• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب جھوٹ…امر جلیل

مجھے پرخلوص مشورہ دیتے ہوئے میرے ہم عمر دوست نے اپنے سندیش میں لکھا ہے۔ ’’تمہارے لئے چل چلائو کا دور چل رہا ہے۔ تم کبھی بھی کوچ کرسکتے ہو۔ اپنے بچوں کو اپنے پاس بلالو۔ نزاع کے وقت وہ تمہاری ڈھارس بندھا سکتے ہیں‘‘۔

مجھے تعجب ہوا۔ میرا ہم عمر ہے۔ گنتی کے بچے کھچے کولیگ اور دوست جو رختِ سفر باندھے بیٹھے ہیں، ان میں سے ایک ہے۔ مجھے مشورے قطعی اچھے نہیں لگتے۔ مجھے لگتا ہے جیسے کوئی اپنی اترن مجھے پہنانے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ بات اس لئے میں نے لکھی ہے کہ ہر بوڑھے کی طرح میں بھی سب کو مشورے دیتا پھرتا ہوں۔ لوگوں کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ مشورے ہضم کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ میں بھی بڑی مشکل سے مشورے ہضم کرپاتا ہوں۔ طرح طرح کے چورن چٹنیاں کھانی پڑتی ہیں تب جاکر مشورہ ہضم ہوتا ہے۔ میرے ہم عصر کولیگ نے اپنے مشورے میں مزید لکھا تھا، ’’بچے قریب ہوں گے تو تمہاری میت کو کندھا دے سکیں گے۔ وہ بچے بڑے نصیب والے ہوتے ہیں جو اپنے ہاتھوں سے اپنے والدین کو لحد میں اتارتے ہیں۔ اپنے بچوں کو اس سعادت سے محروم مت کرو۔ وہ والدین بھی بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں، جن کی تدفین اپنے بچوں کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ مرنے کے بعد پچھتانے کا موقع نہیں ملتا۔ اس لئے دیر مت کرو۔ اپنے بچوں کو اپنے قریب بلالو‘‘۔اپنے مشورے کو تقویت دینے کے لئے میرے کولیگ نے مشورے کو نامور اور معتبر ہستیوں سے وابستہ کردیا۔ بہت ہی بھاری بھرکم نام تھے۔ میں ڈر گیا۔ کانپ اٹھا۔ اتنا بوجھ سہارنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں۔ وہ ہمارے ہاں اس لئے پیدا ہوتی ہیں تاکہ پال پوس کر، پڑھا لکھا کر، تعلیم و تربیت دے کر پرایا حق بہ حقدار وصول کرلیں۔ میری دونوں بیٹیاں بیاہی ہوئی ہیں۔ بیاہ دینے کے بعد بیٹیاں پرائی ہوجاتی ہیں۔ ویسے بھی بیٹیوں کو بلانے کا کیا فائدہ۔ وہ نہ تو جنازے کو کندھا دے سکتی ہیں اور نہ ہی ہمیں لحد میں اتار سکتی ہیں۔ اسی شہر میں میری دونوں بیٹیاں رہتی ہیں مگر میں نے بیٹیوں کو بلانا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اپنے بیٹوں کو بلالیتا ہوں۔ وہ میری میت کو کندھا بھی دیں گے اور مجھے یعنی میرے جسد خاکی کو قبر میں بھی اتاریں گے۔

میرے تین بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا رحیم مونٹریال کینیڈا کی ایک بہت بڑی فرم میں سافٹ وئیر انجینئر ہے۔ دوسرا بیٹا کریم فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ میں برصغیر کی تاریخ کا پروفیسر ہے۔ میرا تیسرا اور لاڈلا بیٹا فہیم میلبورن آسٹریلیا میں بینکر ہے۔ تینوں بیٹوں کو میں نے ایک ہی نوعیت کا خط لکھا۔ ’’میرے پیارے بچو، میرا چل چلائو کادور ہے۔ کبھی بھی میری موت واقع ہوسکتی ہے۔ میرے ہم عمر کولیگ نے بزرگ اور برگزیدہ ہستیوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ جو بچے اپنے والد کے جنازے کو کندھا دیتے ہیں اور اس کی میت قبر میں اتارتے ہیں، وہ بچے بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں اور وہ والد بھی بڑا خوش نصیب ہوتا ہے جس کے جنازے کو اس کے بچے کندھا دیتے ہیں اور اس کی میت قبر میں اتارتے ہیں۔ تم فوراً کراچی پہنچو اور اپنی خوش قسمتی کا موقع ہاتھ سے جانے مت دو۔ لمبی چھٹی لے کر آجائو۔ اگر چھٹی نہ ملے تو استعفیٰ دے کر میرے پاس آجائو اور میری میت کو کندھا دینے اور قبر میں اتارنے کی سعادت حاصل کرو‘‘۔خط روانہ کرنے کے بعد مجھے میرے پرانے دو دوست یاد آئے۔ ایک قلندر اور دوسرا ابراہیم جھینگا۔ قلندر میری طرح 85 برس کا ہے۔ اس کے بچے نہیں ہیں۔ پنجابی مقولہ کے مطابق کلم کلا ہے۔ ایک سوال کی گھنٹیاں بار بار میرے بھیجے میں بجنے لگیں۔ ’’قلندر کا کیا بنے گا کالیا۔ قلندر کا کیا بنے گا کالیا‘‘۔مجھے دکھ ہوا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ قلندر ملنے والی خوش قسمتی اور خوش نصیبی سے محروم ہوجائے۔ اچانک ایک تجویز مجھے سوجھی۔ اگر پوری نہیں، کم از کم قلندر کو تھوڑی سی خوش قسمتی اور تھوڑی سی خوش نصیبی مل سکتی تھی۔ میں نے قلندر کو فون کیا۔ میں نے کہا۔ ’’قلندر، مجھے میرے کولیگ نے بتایا ہے کہ بیٹے جب ہماری میت کو کندھا دیتے ہیں اور ہمیں لحد میں اتارتے ہیں تب ہم اور ہمارے بچے خوش قسمت اور خوش نصیب ہوتے ہیں۔ میرے بچے تمہارے بچے ہیں۔ میرے بچے میری میت کو کندھا دینے اور لحد میں اتارنے کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا سے پاکستان آرہے ہیں۔ وہ تمہاری میت کو بھی کندھا دیں گے اور میت لحد میں اتارنے کے بعد تمہاری قبر پر مٹی ڈالیں گے اور پانی کا چھڑکائو بھی کریں گے۔ تم کسی قسم کی فکر مت کرنا‘‘۔

قلندر نے پوچھا۔ ’’تم کب مر رہے ہو؟‘‘میں بھونچکا رہ گیا۔ میں نے کہا۔ ’’نہیں معلوم کہ میں کب مروں گا‘‘۔قلندر نے کہا۔ ’’بچوں کو تنگ مت کرو۔ ان کے پاس چلے جائو۔ وہ تمہاری میت کو کندھا بھی دیں گے اور لحد میں بھی اتاریں گے۔ یہاں بلاکر ان کو زچ مت کرو۔ نہ جانے تم کب مرو‘‘۔میں نے پوچھا۔ ’’تم کیا کروگے قلندر؟‘‘قلندر نے کہا۔ ’’اپنا ابراہیم جھینگا یاد ہے تمہیں؟ سمندر میں کوسوں دور جاکر مچھلیاں پکڑتا تھا۔ ایک مرتبہ اس کی کشتی الٹ گئی تھی۔ شارک مچھلیوں نے اسے نوالا بنالیا تھا‘‘۔’’ہاں مجھے یاد ہے‘‘۔ میں نے کہا۔قلندر نے کہا۔ ’’ابراہیم جھینگے کا نہ جنازہ اٹھا تھا، اور نہ چھ بیٹوں نے اسے کندھا دیا تھا، نہ ہی قبر میں اتارا تھا‘‘۔تب مجھے یاد آیا کہ ابراہیم جھینگے کے تیجے پر کابلی پلائو سے چن چن کر چنے کھاتے ہوئے قلندر نے کہا تھا۔ ’’ایک روز تنہائی کا سمندر مجھے نگل لے گا۔ ابراہیم جھینگے کی طرح میرا نہ جنازہ اٹھے گا، اور نہ مجھے لحد میں اتارا جائے گا‘‘۔اور پھر، اسی رات میرے سعادت مند بیٹوں کا مجھے مشترکہ میسج ملا… لکھا تھا۔ ’’ابو، ہم آپ کے ہونہار بیٹے خوش قسمت او رخوش نصیب بننے کیلئے فوراً سے پیشتر پاکستان پہنچنے والے ہیں۔ ہم نے اچھی سے اچھی ملازمت اور کاروبارکو ٹھوکر ماردی ہے۔ بچوں کو اسکول کالج اور یونیورسٹی جیسے تعلیمی اداروں سے نکال کر آپ کے ہاں آرہے ہیں‘‘۔قلندر کو جب اس میسج کا علم ہوا، اس نے فوراً ایک میسج میرے نام داغ دیا۔ لکھا:’’کئی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ بوڑھے بیٹھے رہتے ہیں، اور بچے چلے جاتے ہیں۔ تم جانے میں دیر مت کرنا‘‘۔

تازہ ترین