نئے منتخب شدہ لندن کے میئر، پاکستانی نژاد مسٹر صادق خان کو سلام ۔ وہ عالمی جمہوریت میں سیاسی کارکنوں کی توقیر کی علامت بن کر ابھر ے ہیں۔وہ اس اہم عہدے کے لئے منتخب ہونے والے پہلے مسلمان ہیں۔ وہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک بس ڈرائیور کے بیٹے ہیں اور اُنھوں نے ارب پتی ،جیمز گولڈ اسمتھ کے بیٹے اور عمران خان کی سابقہ بیوی، جمائما کے بھائی ، مسٹر زیک گولڈا سمتھ کو شکست دی ہے ۔مسٹر زیک کی انتخابی مہم کے دوران حوصلہ افزائی کے لئے عمران خان بھی انگلینڈ گئے تھے ۔انتخابات سے پہلے ، میرے انگلینڈ میں مقیم کچھ دوستوں نے مجھے بتایا تھا کہ لندن کی ایک لابی اپنے مخصوص مقاصد کےلئے پاکستان کی سیاست میں انویسٹ کرنے جارہی تھی۔ چنانچہ یہ بات کہنی پڑے گی خدا نے پاکستان کو پائونڈ اسٹرلنگ کے بہائو سے سیاسی اچھال پیدا کرنے کی بیرونی کوشش سے محفوظ رکھا۔ اس سے پہلے ہم پیٹروڈالر کے اپنی داخلی سیاست پر اثرات دیکھتے رہتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ صادق خان کی فتح نے پاکستانی سیاست اور انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خواب چکنا چور کردئیے ۔
صادق خان کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے اور ان کانچلی سطح سے اٹھ کر اس بلند ی تک پہنچنا شفاف جمہوریت اور لیبرپارٹی کی موثر فعالیت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اُن کی فتح نے دولت کے بل بوتے پر سیاسی عزائم رکھنے والوں سے پاکستان کے غریب سیاسی کارکنوں کو بچا لیاہے ۔ فی الحال میں پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ کیا لندن کے انتخابی نتائج کے بعد وہاں کی مخصوص لابی دولت کے بہائو کے ذریعے پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونے کے منصوبے سے باز آجائےگی یا نہیں۔ چنانچہ صادق خان کی شکل میں پی پی پی کے غریب سیاسی کارکنوں نے اُس ذہنیت کو شکست سے دوچار کردیا ہے جوپاکستانی سیاست میں پراکسی بازو قائم کرتے ہوئے غریب اور محنت کش طبقے کودیوار کے ساتھ لگا کر سیاسی بیانیے کو اپنے حق میں کرنا چاہتی تھی۔ ترقی یافتہ جمہوریتیں اور عالمی سیاست نے یہ سیکھ لیا ہے کہ جمہوریت کس طرح معاشی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ اُنھوں نے اپنے معاشرے میں عوامی فلاح کی تبدیل ہوتی ہوئی ضروریات کو دیکھتے ہوئے سیاسی معیشت کو اپ ڈیٹ کرلیا ہے ۔ سیاسی معیشت سے مراد کسی معاشرے کو بیک وقت سیاسی اور معاشی طور پر اس طرح ترقی دینا ہےکہ ایک میں بہتری لانے سے دوسرا مثبت سمت میںترقی کرے ۔ معاشرے کو افراتفری، انتشار اور بدنظمی سے بچانے کے لئے اس میں آنے والی سماجی اور معاشی تبدیلیوں میں توازن پیدا کرنا ضروری ہے ۔ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کا کردار بہت ضروری ہے۔ لیکن یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ پارٹی قیادت، تنظیم اور پارٹی کے اہم کارکن حکومت کا تعین کرتے ہیں۔ بیسویں صدی میں ہونے والی بے مثال مشینی ترقی نے عالمی معاشی سرگرمیوں کو بے حد متاثر کیا ہے ۔ فضائی سفر نے کرہ ٔ ارض کے گوشے گوشے تک چند گھنٹوں کے اندر رسائی کو ممکن بنا دیا ہے ۔ جدید ٹیلی کمیونی کیشن اور انٹر نیٹ نے مواصلات کے وقت کو گھنٹوںسے کم کرکے سیکنڈز میں تبدیل کردیا ہے ۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ تبدیلیاں راتوں رات نہیں آئیں بلکہ ان کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا تھا۔ آج کی دنیا میں علاقوں پر قبضہ کرنابڑی طاقتوں کےلئے بھی ممکن نہیں کیونکہ دنیا کو وسائل کی کمی اور مسائل ، بشمول دہشت گردی کے خلاف طویل ہوتی ہوئی جنگ کی زیادتی کا سامنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بڑی طاقتیں ترقی پذیر ممالک کی معیشت پر اس طرح اجارہ داری حاصل کرکے وہ مقاصد پورے کرلیتی ہیں جو اس ریاست میں ان کی عملی موجودگی سے بھی شاید حاصل نہ ہوپاتے ۔ پاکستان میں سرمایہ داروں اور جاگیردار وں پر مشتمل حکمران اشرافیہ اس ملک کی آزادی کے وقت سے ہی غیر ملکی طاقتوں کو اس مقصد کے لئے اپنی خدمات پیش کرتی رہی ہے ۔ ان کی نوجوان نسل نے بھی بڑوں کو دیکھ کر مفاد پرستی کی سیاست اپنا لی ہے ۔ وہ بھی مال بنانے کےلئے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی عوام اشرافیہ ، جاگیردار طبقے اور سماج دشمن عناصر کو انتخابات میں ووٹ کی طاقت سے شکست سے دوچار کرتے ہیں، توکوئی نہ کوئی نجات دہندہ بن کر میدان میں آجاتا ہے ۔ اس طرح ملکی ادارے مفلوج اورعوام کی مدد سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کردارانتہائی افسوس ناک ہے ۔ وہ آئین کے نام پر اپنے اختیار کو غلط طریقے سے استعمال کرتا ہے ۔ پی پی پی مشرف کے بعد سے رجسٹرڈ پارٹی نہیں ہے ۔ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو اور میں نے الیکشن کمیشن کے ایکٹ کو 2004ء میں سپریم کورٹ میںچیلنج کیاجب ای سی پی نے پرویز مشرف کے فصلی بٹیروں کو پارٹی کانام استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ ہمارا کیس زیر ِ التوا رہا یہاں تک کہ 2007ء میں اُن موقع پرستوں نے خود ہی پارٹی کو تحلیل کردیا۔ پی پی پی وہ واحد پارٹی ہے جوفی الحال رجسٹرڈ نہیں ہے جبکہ دیگر 260سے زائد سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، حالانکہ اُن میںسے کچھ پارٹیوں کے رہنما افغانستان میں رہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے نزدیک ووٹ کی طاقت ایک خاص سمت اختیار کرنی چاہئے۔ پی پی پی کے کارکنوں کے سامنے الجھن یہ ہے کہ اُنہیں کثیر جہتی طاقتوںسے بیک وقت جنگ کرنی ہوتی تھی ۔ اس وجہ سے وہ کمزور ہوتے چلے گئے جبکہ اقتدار کے مزے لوٹنے والے ٹولے نے خود کو توانا کرلیا۔ چنانچہ یہ بات تعجب خیز نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی پی پی کے کارکنوں کی جدوجہد میں کمی واقع ہوتی گئی ۔ اس کی وجہ سے پارٹی سیاسی میدان میں کامیابی حاصل نہیں کرپارہی ۔ اس گھٹاٹوپ ا ندھیرے میں روشنی کی کرن بھی ہویدا نہیں ہے ۔ اس عالم میں پی پی پی کے وہ روایتی کارکن مایوس ہیں جو کبھی اپنی جدوجہد اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے اشرافیہ کے برج الٹ دیتے تھے ۔ان کارکنوں نے پولیس تشدد، سیاسی جبر اورریاستی طاقت کا مقابلہ کیا لیکن اپنی سیاسی ساکھ مجروح نہ ہونے دی۔
ضرور ی ہے کہ ان کارکنوں، جو پی پی پی ہی نہیں ملک کے جمہوری کلچر کا بھی اثاثے ہیں، کو اعتماد دیا جائے ۔ آج پی پی پی بھی شرمندہ ہے ، میں بھی شرمندہ ہوں کہ اس پارٹی کی بے مثال قیادت، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لئے قربانی پیش کی ، سابق دور میں پی پی پی کے کارکنوں کے خلاف ہر قسم کا جبر روارکھا گیالیکن اُنھوں نے آگ اور خون کا دریا تیر کر جمہوری سفر کو جاری رکھا۔ مجھے یقین ِ کامل ہے کہ یہ کارکن نہ تو بدعنوان ہیں اور نہ ہی یہ اس نظام سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ جس ٹولے نے پی پی پی کے نام پر لوٹ مار کی ،اُس کے ہاتھوں ہی پی پی پی پر ظلم ہوا۔ پی پی پی کا جیالا بلاول بھٹو پراعتماد کرتا ہے اور اسی کے ذریعے اپنا سیاسی تسلسل چاہتا ہے ۔ اس وقت صادق خان کی فتح نے ان جیالوں کے تن میں زندگی کی لہر دوڑادی ہے۔ ضروی ہے کہ ایسا شفاف سیاسی کلچر پاکستان میں لایا جائے جس میں عام آدمی کامیاب ہوکر اس سیاسی جمود کو توڑے جس میں ہم کئی عشروں سے ساکت وجامد ہیں ۔