پیرزادہ شریف الحسن عثمانی، سکھر
دُنیا بَھر میں ہر سال اقوامِ متحدہ، ایجوکیشن انٹرنیشنل(ای آئی ) اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اشتراک سے 5اکتوبر کو’’ اساتذہ کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اساتذہ کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے،کیوں کہ مُلک و ملّت کے معمار ان ہی کے ہاتھوں پروان چڑھتے اور ترقّی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ اِمسال اس یوم کے لیے جس تھیم کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ "Teachers At The Heart Of Education Recovery" ہے۔ یعنی اساتذہ تعلیم کی بحالی کا مرکز ہیں۔ دراصل حالیہ وبائی ایّام میں اساتذہ کی ذمّے داریوں میں کئی گُنا اضافہ ہوا، مگر وہ جس عزمِ ِصمیم کے ساتھ تعلیم کی بحالی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں، وہ قابلِ ستائش ہے۔
ازمنۂ قدیم ہی سےمعاشرتی اقدار کے فروغ و نمو میں اساتذہ کا کردار خاص اہمیت کا حامل رہاہے۔ اساتذہ کے بغیر کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقّی ممکن نہیں کہ ان ہی کے کاندھوں پر قوم کی تعلیم و تربیت کی بھاری ذمّے داری ہے۔ جس طرح ایک معمار کسی عمارت کی بنیاد کی پہلی اینٹ سے لے کر اس کی تکمیل کے آخری مرحلے تک اس کی خُوب صُورتی، پائیداری اور مضبوطی کا ذمّے دار ہوتا ہے، بالکل اِسی طرح استاد بھی معاشرے میں افراد کے علم و ہنر اور فکر و عمل کی تعمیر و تشکیل کا ضامن ہے۔
اچھے بُرے، صحیح و غلط، گناہ و ثواب ان سب کا شعور تعلیم ہی کے ذریعے بیدار ہوتا ہے کہ علم کے بنا انسان درست راہ پر چلنا تو درکنار، اس کی سمت تک سے آشنا نہیں ہوسکتا۔ تعلیم ہی انسان کو انسان بناتی ہے۔ اس کے ذہن کو وسعت دیتی ہے اوراس کی صلاحیتوں کو جِلا بخشتی ہے۔ مختصر یہ کہ تعلیم انسان کو اشرف المخلوقات کے رتبے پر فائز کرتی ہے اور بنا کسی استاد کے حصولِ علم کا تصوّر ممکن نہیں۔ اساتذہ کے مقام و مرتبے کی بات کی جائے تو یہ عزّت و توقیر کے حوالے سے بُلند ترین مقام رکھتے ہیں اور بجا طور پر اس کے مستحق بھی ہیں، کیوں کہ اگر آج کسی کے بھی پاس کوئی علم یا ہنر ہے، تو وہ یقیناً کسی نہ کسی استاد ہی کا مرہونِ منّت ہے۔
نبی پاک ﷺ کا یہ فرمان کہ ’’مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ اساتذہ کی حیثیت کی تکریم کا نکتۂ معراج ہے۔ اور ایک دَور تھا، جب لوگوں کو اساتذہ کی اس عظمت کا پاس ہوا کرتا تھا۔ بڑے بڑے اُمراء و رؤساء، اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے تھے۔ بڑے بڑے جاگیردار، وزیر، کبیر اور بادشاہ اپنے اساتذہ کے سامنے سَر جُھکا کر بات کرتے، اُن سے نظریں تک ملانے کی تاب نہیں رکھتے تھے۔ اِسی طرح اساتذہ بھی پورے اِخلاص، توجّہ اور محنت سےطلبہ کو علم سے سیراب کرتے۔ وہ بے غرضی، خلوص اور ادب و احترام کا زمانہ تھا۔
اساتذہ کا نصب العین محض علم کا فروغ ہوا کرتا۔ روپے پیسے، دھن دولت ،منصب و مرتبے انہیں کسی چیز سے کوئی غرض نہ تھی۔ لیکن اب تو صُورتِ حال کچھ یوں ہوگئی ہے کہ بعض بدقسمت طلبہ استاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فضول بحث کرنے کو اپنی شان سمجھتے ہیں اور ایسے میں بد کلامی و بدزبانی سے بھی نہیں چوکتے، جب کہ ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں، جو تدریس کو محض حصولِ روزگار کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور انہیں طلبہ کی ذہنی و فکری نشوونما سے کوئی سروکار نہیں۔ یعنی کسی نہ کسی حد تک دونوں طرف بگاڑ پیدا ہو چُکا ہے۔
اصول ہے کہ جو شخص معاشرے میں جتنے اہم اور بُلند مقام پر فائز ہوتا ہے، اُسی اعتبار سے اس پرذمّے داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ عام طور پراساتذہ پرتعلیم و تربیت اورطلبہ کی کردار سازی کی ذمّے داری عائد ہوتی ہے، لیکن موجودہ حالات سامنے رکھیں، تو اساتذہ کی ذمّے داریاں اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہیں۔ دو برسوں سے جاری وبائی صُورتِ حال کے سبب پے در پے لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے درس گاہوں کی بندش نے تدریسی عمل کا تسلسل سخت متاثر کیا ہے ۔ اسکول جانے والے بچّوں کی ایک معقول تعداد اسکولز کو خیرباد کہہ چُکی ہے اور ’’حاضر اسکول‘‘ باقی ماندہ بچّوں کی تعلیمی دِل چسپی میں بھی نمایاں طور پر کمی نظر آتی ہے۔
طلبہ کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے ،جو آن لائن کلاسز کو درس گاہوں کا متبادل سمجھنے لگی ہے، حالاں کہ یہ بات طے ہے کہ صرف کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھ کر کوئی بھی شخص ڈاکٹر، انجینئر، وکیل ، بینک کار یا پروفیسر نہیں بن سکتا۔ پیشہ ورانہ مہارت کا حصول درس گاہوں کے بغیر ممکن نہیں، اس کے لیے تدریسی ماحول اور اساتذہ سے براہِ راست تعلق لازمی ہے۔ مُلکِ عزیز میں خواندگی کی شرح ویسے بھی قابلِ رشک نہیں، لیکن اب تو لگتا کہ درس و تدریس کی گاڑی بالکل ہی پٹری سے اُتر چُکی ہے۔ بنا امتحان دیے یا محض اختیاری مضامین کا امتحان دے کر پاس ہوجانے والے طلبہ یقینی طور پرمستقبل میں تعلیمی میدان میں کم زور ثابت ہو سکتے ہیں۔
درس گاہ میں ہر گزرتے دِن کے ساتھ طلبہ فطری طور پر ایک دوسرے سے بھی کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں، مہینوں گھروں میں فارغ بیٹھ جانے سے سیکھنے کے اس فطری عمل میں پیدا ہونے والا خلا لازمی طور پر ان کی صلاحیتوں پر بھی اثر انداز ہوگا، مگراس پہلو کی طرف کوئی توجّہ نہیں دی جارہی اور اس کے مضرّات اور ثمرات پر غور نہیں کیا جارہا ہے۔ بہرحال، اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ تعلیمی نظام کو اب تک پہنچنے والا نقصان ناقابلِ تلافی ہے اور اللہ نہ کرے، اگر اسی طرح کی صُورتِ حال کا مزید سامنا رہا، تو مستقبل میں ایک ایسا تعلیمی بحران پیدا ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ناخواندگی کی شرح مزیدبڑھ سکتی ہے۔
ان حالات میں اس تمام تر نقصان کی تلافی اساتذہ کے لیے ایک اضافی ذمّے داری بن گئی ہے۔ انہیں طلبہ کا تعلیمی نقصان پورا کرنے کے لیے معمول سے زیادہ کوشش اور محنت کرنی ہوگی، تاکہ ہمارا آنے والا دَور جہالت کے اندھیروں میں غرق ہونے سے بچ سکے۔ مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں نے تو ان تشویش ناک حالات کے باوجوداپنی آنکھیں موند رکھی ہیں، جب کہ حقیقت کا تقاضا یہی ہے کہ مسلسل غیر حاضریوں کے سبب طلبہ کی تعلیم کا جو نقصان ہو چُکا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے اس کے ازالے کے لیے بَھرپور اقدامات کیے جائیں۔اس ضمن میں فوری سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ نیز، حکومت کا فرض ہے کہ وہ اساتذہ کو وہ تمام مراعات اور سہولتیں مہیا کرے،جن کی ان حالات میں اُنھیں ضرورت ہے، تاکہ وہ اپنے فرائضِ منصبی خوش اسلوبی سے ادا کرپائیں۔