• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے ہر خطے، مذہب، معاشرے اور طبقے سے وابستہ شخص کامیابی کی چاہ میں مبتلا ہے، کامیاب ہونا چاہتا ہے مگر کامیابی حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ عموماً کامیابی سے مراد مادی کامیابی کو ہی لیا جاتا ہے حالانکہ اس کی کئی دیگر صورتیں بھی ہیں۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے لوگ تو زندگی کی بنیادی سہولیات کے حصول کو ہی کامیابی کا درجہ دے کر ان کے گرد چکر کاٹتے زندگی گزار دیتے ہیں۔ کون ہے جسے کامیابی، بلند معیارِ زندگی، آسائشات اور آسانیاں درکار نہیں؟ ہر شخص ہوش سنبھالتے ہی خود کو معاشی، سماجی، تکنیکی اور تعلیمی جدوجہد کی دوڑ میں مشغول پاتا ہے۔ ساری زندگی درِ امید پر دستکیں دیتے گزار دیتا ہے لیکن کامیابی ہے کہ چند ایک کے لئے دروازہ وا کرتی ہے۔ ہر شخص اپنے تئیں کوشش کرتا، بہترین صلاحیتیں بروئے کار لاتا اور سخت محنت کرتا ہے لیکن پھر بھی کامیاب نہیں کہلا پاتا عموماً مقدر پر ملبہ ڈال کے انگوروں کے کھٹا ہونے پرشاکی رہتا ہے۔ مقدر کامیابی کی پہلی سیڑھی ضرور ہے لیکن بامِ عروج پر پہنچنے کے لئے درست راستے، لگن، خود سپردگی، خلوصِ نیت، عزم اور بےپناہ کوشش کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔

میں نے جب ہوش سنبھالا تو والدہ کو والد کے متعلق بڑی بڑی باتیں کرتے سنا، ان کے مطابق محمد رفیع بٹ تقسیم سے پیشتر برصغیر کے کم عمر ترین صنعتکار، مسلمانوں کے پہلے بینک کے بانی، قائدِاعظم محمد علی جناح سمیت دیگر اہم ترین سیاستدانوں، بیوروکریٹس، تاجروں، صحافیوں اور سرکردہ شخصیات سے قریبی مراسم رکھنے والے دولتمند آدمی تھے۔ میں اپنے حالات دیکھتا تو خود کو لوئر مڈل کلاس میں پا کر جھنجھلا جاتا۔ معمولی سطح کا طالبِ علم ہونے کے باعث کسی اچھی ملازمت کے بارے میں سوچنا ہی وقت کا ضیاع سمجھتا، کاروبار کر نہیں سکتا تھا کہ اس کے لئے وافر سرمایہ درکار تھا جو میرے پاس تھا نہیں۔ یہاں تک کہ عزیز و اقارب سے یہی سنتا آیا کہ یہ عملی زندگی میں کچھ نہیں کر پائے گا۔ انہی حالات میں والدہ کی طرف سے موٹر سائیکل کی خواہش کے بدلے میں لے کے دی جانے والی کار( والدہ موٹر سائیکل کو غیرمحفوظ سواری قرار دیتیں) فروخت کرکے میں نے امریکہ جانے کا ارادہ کر لیا، اس عزمِ سفر کے پسِ پردہ کوئی معاشی مقاصد نہ تھے یہ اور بات ہے کہ بعد میں یہی مقصد بن گیا۔ ان دنوں امریکہ کا ویزہ حاصل کرنا اتنا دشوار نہ تھا، ویزہ اور ٹکٹس کے بعد ایک ہزار ڈالرز لے کر میں اور میرا ایک دوست نیویارک پہنچ گئے جہاں ہمارا کوئی جاننے والا تھا نہ مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح ایجنڈا۔ ہم نے سب سے پہلے ریٹرن ٹکٹس ضائع کیں تاکہ واپسی کی کشتیاں جلا دی جائیں۔ سیر و تفریح کے بعد جب پیسے ختم ہونا شروع ہوئے تو حصولِ ملازمت کے لئے مارے مارے پھرنے لگے۔ ایک دو ہوٹلز میں ویٹری کی جاب ملی لیکن چند ہی دنوں میں وہاں سے نکال دیا جاتا کہ میرا طرزِ عمل ویٹرانہ ملازمت سے مطابقت نہ رکھتا تھا، انہی دنوں میری ملاقات ایک پاکستانی سے ہوئی جو پاکستان سے قالین لے کر آیا تھا، اس سے یہ قالین فروخت نہیں ہو پا رہے تھے۔ میں نے اس سے فروخت کرکے قالینوں کی رقم ادا کرنے کی شرط پر قالین لے لئے اور انہیں بیچنا شروع کر دیا۔ اس موقع پر میں نے اپنی سیلز سکِلز کو مسخر کیا۔ قالینوں کی فروخت سے مجھے اچھا خاصا منافع ہوا لیکن میں اپنی متجسس طبع سے مجبور تھا سو پیسے پس انداز کرنے کی بجائے میں نے اس منافع کو بھی سیر و تفریح اور کھوج پرکھ میں صرف کیا۔ ان دنوں امریکہ میں کثیر منزلہ عمارات اور پلازوں کا دور دورہ تھا، رئیل اسٹیٹ سیکٹر تیزی سے پھل پھول رہا تھا، میں نے اس کا گہرائی سے مشاہدہ کیا۔ آخر کار والدہ کے اصرار نے مجھے واپس پاکستان آنے پر مجبور کیا تو میں نے امریکہ میں رئیل اسٹیٹ کے رجحانات کو پاکستان میں متعارف کروانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنے ہال روڈ پر واقع پلاٹ پر کثیر منزلہ عمارت تعمیر کرکے لاہور میں پلازوں کی طرح ڈالی۔ خوش قسمتی سے یہ پلازہ انتہائی کامیاب ہوا جس نے رفیع گروپ کی بنیادیں مستحکم کیں۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ قسمت کے ساتھ ساتھ میری محنت، پیش بینی اور نیک نیتی نے مجھے کاروباری کامیابیوں کی راہ دکھائی۔ اپنے والد کی ساکھ اور نام کا بھرم رکھنے کے لئے میں نے شعوری طور پر غیرقانونی سرگرمیوں، دھوکہ دہی، جھوٹ اور لالچ سے احتراز کیا۔ حدود و قیود اور رائٹ وے میں رہتے ہوئے کاروباری ترقی ہوئی تو میرا محنت پر یقین پختہ تر ہو گیا۔

میں نے محسوس کیا ہے کہ والدین عموماً بنیادی غلطی یہ کرتے ہیں کہ بچوں کے ذہنوں میں ابتدا سے ہی ملازمت کا لالچ ڈال دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ تکنیکی و عملی تعلیم کا مقصد بھی کم و بیش یہی ہوتا ہے۔ معاشی خطرات و مسائل کا ڈر ذہنوں میں ڈال کر بچوں کو خوف میں مبتلا کیا جاتا ہے جس سے ان کی صلاحیتیں زنگ آلود اور تفکرات لا محدود ہو جاتے ہیں۔ معدودے چند جو تعلیمی فقدان یا دیگر وجوہ کی بنا پر نوکری نہیں کر پاتے انہیں بہ امرِ مجبوری کاروبار میں دھکیل دیا جا تا ہے لیکن اس کے لئے بھی جدید تقاضوں اور رجحانات کو مدِ نظررکھتے ہوئے کوئی عملی تربیت نہیں دی جاتی۔ وراثت میں ملنے والے کاروبار یا زراعت تک کو روایتی طریقوں سے چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کوئی بھی کام یا شعبہ کامیابی کے لئے مکمل انہماک، خلوص، لگن، دلچسپی اور جنون کا متقاضی ہوتا ہے۔ میں نے آج تک وراثت میں ملنے والی دولت سے کسی کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھا، اس لئے بنیادی تاثر کہ کاروبار یا کامیابی کے لئے دولت ضروری ہوتی ہے، بےمعنی ہو جاتا ہے۔ میرا پختہ یقین ہے کہ آنے والے ادوار میں ملازمتیں ویسے ہی محدود ہو جائیں گی صرف اور صرف انٹر پرینیور شپ ہی مستقبل میں آگے بڑھنے کا آپشن بچے گا۔ کامیابی کسی کو بھی حاصل ہو سکتی ہے شرط صرف یہ ہے کہ کسی میں قربانی دینے کا جذبہ کتنا ہے؟ آرام، آسائش، سہولت، ذاتی پسند ناپسند اور خواہشات کی قربانی دے کر ہی کامیاب ہوا جا سکتا ہے۔

لوگوں میں ایک عام غلط فہمی یہ بھی ہے کہ غلط کام یا ناجائز ذرائع اپنائے بغیر کامیاب ہونا ممکن نہیں حالانکہ ایسا بالکل نہیں، جائز طریقے اور حدود و قیود کی پاسداری کرتے ہوئے بھی کامیابی سمیٹی جا سکتی ہے، اول و آخر شرط عزم و یقین اور ولولہ ہے۔ اس حوالے سے پاکستان جیسے ملک میں تکنیکی تعلیم و تربیت کے فروغ اور نوجوانوں کی ذہنی آبیاری کی اشد ضرورت ہے، اسی کے ذریعے آنے والے ادوار کے چیلنجز سے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے ورنہ ہم نوکری پیشہ ہی پیدا کرتے رہیں گے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین