• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام میں جب بھی مایوسی اور جبر انتہا کو پہنچے، انقلاب کی راہیں ہموار ہوئیں۔ انقلاب اپنی شروعات میں جتنا زور آور ہوگا، کسی بھی معاشرے پر اس کے اُس قدر ہی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ جو اگر صدیوں تک نہیں تو کئی دہائیوں تک ضرور برقرار رہتے ہیں۔ فرانس کے مشہورِ زمانہ انقلاب کے اثرات اور اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے کیونکہ اس انقلاب نے عام شہریوں کو اشرافیہ کے مقابلے میں ایک سیاسی طاقت میں بدل دیا۔ اسی طرح روسی انقلاب اور پھر بیسویں صدی کے وسط میں آنے والے چینی انقلاب نے پوری دنیا میں لوگوں کی زندگیوں کو یکسر بدل ڈالا۔ انقلابات کب وقوع پذیر ہوتے ہیں، وہ کون سے عوامل ہیں جو اس سماجی و سیاسی ردِعمل (socio-political reactions) کا باعث بنتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب دنیا میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔انقلاب، قلب کا مآخذ ہے۔ یہ ایک ایسا متوازی عمل ہے جوکسی معاشرے میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔سیاسیات اور سوشیالوجی جیسے علوم کے نقطہ نظر سے انقلاب کسی بھی مروّجہ سماجی و سیاسی نظام میں پیدا ہونے والے اس تغیر کو کہتے ہیں جو ایک طاقتور تحریک کے نتیجے میں پیدا ہواور جس کے نتیجے میں طاقت کا ڈھانچہ، کلچر اور معاشرے کے خدو خال تبدیل ہوں۔

1789 سے 1799 کے درمیان آنے والے فرانسیسی انقلاب کو بجا طور پر جدید تاریخ میں تمام انقلابات کی ماںقرار دیا جاسکتا ہے۔اُس نے فلسفیوں، فنکاروں، شاعروں اور ادیبوں سے تحریک پائی جب کہ عملی طور پر سپاہی، مزدور، کسان اور عام لوگ انقلاب کا ہر اول دستہ بنے۔فرانسیسی انقلاب نے اگرچہ یورپ میں سراُٹھایا لیکن یہ پوری دنیا میں اثر و نفوذ پا گیا۔ سترہویں صدی کے فرانس میں مطلق العنان شاہی نظام رائج تھا۔ اس سے قبل فرانس کے کئی بادشاہ نسل در نسل اپنے وسائل کا بڑا حصہ معقولیت کی حد ود پار کرتے ہوئے انگریزوں کے ساتھ جنگوں میں صرف کرنے کی غلطی کر چکے تھے۔ برطانوی سامراج کے خلاف امریکی انقلاب کے دوران فرانس کے ملوث ہونے سے یہ غلطی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ فوج پر ہونے والے کثیر اخراجات کے باعث فرانس کا بیرونی قرضہ بہت زیادہ بڑھ گیا جس کے ازالے کیلئے عوام الناس اور کسانوں پر بھاری ٹیکس عائد کر دیے گئے، جس سے عوامی غم و غصّے میں شدت آگئی۔ روشن خیالی اور ترقی کے تصورات نے اختیارات اور طاقت کے روایتی نظریات کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔چنانچہ شدید افراتفری، سول واراور بغاوت نے بادشاہی نظام کا تختہ اُلٹ دیا، اشرافیہ کے زیادہ تر افرادسمیت 40 ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیااور یوں جاگیرداری نظام اور اشرافیہ کی شاہانہ مراعات کا خاتمہ ہوا۔

انقلاب کی ایک دوسری شکل 1917میں آنے والے روسی انقلاب سے ملتی ہے جس کا نتیجہ یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک(یو ایس ایس آر) کے قیام کی صور ت میں برآمدہوا۔ پہلی جنگ عظیم میں روس کی شرکت اور اس کے نتیجے میں روسی شہروں میں ہونے والی تباہی نے روسی سپاہیوں اور عوام کو احتجاج اور بغاوت پر مجبور کر دیا۔ چینی سرخ انقلاب بھی دیگر انقلابات سے مشابہہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران چین کی قومی حکومت نے جاپانی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے کمیونسٹوں سے اتحاد کر لیا۔جنگ کے بعد امریکیوں نے چین کی نیشنل حکومت کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا جب کہ روس نے کمیونسٹوں کی امداد جاری رکھی۔یکم اکتوبر 1949 میں ماؤزے تنگ(Mao Zedong) نے نیشنلسٹوں کے خلاف بھر پور جنگ کا اعلان کر دیااور دوطرفہ بھاری جانی نقصان کے بعد بالآخر ماؤزے تنگ نے کامیابی حاصل کی۔

ان حالات کا اطلاق اگر پاکستان پرکیا جائے توجغرافیائی اعتبار سے روس اور چین کے قریب ہونے کے سبب ایسی ہی طرز کا انقلاب یہاں بھی کچھ بعید نہ تھا، جس کے سدِ باب کیلئے ایک جوابی حکمت عملی کے تحت مغربی طاقتوں نے اس خطے میں تیزی سے کمیونسٹوں کی پیش رفت کو روکنے پر کام کیا۔شروع میں ہی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو منافع بخش پیشکشیں ملنے لگیںجن کے نتیجے میں انہوں نے اپنا متوقع دورہ روس منسوخ کر دیااور واشنگٹن جانے کو ترجیح دی۔ جارح ہمسائے بھارت کی طرف سے درپیش سیکورٹی کی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ واضح طورپر مغرب کی طرف ہو گیا،جس کے بدلے میں پاکستان کو سیٹو اور سینٹو کا ممبر بنا دیا گیا۔ دفاعی سازو سامان کی فراہمی نے یہاں اینٹی کمیونسٹ ماحول کیلئے ایک متبادل بیانیے کی داغ بیل ڈالی۔جبر اور اقتصادی محرومی جو انقلابات کیلئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں، کا ازالہ امریکی امداد نے کر دیا۔امریکی امدادسے بننے والے ڈیموں اور غذا برائے امن جیسے پروگراموں نے وقتی طور پر پاکستان میں کسی بھی انقلاب کا راستہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔اس عارضی اقتصادی ترقی نے عوام کو نظام کی مکمل تبدیلی سے دور رکھا۔اس کے ساتھ ہی فیض احمد فیض،میجر اسحٰق، جنرل اکبر اور دیگر انقلابیوں کو راولپنڈی سازش کی طرح کے فرضی مقدمات میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ ضیاء حکومت کے بعدمذموم عزائم کے ساتھ طاقت کے حصول کیلئے سیاسی پارٹیوں کی باہمی چپقلش نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایاجس کے نتیجے میں فوجی مداخلتوں کے سبب انقلاب کیلئے حالات مفقودکر دیے گئے۔ پاکستان تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔سی پیک اور اوبور جیسے منصوبوں کی بدولت ابھرتی ہوئی طاقت چین کے ساتھ تعلقات نے پاکستان میں ایک نئی طرز کے انقلاب کی راہ ہموار کر دی ہے۔ امیدہے کہ یہ معاشی انقلاب امن اور اقتصادی ترقی پر منتج ہو گاجو کسی بھی خونی انقلاب سے کہیں زیادہ دیر پا، موثر اور سود مند ثابت ہو گا۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین