اسلام آباد (مہتاب حیدر) حکومت درجنوں لگژری اشیاء کی درآمد جیسے کہ گاڑیاں، کاسمیٹکس، ماسٹر باتھس ، وارنش ، اسٹیشنری ، ٹیکسٹائل کی مختلف مصنوعات ، سویٹنرز ، غیر ضروری کھانے کی اشیاء اور دیگر کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی (آر ڈی) کو بڑھانے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔
حکومت نے بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے مالی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو پہلے دو ماہ (جولائی اور اگست) 2021 میںپہلے ہی 2.3 ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے گزشتہ ہفتے اشارہ دیا تھا کہ حکومت نے معیشت کو گرنے سے بچانےکے لیے درآمد شدہ لگژری اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی (RD) لگانے جیسے مالی اقدامات کا منصوبہ بنایا ہے۔
اعلیٰ سرکاری ذرائع نے دی نیوز کو تصدیق کی کہ تمام متعلقہ وزارتیں لگژری امپورٹڈ آئٹمز کی فہرستیں تیار کر رہی ہیں جن پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح کئی گنا بڑھا دی جائے گی تاکہ بڑھتے ہوئے درآمدی بل کو کم کیا جا سکے۔
ٹیرف پالیسی بورڈ کا اجلاس آئندہ ہفتے ہونے والا ہے اور بورڈ کے آئندہ اجلاس میں غور و خوض اور فیصلہ سازی کے بعد پھر ای سی سی اور کابینہ کی منظوری کے لیے ایک سمری پیش کی جائے گی۔
وزیر تجارت کا قلمدان وزیر اعظم عمران خان کے پاس ہے لہٰذا وزیر اعظم کے مشیر تجارت کے ساتھ وزراء فہرست کو حتمی شکل دیں گے جس پر آر ڈی میں اضافہ کیا جائے گا،پھر حتمی فیصلہ لینے کے لیے سمری مجاز فورمز کو بھیج دی جائے گی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 2 سے 3 فیصد کی حد میں پیش کیا ، جو رواں مالی سال 6 سے 9 ارب ڈالر کے برابر ہے۔ تاہم آزاد معیشت دانوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ جون 2022 کے آخر تک یہ 10 سے 12 ارب ڈالرز تک بڑھ سکتا ہے۔
بڑھتی ہوئی درآمدات اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور شرح تبادلہ اور مالیاتی پالیسی پر اقدامات کرنے کے بعد اب حکومت بڑھتی ہوئی درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے آر ڈی اور سی ڈیز کو تھوپنے کے انداز میں مالی اقدامات کے نفاذ کے لیے آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔