دوسرے ملک جانے کی اجازت دی جائے لیکن اہلکاروں نے میری ایک نہ سنی اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے اور کچھ روز بعد امریکی حکام کے حوالے کردیا۔ امریکی فوجیوں نے مجھے برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا اور اِس دوران جب میری آنکھوں پر بندھی پٹی سرک گئی تو میں نے دیکھا کہ امریکی اہلکاروں کے ساتھ وہاں کئی پاکستانی اہلکار بھی موجود تھے جو مجھ پر ہونے والا تشدد دیکھ کر مسکرارہے تھے۔ عبدالسلام لکھتے ہیں کہ یہ وہ لمحات تھے جنہیں میں قبر میں بھی فراموش نہیں کرپائوں گا۔ اُن کے بقول کچھ روز بعد مجھے ہیلی کاپٹر میں افغانستان کے بگرام ایئر بیس لے جایا گیا اور بعد ازاں بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے منتقل کردیا گیا جہاں 3 سال 10 ماہ قید رکھنے کے بعد 2006میں رہا کردیا گیا۔ ملا عبدالسلام اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک سینئر امریکی فوجی افسر جیل کے دورے پر آیا اور کہنے لگا کہ ’’آخر وہ دن کب آئے گا جب سارے مسلمان ہمارے سامنے سرتسلیم خم کریں گے؟‘‘ میں نے امریکی اہلکار کو جواب دیا کہ ’’تمہاری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی اور ہم افغانستان کی آزادی تک جہاد جاری رکھیں گے‘‘۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے ایک فون کال پر امریکیوں کو وہ کچھ دے دیا جو امریکہ نے مانگا بھی نہیں تھا۔ امریکی حمایت و خوشنودی کیلئے پرویز مشرف نے نہ صرف پاکستان کے فضائی اڈے بلکہ زمینی راستے بھی امریکہ کے حوالے کردیئے اور امریکی ڈرون اور جنگی طیارے بلوچستان کے شمسی ایئربیس سے ہمارے ہی لوگوں کو نشانہ بناتے رہے۔ اِسی طرح سینکڑوں بے گناہ طالبان پر دہشت گردی کا الزام لگاکر انہیں امریکہ کے حوالے کردیا گیا جنہیں بدنام زمانہ گوانتاناموبے جیل میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ کے ساتھ اِس معاہدے سے پرویز مشرف کو ذاتی فوائد تو ضرور حاصل ہوئے اور اُن کے اقتدار کو طول ملا مگر پاکستان کو امریکی اتحادی ہونے کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ امریکی قبضے کے بعد افغانستان میں پاکستان مخالف اور بھارت نواز حکومت قائم ہوئی اور امریکہ، بھارت گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پاکستان، دہشت گردی کا مرکز اور دو دشمن ممالک کے درمیان سینڈوچ بن گیا۔

اب جب افغانستان میں امریکہ کی ذلت آمیز شکست اور انخلا کے بعد نئی تاریخ رقم ہورہی ہے، پرویز مشرف تاریخ کے دوسری طرف کھڑے ہیں۔ آج وقت بدل چکا ہے، طالبان محکوم نہیں بلکہ حاکم بن چکے ہیں جن کے کئی ممالک سے قریبی تعلقات ہیں جبکہ بھارت بھی طالبان کی حمایت و خوشنودی کے حصول کیلئے طالبان سے تعلقات استوار کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ گزشتہ 20 برسوں میں بھارت نے افغانستان میں رہ کر افغانیوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف بہت زہر گھولا ہے جن کے اثرات زائل کرنے کیلئے ہمیں افغانیوں کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ ساتھ ہی ہمیں مشرف دور حکومت میں طالبان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ بھی کرنا ہوگا۔ آج طالبان نے دنیا کو بتادیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو ﷲ کی خصوصی عنایت حاصل ہے جہاں ماضی کے سپر پاور روس کو طالبان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا اور آج کی سپر پاور امریکہ بھی 20 برس میں طالبان ایسے بے آسرا لوگوں کی جدوجہد ختم نہ کرسکا اور اُسے ذلت آمیز شکست ہوئی۔ طالبان کا سجدہ شکر اللہ تعالیٰ پر اُن کے پختہ ایمان کا مظہر ہے جو صرف ﷲ کے بھروسے پر دنیا کی سپر پاور سے اِس یقین کے ساتھ ٹکراگئے کہ ﷲ کی مدد اُن کے ساتھ ہے اور ﷲ نے بھی اُنہیں مایوس نہیں کیا۔

تازہ ترین