• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رپورٹ: نصرت امین

طلعت اقبال ماضی میں ہمارے پڑوسی ہوا کرتے تھے۔ اسی لئے محلے میں ان کے ٹی وی ڈرامے زیادہ ذوق و شوق سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کی فلمیں بھی فیملی کے ساتھ سینما جاکر دیکھی ہیں۔ ان میں فلم ’آگ اور آنسو‘ آج بھی یاد ہے۔ اس فلم میں احمد رشدی اور مہناز کے گائے ہوئے ایک گیت ’سونے دو‘ کی پکچرائزیشن، برسوں بعد ایک ہندوستانی فلم میں سونو نگم کے گائے ہوئے گیت ’مجھے رات دن‘ میں کسی حد تک نقل کی گئی۔

فلم میں اس وقت کی مایہ ناز اداکارہ بابرہ شریف، طلعت اقبال کی ہیروئن تھیں جب کہ ہمارے دوست گلّو بھائی یعنی غلام محی الدین نے ایک زوردار ولن کا کردار ادا کیا۔

طلعت نے اس کے علاوہ چند اور فلموں میں بھی کام کیا۔ ان کی شادی معروف اداکارہ سنبل سے ہوئی تھی۔ طور طریقوں والے آدمی تھے اور عموماً سفاری سوٹ پہنا کرتے تھے۔

طلعت اقبال فلموں کے ’چاکلیٹی دور‘ کی علامت ہیں۔ اس دور کے فلمی مواد (کہانی) میں مار دھاڑ اور ماچوزم کے مقابلے میں مردوں (فلمی ہیروز) میں نزاکت اور خوبصورتی کو نسبتاً زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ شاید اسی لئے پاکستان میں وحید مراد، بھارت میں راجیش کھنّہ اور برطانیہ/ہالی وڈ میں سر راجر مور جیسے اداکار مشہور ہوا کرتے تھے۔

لیکن فلموں کا یہ چاکلیٹی دور انتہائی مختصر ثابت ہوا، اور اسی دور میں طلعت اقبال بھی اپنی رومانی نزاکت اور مکالموں کی خوبصورت ادائیگی کی وجہ سے منظر عام پر آئے اور خاصے مقبول ہوئے۔ البتہ ایک تاریخی کھیل میں انہوں نے طاہر بن یوسف کا کردار ادا کرکے، اپنے اوپر لگی نازک مزاجی اور رومانیت کی چھاپ بھی ہمیشہ کے لئے مٹا ڈالی۔

بحیثیت اداکار شاید طلعت اقبال کے لئے یہ تبدیلی، ایک پیشہ ورانہ کامیابی ہو، میرے لئے ان کا ’چاکلیٹی‘ دائرے سے نکلنا کوئی مثبت بات نہیں تھی۔ لیکن صرف طلعت ہی کیا، راجیش کھنّہ اور راجر مور سمیت دنیا کے کئی نامور چاکلیٹی اداکاروں کو وقت کے ساتھ، اپنے انداز میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں لانا پڑیں۔ البتہ وحید مراد وہ واحد اداکار تھے جنہوں نے اوّل تا آخر اپنے بے مثال کیریئر میں اپنی غیر معمولی حد تک چاکلیٹی شناخت کبھی ختم یا مدھم نہیں ہونے دی۔

کچھ عرصے سے طلعت اقبال سے فیس بک پر کبھی کبھی رابطہ ہوجایا کرتا تھا۔ ان کے اسپتال میں داخل ہونے کی اطلاع ملی، تو ایک سے زیادہ بار خیریت پوچھنے کی کوشش کی، لیکن انتظار کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں، ایک بار طلعت ہمارے محلے میں اپنے پرانے گھر اور وہاں کے نئے مکینوں سے ملنے آئے۔ 

میں نے ان کو گھر کے سامنے کھڑا دیکھ کر، صرف شوق میں ان سے ٹائم پوچھ لیا۔ اگرچہ اس لمحے اُن کا چہرہ دوسری جانب تھا، لیکن وہ فوراً مڑ کر اپنی گھڑی دیکھنے لگے، ’بیٹا، دس بج کر چالیس منٹ ہوئے ہیں،‘ ان کا یہ فوری جواب مجھے آج بھی یاد ہے۔ (نئے جہاں میں بھی مقبول اورخوش رہیے طلعت اقبال!)

تازہ ترین
تازہ ترین