• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرمنی میں رواں ماہ کی26 تاریخ کو انتخابات ہو رہے ہیں، جس میں چانسلر انجیلا مرکل کے جانشین کا انتخاب کیا جائے گا۔ مسز مرکل جرمنی کے سیاسی منظر نامے پر گزشتہ سولہ سال سے چھائی ہوئی ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ حالیہ صدی کے آغاز سے اب تک جرمنی میں اُن کے بغیر قیادت کا تصوّر ہی نہیں رہا، اِسی لیے عوام اُن کے جانے پر اداس ہیں۔ جرمن عوام مرکل کی قیادت کے عادی ہوچُکے ہیں کہ مُلک میں قیادت اور سیاست اُن ہی کے دَم سے ہے اور اداس اِس لیے بھی ہیں کہ وہ اپنی ’’ماما‘‘ سے (جرمن شہری مرکل کو’’ ماما‘‘ کہتے ہیں)بے حد پیار کرتے ہیں۔ 

یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ صدی کے پہلے کوارٹر میں اگر کسی کو عالمی سطح پر’’ آئرن لیڈی‘‘ کہا جا سکتا ہے، تو وہ مرکل ہی ہیں۔اُنہوں نے کسی ملکہ کی طرح جرمنی پر حکومت کی اور وہاں اُن سے زیادہ قبولِ عام قومی شخصیت کا تصوّر ہی ممکن نہیں تھا۔ اِس امر میں بھی دو رائے نہیں کہ اُنھوں نے جرمنی کے اتحاد کے بعد نہ صرف اپنے مُلک کو عالمی سطح پر ایک عظیم طاقت بنایا بلکہ اُسے یورپ کی سب سے مضبوط معاشی طاقت کا بھی مقام دیا۔

شاید معاشی مضبوطی کی اہمیت ہمیں پوری طرح سمجھ نہ آئے کہ ہم اِس پر کم ہی توجّہ دیتے ہیں، لیکن یورپی اقوام اسے مُلکی ترقّی میں ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہیں۔اُن کی سیاسی اہمیت کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مرکل حکومت کے چار ادوار میں یورپی یونین کوئی بھی فیصلہ جرمنی کی مرضی کے خلاف نہیں کرسکی۔لیکن شاید اب وقت آگیا تھا کہ وہ مُلک کے سیاسی منظر نامے سے ہٹ جائیں اور نئے چانسلر کے لیے جگہ چھوڑ دیں کہ یہی قومی مفاد اور وقت کا تقاضا تھا۔ یہی جمہوریت کی ریت اور روایات ہیں۔

اِن دنوں جرمنی میں انتخابی مہم جاری ہے۔ گو کہ اسے’’ بہت زوروں‘‘ پر تو قرار نہیں دیا جاسکتا، لیکن پھر بھی تمام اہم جماعتوں نے اپنے امیدوار میدان میں اُتارے ہیں اور وہ اُن کی جیت کے لیے مہم بھی چلا رہی ہیں۔ چانسلر شپ کے امیدواروں میں ایک بڑا نام، آرمن لاشیٹ کا ہے، جن کا تعلق مرکل کی جماعت ’’کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین‘‘ اور’’ کرسچیئن سوشل یونین‘‘ کے اتحاد سے ہے۔

وہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اسٹیٹ کے وزیرِ اعظم بھی ہیں، جو آبادی کے لحاظ سے مُلک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔اینالینا بئربوک انتخابات میں حصّہ لینے والی واحد خاتون امیدوار کا تعلق گرین پارٹی سے ہے۔ نام سے ظاہر ہے کہ یہ جماعت ماحولیاتی آلودگی کی سخت مخالف ہے اور گرین انرجی کو مُلک کا مسقبل بنانا چاہتی ہے۔ چالیس سالہ مس بئربوک اسمبلی کی رُکن بھی ہیں۔اگر وہ نہ بھی جیتیں، تب بھی اُن کی جماعت کے ممکنہ مخلوط حکومت میں شامل ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اُن کے منشور کا اہم نکتہ ہے، جسے جرمنی میں خاصی اہمیت حاصل ہے۔

62 سالہ اولاف شولز کا تعلق سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہے اور اِن دنوں مُلک کے وزیرِ خزانہ ہیں۔نیز، ہمبرگ جیسے اہم شہر کے میئر بھی رہ چُکے ہیں۔پری پولز سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کی کام یابی کے بھی خاصے امکانات ہیں۔فری ڈیمو کریٹس کے جیتنے کے امکانات تو بہت کم ہیں، لیکن اُن کے امیدوار42سالہ کرچین عوام میں خاصے مقبول ہیں۔اُن کی پارٹی فِری مارکیٹ اکانومی کی بات کرتی ہے۔ وہ حکومت پر لاک ڈاؤن معاملے پر مسلسل تنقید کی وجہ سے بھی مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ چند اور امیدوار بھی میدان میں موجود ہیں۔

جرمنی آج یورپ کا سب سے طاقت وَر مُلک ہے۔اس کی معیشت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ’’جرمنی کی کمپنیز اِتنا زیادہ منافع کماتی ہیں کہ اُسے خرچ کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘‘ یہ غیرمعمولی معاشی ترقّی چانسلر مرکل کے16 سالہ دورِ اقتدار ہی میں ہوئی۔ مسز مرکل جب الیکشن میں کھڑی ہوتیں، تو کہا جاتا کہ ووٹرز اُن کے علاوہ کسی اور کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن اپنے آخری الیکشن میں اُنہیں شام سے آنے والے تارکینِ وطن کے مسئلے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے اُن کے پارٹی سادہ اکثریت بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔علاوہ ازیں، اُنہیں اپنی تارکینِ وطن کی حمایت کی پالیسی پر اِس شدّت سے مخالفت کا سامنا رہا کہ اتحادی حکومت بنانے میں بھی چھے ماہ لگ گئے۔ 

رائٹ وِنگ، یعنی قوم پرست جماعتوں کا باقی یورپ کی طرح جرمنی میں بھی زور بڑھتا جا رہا ہے۔ گو کہ ابھی تک اُنھیں انتخابات میں زیادہ کام یابی تو حاصل نہیں ہوسکی، لیکن نظریاتی لحاظ سے عوام کی بڑی تعداد اُن کی ہم آواز ہے۔جرمنی تارکینِ وطن کی سب سے بڑی پناہ گاہ کے طور پر سامنے آیا تھا کہ مرکل نے شامی مہاجرین کے لیے، جنھیں کوئی بھی اپنانے کو تیار نہ تھا، اپنے مُلک کے دروازے کھول دیے۔اُن کا کہنا تھا کہ’’ یہ بے خانماں لوگ ہماری سخاوت اور مہمان نوازی کے مستحق ہیں۔‘‘تاہم ،یورپ کے باقی ممالک کی یہ رائے نہیں تھی۔

ایک تو شام کی خانہ جنگی میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے عُنصر نے عوام کو چوکنّا کر دیا تھا، پھر یہ کہ فرانس، برطانیہ اور ناروے وغیرہ میں دہشت گردی کے واقعات نے بھی تارکینِ وطن سے متعلق عوامی رائے کو منفی بنانے میں اہم کردارادا کیا۔ خود جرمنی میں کئی ایسے واقعات ہوئے، جن میں تارکینِ وطن کا روّیہ غیر مناسب سمجھا گیا۔یوں مرکل کی یہ انسانی ہم دردی،سیاسی کیرئیر کے آخری ایّام میں اُن کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوئی اور اُن کی مقبولیت، عوامی احتجاج میں بدلنے لگی۔ اِسی لیے ایک اعلیٰ درجے کے جمہوری رہنما کی طرح اُنہوں نے اپنی آئینی مدّت سے دو سال پہلے ہی اقتدار سے دست بردار ہوکر نئے الیکشن کا اعلان کر دیا۔

مرکل نے یورپ میں جرمنی کی عظمت کا خواب کسی فوجی کارروائی اور ایک گولی چلائے بغیر تعبیر سے ہم کنار کیا۔ہٹلر نے اِسی خواب کی بنیاد پر دوسری عالمی جنگ لڑی تھی۔ اِس کے علاوہ، مرکل نے یورپ کو بھی عالمی طاقت بننے میں مدد دی اور وہ امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوگیا۔اُنھوں نے ٹرمپ کے زمانے میں سخت مؤقف اپنائے رکھا۔ امریکا کے کلائمیٹ چینج معاہدے سے نکل جانے اور ایران سے نیوکلیئر ڈیل مسترد کرنے کا فیصلہ قبول نہ کر کے یورپ کی خود مختار پالیسی کی بنیاد ڈالی، جو کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔ اُنھوں نے یوکرین تنازعے کے بعد روس کے یورپ کے ساتھ بگڑتے تعلقات کو سنبھالا اور اسے تنہائی میں جانے سے بچایا، وگرنہ ایک نئی سرد جنگ تو شروع ہو ہی چُکی تھی۔یہ تو عالمی محاذ پر اُن کی چند بڑی کام یابیاں ہیں،اپنے مُلک میں بھی اُنھوں نے بہت سی کام یابیاں حاصل کیں۔

معیشت اِتنی مضبوط کردی کہ آج جرمن عوام کا کہنا ہے کہ’’ ہمارے پاس ہر وہ چیز موجود ہے، جو کسی بھی دوسرے ترقّی یافتہ مُلک میں ہے۔‘‘برسلز، جو یورپی یونین کا ہیڈ کوارٹر ہے، مرکل ہی کی وجہ سے فیصلہ کُن قوّت کا مالک بنا۔برطانیہ کی یورپی یونین سے علیٰحدگی کی ایک وجہ جرمنی کی مسلسل بڑھتی ہوئی طاقت بھی تھی۔ اِن حالات میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جرمن عوام کے لیے مرکل کا جانشین منتخب کرنا کس قدر مشکل کام ہے، کیوں کہ اُن کے پائے کا رہنما صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔مشرقی جرمنی کے ایک غریب، روسی زبان بولنے والے پادری کی بیٹی چانسلر جیسے عہدے تک پہنچی اور پھر سولہ برس تک پوری شان و شوکت سے مُلک پر حکم رانی کی، تاریخ میں اِس طرح کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ 

وہ ایک آہنی عزم اور سیاسی تدّبر کی مالک سربراہِ حکومت تھیں، جنھوں نے اپنے تباہ حال مُلک کو دنیا میں عزّت اور دولت سے ہم کنار کیا اور وہ بھی اس خُوبی سے کہ آج ہٹلر کے جرمنی کو سب بھول چُکے ہیں، سب کو مرکل کا جرمنی یاد ہے۔ اِسی لیے اُن کے نعم البدل کی تلاش بہت دشوار مرحلہ ہے۔مرکل کی شخصیت اور اندازِ حکم رانی اُن سیاسی رہنماؤں کے لیے ایک سبق ہے، جو تقاریر تو بہت بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں، لیکن کارکردگی صفر ہے۔مرکل بہت ہی کم گو ہیں۔

دولت مند مُلک کی حکم ران ہونے کے باوجود سب کو کفایت شعاری کا درس دیتی رہیں، جس سے کئی بار یورپی ممالک بھی تنگ آ جاتے تھے۔ وہ خود بھی سادہ زندگی گزارتی ہیں۔ دفتر کے کام ختم ہونے پر اپنا سودا سلف خود خریدتیں اور گھر آکر کھانا پکاتیں۔اِس قدر اہم عُہدے پر فائز ہونے کے باوجود اُن کے شوہر کے نام سے کم ہی لوگ واقف ہیں۔ اُن کے جانشین کو بنیادی اور ہنگامی نوعیت کے کئی معاملات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان میں تارکینِ وطن، موسمیاتی تبدیلی، قوم پرستی اور برطانیہ کی علیٰحدگی کے بعد کے یورپ کے مسائل نمایاں ہیں اور سب سے بڑھ کر کورونا ایشو ہے، جو اب بھی سامنے موجود ہے۔

انتخابی دوڑ میں شامل جماعتوں کا بنیادی معاملات پر تقریباً یک ساں مؤقف ہے، جیسے کلائمیٹ چینج، لیکن اِس مسئلے کے حل کے لیے کیا طریقۂ کار اختیار کیا جائے، اِس پر اختلافات ہیں۔گو کہ بریگزٹ کے بعد جرمنی کی یورپ میں پوزیشن مزید مضبوط ہوگئی ہے، لیکن جس طرح مرکل نے لیڈر شپ اپنے ہاتھ میں رکھی، ایسا کرنا اُن کے جانشین کے لیے آسان نہ ہوگا، کیوں کہ مقابلے میں فرانس جیسا مضبوط مُلک موجود ہے۔حکومت کی تشکیل جرمنی میں سب سے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے کہ گزشتہ کئی انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی۔

وہاں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام ہے، جس میں طاقت کا مرکز ایوانِ زیریں ہوتا ہے۔ شہری دو ووٹ کاسٹ کرتے ہیں، ایک پارٹی اور ایک نمایندے کے لیے۔ایوان کی کُل 598 نشستیں ہیں اور تین سو ارکان کی حمایت کے ساتھ چانسلر کا عُہدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔جرمنی، روس کے بعد یورپ کا سب سے زیادہ آبادی والا مُلک ہے، جس کی آبادی آٹھ کروڑ، تیس لاکھ ہے۔ برلن دارالحکومت ہے، تو فرینکفرٹ معاشی حب۔جرمنی نے دوسری جنگِ عظیم میں نہ صرف شکست کھائی، بلکہ ہٹلر کی کی ظالمانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیز کی وجہ سے اسے شدید نفرت کی علامت قرار دیا گیا۔ ہٹلر کی شکست کے ساتھ ہی جرمنی دو حصّوں، مغربی اور مشرقی جرمنی میں تقسیم ہو گیا۔یوں برلن کے بیچ تقسیم کی دیوار چُن دی گئی، جو شکست، بے چارگی، نفرت اور محرومی کی علامت بن گئی۔ 

مغربی جرمنی، مغربی یورپ کا حصّہ بنا، جہاں جمہوری نظام نافذ ہوا، جب کہ مشرقی جرمنی پر سوویت یونین نے تسلّط جما کر کمیونسٹ نظام قائم کردیا۔مغربی جرمنی نے غیر معمولی ترقّی کی، جب کہ مشرقی جرمنی پس ماندہ رہا۔سوویت یونین کے بکھرنے پر جرمنوں نے مل کر دیوارِ برلن گرا دی اور بچھڑے خاندان ایک ہوگئے۔

مغربی جرمنی نے اپنے مشرقی بھائیوں کو اپنی ترقّی کا حصّہ بنایا اور پھر اُنہوں نے ایک قوم بن کر جرمنی کو یورپ اور دنیا کی بڑی طاقت بنا دیا۔مرکل مشرقی جرمنی سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن اُن کی سربراہی جرمن یک جہتی کی علامت رہی۔ جرمنی نے عالمی امور میں اب تک متوازن پالیسی اختیار کیے رکھی ہے۔ وہ یورپ کا لیڈر ہے، لیکن اب برطانیہ کے نکلنے کے بعد اس کی ذمّے داریاں بڑھ گئی ہیں، کیوں کہ وہ نہ صرف آبادی میں سب سے آگے ہے، بلکہ سب سے زیادہ دولت مند بھی ۔مرکل یورپ کو کفایت شعاری کا درس دیتی رہیں، خصوصاً معاشی طور پر کم زور ممالک کو، جن میں یونان، اسپین، سسلی اور اٹلی جیسے مُلک شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اِتنا ہی خرچ کرو، جتنا کماتے ہو۔ عیّاشی سے پرہیز لازم ہے، محنت کرو اور اپنی معیشت مضبوط بناؤ۔ تاہم، جرمنی نے بڑی فراخ دلی سے عالمی اقتصادی بحران اور کورونا کے دَوران اُن ممالک کی مدد کی اور مالیاتی سہارا دیا، جس کی وجہ سے یورپی اکانومک کمیونٹی ایک طاقت وَر اتحاد کے طور پر قائم رہی۔یہ جرمنی ہی کا خاصہ تھا کہ اس نے فرانس کے ساتھ مل کر بریگزٹ کا صدمہ برداشت کیا اور برطانیہ اور یورپ میں نفرت پیدا نہ ہونے دی۔اب خطّے پر بریگزٹ کے اثرات مرتّب ہونا شروع ہوگئے ہیں، جب کہ کورونا بھی علاقے میں موجود ہے۔لہٰذا، مرکل کے جانشین کے لیے اہم ترین چیلنج یہی ہوگا کہ آنے والے دنوں کو نہ صرف یورپ کے لیے آسان بنادے، بلکہ اسے فائدے میں بدل دے۔

جرمنی ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کے قائدین میں شامل ہے اور ہر شعبے میں اُس کے مال کی برتری مسلّم ہے۔ پھر اتحادی حکومتوں کے باوجود اس کا سیاسی نظام بھی انتہائی مضبوط ہے۔ اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ جرمنی کو بھی دوسرے یورپی ممالک کی طرح قوم پرستی کا سامنا ہے اور اس کے ماضی کے پیشِ نظر بہت سے خدشات کا بھی اظہار کیا جاتا ہے، تاہم ،اس کے پاس سیاسی رہنمائوں کی ایک اچھی ٹیم موجود ہے، جو مرکل کے بعد بھی مُلک کو ترقی کی راہ پر گام زن رکھ سکتی ہے۔

یورپ میں انسانی حقوق کے معاملات غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں، غالباً اس کا اُن عالمی جنگوں سے تعلق ہے، جنہوں نے اسے بہت سے انسانی المیوں سے دوچار کیا۔ اِسی لیے یورپی یونین اِس سلسلے میں بہت حسّاس ہے۔مرکل کو تارکینِ وطن کے معاملے میں جس طرح ہزیمت اُٹھانا پڑی اور آخر کار اقتدار سے رخصت ہونا پڑا، نئی جرمن قیادت اِن معاملات میں پھونک پھونک کر قدم اُٹھائے گی۔جیسا کہ حالیہ افغان بحران میں جرمنی کا کردار بہت محتاط رہا اور اس نے افغان مہاجرین کو قبول کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں لی۔

تازہ ترین