• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لیجئے…کراچی میں ماورائے عدالت قتل، جگّا ٹیکس عرف بھتہ خوری، عوامی پارکوں پر قبضہ، قبرستانوں میں زندہ لوگوں کو آباد کرنے اور اسٹریٹ کرائم کا مسئلہ حل ہو گیا…! وفاقی محکموں میں بیوروکریسی جبکہ صوبائی محکموں میں ڈالرو کریسی کا راج ختم شد۔ وہ سرکاری بیان جو 23 مارچ 1956ئکے دن اسکندر مرزا کے لئے درباری زبان میں لکھے گئے تھے اُن میں تازہ نام لپیٹ کر نئے دور،جدید پاکستان اور ایٹمی زمانے کے غریبوں کو چُونا لگایا جا رہا ہے۔ اس اصولی موقف پر مبنی روڈ میپ سے بلوچستان اور فاٹا کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔چُونا سفیدی کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور حسبِ ذائقہ سفید جھوٹ کو سکہ رائج الوقت بنانے کے لئے بھی۔ چُونے کا استعمال پوشیدہ مردانہ صلاحیتوں والے اشتہاروں کی دیواروں پر بھی ہوتا ہے۔ ان دیواروں کو پان کی پیک کے ذریعے ”آرٹ وال“ کے کلچرل رنگ میں تبدیل کرنے کے لئے بھی چونا بہت ضروری ہے۔ نئے زمانے کے سوشل میڈیا میں چونا سازی کی صنعت بین الاقوامی تجارت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ہر ای میل آئی ڈی اور ہر موبائل فون پر چونا فروش مہنگائی کے مارے ہوئے اور غربت کے ستائے ہوئے غریبوں کو کروڑوں امریکی ڈالروں اور پاؤنڈ اسٹرلنگ میں ملنے والے مفت کے انعام کا اعلان پہنچاتے ہیں مگر ساتھ ہی چند ہزار بیرونی سکوں کے عوض بھاری رقم آپ کے دروازے پر ہوم ڈلیوری کی شکل میں لے آنے کا پکا وعدہ کرتے ہیں، قسمت آزمانے میں حرج ہی کیاہے؟چونا لگانے والے بربادی کی ہر واردات کے بعد ٹی وی اسکرینوں اور اخباری شہ سرخیوں پر چھا جاتے ہیں کہ اب پاکستان میں بدامنی کی اجازت نہیں ہو گی۔ اگر کوئی چونا گر چوری ڈکیتی کے کسی مقدمے میں تفتیشی افسر لگ جائے تو وہ فوراً چوریوں اور مسلح ڈکیتیوں کا اجازت نامہ ان الفاظ میں منسوخ کر کے اپنا محکمانہ فرض ادا کرتا ہے ”میری موجودگی میں کسی کو چوری چکاری کی اجازت نہیں ہو گی“۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں پاکستان بھر کے چونا لگانے والے کھل کر کھیلتے ہیں۔ جو چیزیں سارا سال اسٹوروں میں سڑتی ہیں وہ روزے کی قسمیں کھا کر اور ستائیس رمضان کے بعد اسٹاک کلیئرنس کے ساتھ دکان فروخت کرنے کے اعلان کی وجہ سے فوراً بِک جاتی ہیں۔ جسے یقین نہ آئے وہ سرکار کے سستے بازاروں یا مہنگے ڈنر افطاروں میں جا کر دیکھ لے۔ اس وقت جو سستا آم، سیب اور کیلا سرکار کی ”فضائی نگرانی“ میں سستے بازاروں میں سجایا گیا ہے اُسے پالتو طوطے بھی نہیں چکھ سکتے۔ مارکیٹ کمیٹیوں کے چونا کاریگر سرکاری گاڑی سے اترتے ہی اعلان کرتے ہیں ”ہم سستے بازار کو مہنگا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے“۔ آخر ان کا بھی حق ہے کہ وہ چونے کے اس سیزن میں اپنے حصے کا وائٹ واش کریں۔ہمیں اب تو یوں لگتا ہے کہ چونا لگانا عنقریب قومی کھیل ڈکلیئر ہو جائے گا کیونکہ قومی معاملات میں ہماری انقلابی چونا پالیسی یہ ہے کہ ہم مصر میں فوج کے کردارکی مذمت کے ساتھ ہی مصری فوج پر واضح کر دیتے ہیں کہ ہم انہیں جمہوریت لپیٹنے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن ہمیں اپنے سجیلے سپاہی کشمیر کے شہید عاصم اقبال کے حق میں بیان دینے کا وقت نہیں ملتا۔ نہ ہی کوئی لیڈر قابض بھارتی فوج کی مذمت کرتا ہے۔ آپ پوچھیں گے کون عاصم اقبال؟ غازیوں اور شہیدوں کے خطے پوٹھوہار کا وہ سپاہی جس کو مادرِ وطن کی سرحدوں کی رکھوالی کرنے کے جرم میں بھارتی فوج نے ہفتے کی صبح ساڑھے دس بجے نیزہ پیر بارڈر پر شہید کر دیا۔ ہمیں تو گوادر کوسٹ گارڈ کی چیک پوسٹ پر حملے اور دس جوانوں کی شہادت دو جوانوں کے اغوا اور پانچ کے زخمی ہونے کی اطلاع بھی نہیں مل سکی، ہنگو اور اسپن ٹل کے چند شہری اور اہلکار ہمیں چھوڑ گئے تو کیا ہوا؟ ملک کو مضبوط کرنے کے لئے ستائیس رمضان سے پہلے ایک مضبوط سربراہِ ریاست کا بھاری مینڈیٹ ضروری ہے۔ اسی لئے پچھلے پانچ سالوں کی گلی سڑی اور بدبودار مفاہمت کی سیاست کو نیا اور تازہ دم چونا لگا کر برادرانہ انداز میں آگے بڑھایا جائے گا تاکہ جس کے پاس جو کچھ ہے اور جہاں بھی ہے اُسے ویسے ہی برقرار رکھ کر ”اسٹیٹس کو“ کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ دو سو گھرانوں اور دو ہزار شہریوں پر مشتمل جمہوریت کے عظیم سرمائے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ بلکہ اور بھی محفوظ بنایا جاسکے۔ جمہوریت کے یہ قلعے اب کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں۔ اس لئے اب ہم کسی کو بھی ڈرانے ورانے کی اجازت نہیں دیں گے۔کچھ بدگمان گروہ کہتے تھے کہ ڈرون حملے نہیں رُک سکتے۔ اب دیکھ لو ہم نے کسی کو بھی ڈرون حملوں کی اجازت نہیں دی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ چونا پالیسی کی اس تبلیغی مہم میں مزید اضافہ ہو اور کوئی مردِ میدان اُٹھ کر مون سون بارشوں کی طوفانی لہروں کو یوں للکار دے۔ اب ہم سیلابی ریلے کو غریب کسانوں کے گھروندے اور کھلیانوں کو روندنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ولادی میر ایلچ اولیانوف کے نام سے دس اپریل 1870ء کے روز روس کے شہر سمبرسک میں واقع دریائے اولگا کے کنارے پیدا ہونے والے بچے نے تاریخ کا دھارا بدلا تھا۔ اس کا کتابچہ ”فیکٹری کا نیا قانون“ زارِ روس کی سلطنت لے ڈوبا۔ اس کتابچہ میں کیرلوف کے مشہور قصے ”شیر شکار پر“ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ولادی میر ایلچ نے لکھا کہ زائد وقت یا اوورٹائم کے کام کے بارے میں نیا قانون ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح شیر نے اپنے شکاری ساتھیوں کے درمیان شکار کو تقسیم کیا۔ ”پہلا حصہ اس نے اپنے حق کے مطابق لیا، دوسرا حصہ اس لئے لیا کہ وہ جنگل کا بادشاہ ہے، تیسرا حصہ اس لئے کہ وہ سب سے زیادہ طاقتور ہے اور چوتھا حصہ جو بھی اپنا پنجہ اس کی طرف بڑھائے گا اپنی جگہ سے سلامت نہیں اٹھے گا“۔ ولادی میر نے مزید کہا کہ سرمایہ داروں کا رویہ ایسا ہی ہے جو غریب مزدوروں کا بے رحمی سے استحصال کرتے ہیں۔ اس کتاب کے مصنف کا عوامی نام لینن ہے۔ لینن نے روس کو طاقتور بنانے کیلئے سرمایہ داروں کی شکست، سرمائے کی تقسیم اور محنت کشوں کے اقتدار کو طاقت کا سرچشمہ بنایا۔ ہمارے ہاں چونا لگانے والوں نے ستلج اور بیاس جیسے دریا خشک ہونے کا انتظار کیا۔ کالا باغ ڈیم کی مشینری پر کئی ٹن مٹی اور کئی کروڑ پودے اگنے دیئے۔آج بھارت ہماری توجہ آبی جارحیت سے ہٹانے کے لئے سرحدی جارحیت کی پالیسی اپنا رہا ہے۔ بگلیہار کے بعد کشن گنگا اور اب ان دونوں سے بڑا ریتل ڈیم بنا کر دریائے چناب کو خشک کیا جا رہا ہے۔ ہم بھارتی آلو ، پیاز اور مرچی کھانے سے ”جڑے“ ہوئے ہیں۔ بڈھاراوی پہلے ہی گندا نالہ بن گیا ہے۔ جہلم کا پانی سرنگوں کے ذریعے بھارت چوری کررہا ہے۔ شورش کاشمیری نے بہت پہلے ہمیں یوں مخاطب کیا تھا:
او مرے پنجاب! تیرے سادہ دل لوگوں کی خیر
لے لیا سر مفت کا الزام ، تیرا شکریہ
پانچ دریاؤں کی مٹی بانجھ ہو کر رہ گئی
مچ گیا چاروں طرف کہرام، تیرا شکریہ
کالا باغ ڈیم نہیں بنا تو کیا ہوا؟ ہم نے ہزمیجسٹی کے ایک حلفیہ غلام کو آزاد پنجابی بنا لیا ہے۔ اب وہ کھڑک سنگھ کی حویلی کے پڑوس میں واقع شناختی کارڈ دفتر سے شناخت پریڈ کرائے تاکہ پاکستانی کرنسی میں ایک عدد ڈالر اکاؤنٹ کا اضافہ ہو سکے۔ ویسے بھی ہمارا آئین دہری شہریت رکھنے والے کسی غریب پاکستانی کو یا پیر عطا قاسمی جیسے کسی صاحبِ علم و فضل اور دانشورکو کوئی معقول عہدہ دینے سے منع کرتا ہے۔
تازہ ترین