• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ اب یہ راز پردے سے باہر آچکا ہے کہ امریکہ نے ویتنام میں شکست کا بدلہ ایک مقدس اسلامی فریضے کی آڑ لے کر کس طرح سوویت یونین سے چکایا۔ پھر بھی ہمارے بعض کرما فرما جب اس جہاد کو برحق اور پاکستان کے مفاد کا ماحصل قرار دیتے ہیں تو ان کی تجاہل عارفانہ کو داد دیئے بغیر رہا نہیں جا سکتا، اس جہاد کے چشم دید گواہ بریگیڈیئر یوسف اپنی تصانیفThe Silent Soldier اور The Bear Trip میں بعض ایسے راز طشت ازبام کر جاتے ہیں کہ جو اصل و نقل کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں ”میں محسوس کرتا ہوں افغان جہاد کا صرف اور واحد فاتح امریکہ ہے اور شکست خوردہ وہ افغان ہیں جن کے گھر تباہ ہوئے نوجوان ہلاک، بچے یتیم، عورتیں بیوہ اور بوڑھے بے آسرا ہوئے“ امریکہ یہ سب کچھ ڈھکے چھپے انداز میں نہیں کھلے بندوں کر رہا تھا، امریکی کانگریس کے نمائندے چارلس ولسن کے حوالے سے جارج ارنی اپنی کتاب ”افغانستان جارج ارنی صفحہ 157 میں لکھتے ہیں“ دوران جنگ موصوف نے کہا کہ ویتنام میں 58 ہزار امریکی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ ابھی تک ”جہاد“ میں صرف 25 ہزار روسی مارے گئے ہیں 33 ہزار کا حساب تو بے باق کرنا ابھی باقی ہے“ جبھی تو امریکہ نے علی الاعلان کہا تھا۔
To fight the russian to the last Afghan یہ تو بھلا ہو سوویت یونین کا کہ وہ مکمل طور پر بکھرنے سے قبل افغانستان سے نکل بھاگا وگرنہ امریکہ کا کلیجہ 30 لاکھ افغانوں کے قتل پر کہاں ٹھنڈا ہونا تھا اس نے تو آخری افغان تک روسیوں سے جنگ کرنے کی منصوبہ کر لی تھی۔ خیر یہ تو ان نصرانیوں کی چال تھی جو قرآن مجید کی رو سے مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلمان بھی اس کھیل میں برابر کے شریک تھے گواہی بریگیڈیئر یوسف کی کتاب کے صفحہ 63 پر یوں موجود ہے ”امریکی افغانستان کو سوویت یونین کیلئے ویتنام بنانے کا ایسا عطیہ خداوندی سمجھتے تھے جس کے وسیلے سے امریکیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالے بغیر روسیوں کو قتل کیا جا سکے گا اس حوالے سے جنرل اختر عبدالرحمن ان سے متفق تھے“ پھر جب طبل جنگ بجا تو ایسے ایسے کھیل رچائے گئے کہ اصل اسلام مظلوم بنا تماشا ہی دیکھتا رہ گیا، وہ اسرائیل جس نے قبلہ اول پر قبضہ کر رکھا ہے مجاہدین کی تربیت پر داد پانے لگا Seignrow Harsh کی خود نوشت Samson Option میں وہ تفصیلات ہیں جن کے مطابق دنیا بھر سے آئے ہوئے مجاہدین کو کس طرح اور کون تربیت دیتا تھا اس میں تربیتی تحقیقاتی ٹیموں کے مرکزی کردار اسرائیلی جاسوس آری بن مناشی (Ari Ben Menashe) کا ذکر خاص ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک اسرائیلی ٹیم تین سال تک گلبدین حکمت یار کے حزب اسلامی سے وابستہ ”مجاہدین“ کو ٹریننگ دینے پر مامور تھی۔
افغان جنگ میں ڈالروں اور امریکی اسلحے نے جو کمالات دکھائے اور امریکہ کے پاکستانی و افغان آلہ کار جس طرح اس جنگ میں پھلے پھولے، اگرچہ یہ سب کچھ عیاں ہو چکا ہے، بھولی بسری ان یادوں کو چھیڑنے کا مقصد مگر یہ ہے کہ اب بھی اس جنگ کے اثرات سے پاکستانی معاشرہ جان نہیں چھڑا پایا ہے۔ بات وہی کمبل والی ہو گئی ہے، جس ذوق و شوق اور ناقابل قرار مساعی سے امریکہ نے مجاہدین تخلیق کئے اور امریکی ایجنسیوں نے جس کمال ہنر مندی سے جہادی نصاب تک متعارف کرایا، سوچ کی جوہری تبدیلی کے بغیر اس کے اثرات کو زائل نہیں کیا جا سکتا۔ محض بیانات اور بے دل بھاگ دوڑ وقت کے ضیاع کے ماسوا اور کچھ نہیں، اصل تبدیلی کیلئے قرآن عظیم سے رجوع کرنا پڑے گا، بصورت دیگر قرآن فہمی و احادیث شناسی سے محروم سادہ لوح عوام کی آنکھوں سے جہاد اور فساد میں فرق اوجھل ہی رہے گا۔ حضرت اقبال ضرب کلیم میں اپنی نظم پنجابی مسلمان میں جو حکمت افروز بات کہہ گئے ہیں ملاحظہ فرمائیں وہ آج سب پاکستانیوں پر کتنی صادق آتی ہے۔
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگاد ے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
جب افغانستان سے مجاہدین کی پاکستان آمد شروع ہوئی تو ابتدا میں امریکہ نے یو این ایچ سی آر(اقوام متحدہ کا ہائی کمشنر برائے مہاجرین) سے ملکر افغان مہاجرین کیلئے ذہنی تبدیلی پروگرام شروع کیا افغان مہاجرین کمشنریٹ میں ایک تعلیمی سیل قائم کیا گیا اس پروگرام میں مختلف غیر ملکی این جی اوز کا بڑا کردار تھا اس سلسلے میں صرف یو این ایچ سی آر نے 2 ہزار تعلیمی ادارے قائم کئے ان میں انتہا پسند مذہبی تعلیم پر زور دیا گیا ہوتا تھا افغانستان کی مذہبی جماعتوں نے مدرسے قائم کئے جبکہ ان کی حوصلہ افزائی کیلئے صوبہ سرحد (پختونخوا)میں تقریباً تمام تعلیمی اداروں میں افغان مہاجرین کیلئے نشستیں مختص کی گئیں۔ پشاور میں دھڑا دھڑ پرائیویٹ اسکول اسلامی ناموں سے کھلنا شروع ہوئے افغان مزاحمت کے اسلامی پہلو نے مذہب اور سیاست کے درمیان ایک قریبی تعلق پیدا کیا جس کے باعث صوبے کے مقامی لوگوں اور مہاجرین نے ایک ہزار مدرسے اور دارالعلوم قائم کئے یہ سب مشرق وسطیٰ کے ممالک کی امداد سے افغان جہاد کو ایک نظریاتی بنیاد فراہم کرتے تھے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 1980ء کے ابتدائی عشرے میں یو ایس گرانٹ کے ذریعے یونیورسٹی آف اسکااوماہا کے افغانستان سینٹر میں کئی ملین ڈالرز کی لاگت سے بنیاد پرستی، انتہا پسندی پر مبنی جہادی مواد پر مشتمل کتابیں شائع ہوئیں جو مذکورہ اسکولوں کے نصاب کا حصہ تھیں، ان میں بندوقوں، گولیوں، سپاہیوں اور بارودی سرنگوں کی ڈرائنگ بڑی نمایاں ہوتی تھی۔ پرائمری کی سطح پر حساب کی کتاب میں عام سوالوں کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہوتا تھا … اگر 10 دہریوں (کمیونسٹوں) میں سے 5 کو ایک مسلمان قتل کرے تو باقی رہ جائیں گے 5 …
5 بندوقیں + 5 بندوقیں = 10 بندوقیں
15 گولیاں- 10 گولیاں = 5 گولیاں
روس کیخلاف جنگ کے دوران نصابی کتب کے علاوہ دیگر انتہا پسند مطبوعات پر بھی بڑا کام ہوا، پشاور میں افغانستان کی گیارہ تنظیمیں روس مخالف مواد اور تاریخی کتب کے ترجموں میں مصروف کار تھیں۔ اس تمام عرصے میں جہاد اور مزاحمت کے موضوع پر پشتو میں 129 کتابیں لکھی گئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1986ء تا 1992ء پاکستانی کیمپوں میں سی آئی اے اور برطانیہ کی ایم 16 کی پشت پناہی سے برطانوی ایس اے ایس نے ایک لاکھ سے زائد ایسے عسکریت پسندوں کو تربیت دی جو بم بنانے اور دیگر جنگی مہارتوں کے حامل تھے اس کو آپریشن ”سائیکلون“ کا نام دیا گیا۔جنوبی ایشیاء کے امور کے امریکی ماہر سلیگ ہیرسن نے دنیا بھر سے اسلامی گروپوں کو افغانستان میں جمع کرنے کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے اس وقت امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ ”امریکی ایک دیو بنا رہے ہیں“ بلاشبہ یہ دیو عین اپنی فطرت کے مطابق اپنے خالق امریکہ کی قدرت سے اب باہر ہو گیا ہے لیکن یہ بہرکیف امریکہ کا درد سر ہے کہ وہ اس دیو کا مقابلہ کیسے کرتا ہے !! البتہ ہم اس دیو سے کیا سلوک کریں یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے !!
تازہ ترین