• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی الیکشن ذرا دور ہیں مگر الیکٹرونک ووٹ مشین کے نام پر ایک سیاسی ہنگامہ برپا ہے۔ کہ لگتا ہے گویا حکومت پورے الیکشن کمیشن کو تبدیل کردینا چاہتی ہے۔

حیرت ہے نہ اپنا کمیشن قبول ہے نہ اپوزیشن کا…! ایسے میں اگر بحران حل نہ ہوا تو بات کہاں تک جاسکتی ہے۔الیکشن ہمارے یہاں ایک سیاسی کٹھ پتلی کے تماشے سے کم نہیں ۔ 

ایک ایسے ماحول میں جہاں کسی پر پرچی لیڈر ہونے کا الزام ہو تو کسی پر سلیکٹڈ ہونے کا، کوئی الیکشن کمیشن کو آگ لگانے کی بات کررہا ہو، چیئرمین پر پیسے لینے کا سنگین الزام عائد کر رہا ہو تو کوئی اپوزیشن کے اندر میر جعفر کو تلاش کررہا ہے۔

ہمارے یہاں الیکشن کسی ’’سیاسی ورلڈ کپ‘‘ سے کم نہیں جہاں سلیکٹرز ٹیم سلیکٹ کرتے ہیں اور امپائر میچ کراتے ہیں۔ اس وقت سب کپتان اپنی اپنی ٹیموں کے ساتھ میدان میں ہیں، کھلاڑی، سلیکٹرز کی نظریں اپنی جانب مبذول کرانے میں مصروف ہیں۔ 

اب اگر یہ ورلڈ کپ 2023ء میں ہونا ہے اور نئی مردم شماری کے تحت ہونا ہے تو بس سمجھ لیں کہ بہت کچھ اس سے پہلے ہوجائے گا خاص طور پر سندھ اور پنجاب میں! ہوسکتا ہے میں غلط ہوں مگر مجھے الیکشن 2023میں بھی ہوتا نظر نہیں آرہا ۔

تینوں بھاری بھرکم ٹیمیں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی! ان تین برسوں میں کئی ضمنی انتخابات میں یہ ایک دوسرے کے سامنے آئیں۔ کئی الیکشنز حکمران جماعت ہاری اور کچھ جیتی مگر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔

اتوار کو ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہونے سے ملک بھر میں بلدیاتی الیکشن کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور وہ بھی جماعتی بنیادوں پر! اگر ایسا آئندہ چند ماہ میں ہوتا ہے تو اس کے نتائج انتخابات قبل از وقت یا مقررہ وقت پر ہونے کا تعین کرسکتے ہیں مگر الیکشن کرانے والوں کو ہی متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 

 کمیشن پر، جس کی تشکیل خود حکومت اور اپوزیشن کرتی ہے، سنگین ترین الزامات عائد کئے جانے کے بعد ایک بات تو طے ہے کہ ماضی کی طرح آئندہ الیکشن پر بھی سوالات اٹھیں گے۔ 

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف جتنی نروس اور غصے میں نظر آرہی ہے، ایسا ہونا نہیں چاہئے کیونکہ ابھی تو اپوزیشن، اپوزیشن سے لڑ رہی ہے شاید سلیکٹرز کی نظروں میں آنے کیلئے! حیران ہوں کہ کپتان اور ان کی نومولود ٹیم کو ہو کیاگیا ہے۔

سب کو ’’گھبرانا نہیں‘‘ کا درس دینے والے خان صاحب اپنے کھلاڑیوں کو کیوں نہیں سنبھال پا رہے۔ کہیں کسی گڑبڑ کا امکان تو نظر نہیں آرہا، کیا سلیکشن کمیٹی اور امپائر کی تبدیلی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے؟

ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ سیاسی بحران شدت اختیار کررہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان ہر صورت میں الیکشن ’’الیکٹرونک ووٹ مشین‘‘ کے ذریعے چاہتے ہیں اور ساتھ ہی بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق بھی دینے کے خواہاں ہیں مگرجو طریقہ ان کی حکومت اور جماعت اختیار کرنے جارہی ہے، ۔

اس سے 1977ء جیسا بحران کھڑا ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف ماضی میں مفاہمت کی علامت پاکستان پیپلزپارٹی اپنے آپ کو بچا کر چل رہی ہے مگر عین ممکن ہے کہ اگر وہ خود کو سسٹم سے باہر دیکھے تو میدان میں آجائے۔

ایسی صورتحال سے کس کو فائدہ ہوگا؟ یہ ہم سب کو معلوم ہے اور یہ بھی کہ جمہوریت کے میر جعفر بھی ہمارے یہاں ہمیشہ سے موجود رہے ہیں بس ایک ’’اشارہ‘‘ کافی ہوا تو حاضر جناب کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو جائیں گی۔

اس وقت تو 2007ء کی طرح وکیل بھی سڑکوں پر ہیں، صحافی بھی اور انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی! فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے عمران خان ایسی تحریک کا حصہ تھے، اب وہ حکمران ہیں۔ 

23؍سال کے سیاسی تجربے میں وہ اتنا تو سمجھتے ہی ہیں کہ سیاسی بحران کیوں کھڑا ہوتا ہے یا کیا جاتا ہے، اس سے نمٹنے کیلئے ریاستی نہیں، سیاسی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

ریاستی جبر یا محض اکثریت کی بنیاد پر فیصلے پائیدار نہیں ہوتے اس کیلئے الیکشن کمیشن کو آگ کی نہیں پانی کی ضرورت ہے۔ اس کے اعتراضات دور کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، آخر الیکٹرونک مشین اور میڈیا ’’کنٹرول‘‘ اتھارٹی جیسے اقدامات کی ضرورت اب کیوں محسوس کی جارہی ہے؟ یہ آپ کا آخری الیکشن نہیں اور نہ ہی آپ کی پوزیشن اتنی خراب ہے۔

البتہ آپ کے سب سے بڑے مخالف کا ووٹ بینک بہرحال اب تک قائم ہے۔ سزا بھی ہوگئی، نااہلی بھی! آدھی پارٹی لیڈر شپ مقدمات کا سامنا کررہی ہے۔ قائد حسبِ روایت باہر ہیں اور صدر وہاں کھڑے ہیں جہاں سے انہیں اپنی بھی خبر نہیں۔کپتان…! 

اس کی کوئی تو وجہ ہوگی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو غلطی آپ نے پارٹی کی مخالفت اور تحفظات کے باوجود ایک ایسے شخص کو شریفوں کے سامنے لاکھڑا کیا جس سے نہ کوئی آئی جی سنبھل پا رہا ہے، نہ چیف سیکرٹری…! تو اپنے زمانے کا طاقتور شہباز شریف کہاں سے سنبھلے گا؟ اب اس کا تو ٹرانسفر بھی نہیں ہوسکتا البتہ بڑے بھائی کی طرح نااہل یا سزا یافتہ ہوگئے تو الگ بات ہے پھر تو سیاسی موٹروے پر آپ ہوں گے اور عثمان بزدار…!

رہ گئی بات پی پی پی کی تو اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ بہت دیر کی مہرباں پنجاب آتے آتے… نہ کوئی ٹوٹا، نہ کوئی جُڑا، پرانے بھی بس انتظار میں ہیں۔ بہرحال بلاول کے پاس ابھی وقت ہے مگر سچ پوچھیں تو اسے سیاست میں بہت جلدی اتار دیاگیا۔ پر کیا کریں، یہ سارے سیاسی گھرانے والے، سب ایک جیسے…! 

اب اگر اس کو اگلا وزیراعظم بھی جیالا اور وزیراعلیٰ پنجاب بھی جیالا آتا نظر آرہا ہے تو غیر معمولی ’’چمتکار‘‘ تو نہیں کہہ سکتے البتہ آصف زرداری صاحب کی ’’زیرک‘‘ سیاست کا یہ سب سے بڑا ’’پتہ‘‘ ہوسکتا ہے مگر اب تک ان کو اسی طرزِسیاست نے زیرک تو بنا دیا ہے لیکن پارٹی سندھ سے باہر نہیں جاپا رہی۔

اب سارا بوجھ ایک بار پھر ’’سلیکٹرز‘‘ پر آ گیا ہے۔ دیکھیں وہ کیا ٹیم سلیکٹ کرتے ہیں اور کون سے امپائر نامزد ہوتے ہیں۔

 اگلے ’’سیاسی ورلڈ کپ‘‘ سے پہلے… ابھی میری دعا ہے کہ پاکستان T-20 کپ میں کچھ کر دکھائے۔

تازہ ترین