• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کو ایک جدید جمہوریت میں تبدیل کرنا ممکن نہیں تھا، ہنری کسنجر

کراچی( رفیق مانگٹ) سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے برطانوی جریدے اکنامسٹ میں لکھے اپنے مضمون میں افغانستان میں امریکی ناکامی کی وجوہات بتائی ہیں انہوں نے کہا کہ افغانستان کو ایک جدید جمہوریت میں تبدیل کرنا ممکن نہیں تھا، لیکن تخلیقی سفارتکاری اور طاقت سے دہشت گردی پر قابو پا یا جاسکتا تھا۔افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہزاروں امریکیوں، اتحادیوں اور افغانیوں کی واپسی پر فوری تشویش کے ساتھ ان کا بچاؤ فوری ترجیح ہونا چاہیے۔ بنیادی تشویش یہ ہے کہ امریکہ نے کسی پیشگی اطلاع،اتحادیوں یا بیس برس سے قربانیاں دینے والوں کے مشورے کے بغیر انخلا کیا اور افغانستان میں بنیادی چیلنج عوام کے سامنے یہ پیش کیا گیا ہے کہ افغانستان پر مکمل کنٹرول یا مکمل انخلا میں سے ایک انتخاب ہے۔ ویت نام سے عراق تک نسل کشی کی کوششوں نے ایک نسل سے زیادہ کو متاثر کیا ہے۔ جب امریکہ اپنی فوج کی جانوں کو خطرے میں ڈالتا ہے، اپنے وقار کو داؤ پر لگاتا ہے اور دوسرے ممالک کو شامل کرتا ہے تو اسے اسٹریٹجک اور سیاسی مقاصد کی بنیاد پر ایسا کرنا چاہیے۔امریکا نے اپنی انسداد بغاوت یا مزاحمت کی کوششوں میں اپنے آپ کو تقسیم کر دیا ہے، عسکری مقاصد انتہائی مطلق اور ناقابل رسائی ہیں اور سیاسی مقاصد بھی تجریدی اور مضحکہ خیز۔ ان کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں ناکامی نے امریکہ کو تنازعات میں ملوث کیا ہے امریکا طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میںامریکہ پر القاعدہ کے حملے کے جواب میں وسیع عوامی حمایت میں داخل ہوا۔ ابتدائی فوجی مہم موثر رہی۔ جیسے جیسے طالبان ملک سے بھاگ رہے تھے، ہم نے اسٹریٹجک فوکس کھو دیا۔ ہم نے اپنے آپ کو یقین دلایا کہ دہشت گردوں کے اڈوں کے قیام کو جدید جمہوری اور آئینی ریاست ہی روک سکتی ہے۔2010 میں، فوجیوں کے اضافے کے جواب میں بھی انتباہ کیا تھاکیونکہ افغانستان کبھی بھی ایک جدید ریاست نہیں رہا۔ ریاست کی حیثیت مشترکہ ذمہ داری اور اختیار کی مرکزیت کا احساس رکھتی ہے۔ افغان سرزمین اس سے محروم ہے۔ افغانستان میں ایک جدید جمہوری ریاست کی تعمیر جہاں حکومت کی رٹ پورے ملک میں یکساں طور پر چلتی ہے اس کا مطلب کئی سالوں کا ٹائم فریم ہے۔افغانستان کی ناقابل رسائی اور مرکزی اتھارٹی کی عدم موجودگی نے اسے دہشت گرد نیٹ ورکس کے لیے ایک پرکشش اڈہ بنا دیا۔ افغانستان کے لوگوں نے ہمیشہ مرکزیت کی سخت مزاحمت کی ہے۔ عام طور پر ایک دوسرے کے ساتھ دیرینہ تصادم میں، یہ جنگجو وسیع اتحاد میں متحد ہو جاتے ہیں جیسا کہ 1839 میںبرطانوی فوج اور 1979 میں سوویت مسلح افواج کے خلاف ہوئے ۔ عصری دلیل کہ افغان عوام اپنے لیے لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اس کی تاریخ تائید نہیں کرتی۔ طالبان پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن ختم نہیں کیا جا سکتا اور حکومت کی غیرمعروف صورتوںکے متعارف ہونے سے سیاسی وابستگی کمزور ہو گئی اور کرپشن میں اضافہ ہوا۔جس چیز کو نظرانداز کیا گیا تھا وہ ایک قابل فہم متبادل تھا جو قابل حصول مقاصد کو یکجا کرتا تھا۔ انسداد بغاوت طالبان کی تباہی کے بجائے کنٹرول ہوسکتی تھی۔ افغان حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی و سفارتی راستہ تلاش کیا جاسکتا تھا بھلے وہ ان کے ہمسایہ ممالک تھے یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے مخالف کیوں نہ تھے،افغانستان کی دہشت گردانہ صلاحیت سے شدید خطرہ محسوس کرتے


ہیں۔کیا انسداد بغاوت کی کچھ مشترکہ کوششوں کو مربوط کرنا ممکن ہوتا؟ یقینی طور پر، بھارت، چین، روس اور پاکستان کے اکثر مختلف مفادات ہوتے ہیں۔ ایک تخلیقی سفارتکاری افغانستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے مشترکہ اقدامات کرسکتی تھی یہ حکمت عملی


برطانیہ نے ایک صدی تک بغیر اڈے کے بھارت اور مشرق وسطی میں اپنائی، یعنی اپنے مفادات کے دفاع کے لیے مستقل تیاری کے ساتھ ایڈہاک علاقائی حامیوں کوملایا۔لیکن یہ متبادل کبھی نہیں دریافت کیا گیا۔ جنگ کے خلاف مہم چلانے کے بعد، صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کیے اور بائیڈن انتظامیہ غیر مشروط امریکی انخلاء کی حد تک پہنچ گئی ۔ارتقاء کو بیان کرنے سے بے حسی ختم نہیں ہوتی اور سب سے بڑھ کر انخلا کا اچانک فیصلہ۔ امریکہ اپنی صلاحیتوں اور تاریخی اقدار کی وجہ سے بین الاقوامی نظم کا کلیدی جزو بننے سے بچ نہیں سکتا۔ یہ انخلاسے بھی بچ نہیں سکتا۔ دہشت گردی سے نمٹنے، محدود کرنے اور اس پر قابو پانے کے لیے خود کوزیادہ جدید ترین ٹیکنالوجی والے ممالک کے تعاون سے عالمی چیلنج رہے گا۔ قومی اسٹریٹجک مفادات کے ساتھ مل کر اس کا مقابلہ کیا جانا چاہیے جو بھی بین الاقوامی ڈھانچہ ہم قابل سفارت کاری کے ذریعے بنا سکتے ہیں۔ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ مستقبل میں اس خود ساختہ دھچکے کو دور کرنے کے لیے کوئی ڈرامائی اسٹریٹجک اقدام دستیاب نہیں ہے، امریکی پسپائی اتحادیوں میں مایوسی کو بڑھا دے گی، مخالفین کی حوصلہ افزائی کرے گی، اور مبصرین کے درمیان الجھاؤ کا سبب بنے گی۔بائیڈن انتظامیہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ اسے ملکی اور بین الاقوامی ضروریات کے مطابق ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے اور برقرار رکھنے کا موقع ملنا چاہیے۔

تازہ ترین