دیکھئے اللہ تعالیٰ نے جو بے شمار نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں وہ ہم کبھی دنیا بھر کے درختوں کے قلموں اور سمندروں کی سیاہی یا روشنائی سے بھی مکمل طور پر نہیں لکھ سکتے۔ آپ سے چند چیزوں کا ذکر کرتا ہوں مثلاً ہدایت، رزق، صحت، مال و دولت، قوّت و طاقت، عزت وغیرہ۔ سب سے زیادہ اہم نعمت ہدایت ہے۔ سورۃ کہف، آیت 17میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جس کو اللہ ہدایت دے وہ ہدایت یاب ہے اور جس کو وہ گمراہ کرے تو تم اس کے لئے کوئی دوست ہدایت دینے والا، راہ دکھانے والا نہ پائو گے‘‘۔ کلام مجید میں بار بار ان چیزوں کا ذکر ہے جن کا میں نے ابھی اوپر ذکر کیا ہے۔ آج آپ کی خدمت میں غورو خوض کے لئے ان ہی چند باتوں کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
آپ جانتے ہیں کہ ہندو ایک نہایت تعلیمیافتہ قوم ہے ان کی تاریخ و تہذیب بہت پرانی ہے۔ یہ دنیا میں اپنی عقل و فہم کے بارے میں مشہور ہیں۔ اتنی پرانی تہذیب، اعلیٰ تعلیم، عقل و فہم کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے محروم ہیں۔ گائے کا پیشاب پیتے ہیں۔ گوبر کھا لیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ خود مٹی اور لکڑی کی مورتیاں بناتے ہیں اور ان کو نعوذ باللہ خدا مان کر پوجتے ہیں جو چیز آپ خود بنائیں خود اس کے خالق ہوں وہ آپ کا خالق کیسے ہوسکتا ہے؟
ٍیہی حال مسیحیوںکا ہے۔ ایک صلیب، کراس بناتے ہیں اس پر حضرت عیسیٰ ؑ کی مورتی بناتے ہیں اور اس کو پوجتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمیافتہ عیسائی دیوار پر ایسی ہی لگی مورتی کو پوجتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں تو اس کراس اور مورتی کو لپٹ کر پکڑتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ پیتل کا ٹکڑا نا ان کی فریاد سن سکتا ہے اور نا ہی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔مسلمان بھی ایسی باتوں سے مبرّا نہیں ہیں لاتعداد رسم و رواج بنا رکھے ہیں جو اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ مثلاً رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد ہی مسیلمہ بن کذّاب نے نبوّت کا دعویٰ کردیا ، حالانکہ ابھی اسلام کی تعلیم، اللہ کے فرمان، احادیث تازہ تھیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فوراً اس فتنے کا سر کچلنے کا حکم دیا ،ہزاروں مسلمان جن میں تقریباً 1200جیّد صحابی تھے شہید ہوگئے مگر اس فتنہ کا سر کچل دیا گیا۔ آپ سوچئے کلام مجید یعنی فرمان اِلٰہی کی موجودگی میں بھی کیا یہ ممکن تھا! جی تھا، جب ہی تو ہوا اور سورۃ کہف کی آیت کی سچائی ثابت ہوئی۔ کلام مجید میں بار بار آیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (محمدؐ) کی اطاعت کرو ان کے فرمان کی نافرمانی کروگے تو سخت عذاب اور عتاب نازل ہوگا۔ اس پر مزید روشنی ڈالنے اور اہمیت بتانے کے لئے اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ اللہ کے رسول اور اللہ کے احکامات کی تعمیل کرو۔ پھر کلام مجید میں صاف صاف فرمایا کہ محمدؐ اللہ کے آخری رسول ہیں اور مہر لگادی گئی ہے کہ اب کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں صاف صاف فرمایا کہ لوگوسنو!
اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور نا ہی کوئی نئی اُمت آئے گی۔ پھر انسان اپنی فطرت (جھگڑالو، جلدباز اور احسان فراموشی وغیرہ) کی وجہ سے ایسی باتیں کرتا ہے جو اللہ اور اس کے فرمان کے سخت خلاف ہیں۔ دیکھئے ایسے رویے ایسے کردار کے لئے اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں کئی جگہ فرمایا ہے۔ ’’بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس یہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آسکتے، بہرے گونگے اندھے ہیں پس یہ دیکھتے نہیں، بہرے گونگے اندھے ہیں پس یہ سمجھتے نہیں ہیں۔ ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے یعنی سوچنے اور سمجھنے کی قوّت کو سلب کرلیا ہے اور ان کو اب کوئی صحیح راہ نہیں دکھا سکتا۔
دیکھئے آج بھی وہی المیہ ہے جو 1400سال سے کچھ پہلے موجود تھا۔ یعنی ہم تو وہی کرینگے جو ہمارے آبائو اجداد کرتے آئے ہیں۔ آج کی نئی جوان قوم کے دماغ او ر دل میںبھی یہی چیز سما گئی ہے۔ اگر والدین غلط راہ، یعنی دین اسلام اور احکامات اِلٰہی کے منافی کاموں میں مصروف ہیں تو اس کو صحیح اور جائز سمجھ کر اس کی پیروی کرتے ہیں۔ نماز نہ پڑھنا، شراب پینا اور دوسرے غلط کاموں کی نقل عام ہے۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں ایک مفید مشورہ دیا تھا کہ ریڈیو پاکستان صبح 7بجے سے رات تک صوت القرآن کے نام سے تلاوت قرآن مع اردو ترجمہ پیش کرتا ہے یہ بہت ہی اعلیٰ پروگرام ہے آپ دکان میں، بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز میں نرم آواز یعنی ہلکی آواز میں اس کو لگائیں۔ آواز اُونچی، لوگوں کو ہراساں کرنے والی نہ ہو۔ آپ اللہ کے احکامات سن سن کر ان پر عمل کرنے لگیں گے۔ اور عوام بھی۔
(نوٹ) پچھلے کالم میں سورہ یوسف کی جگہ سورہ کہف لکھ دیا گیا تھا اور سورہ قمر کی جگہ سورہ حجرات شائع ہوگیا تھا۔ صحیح کرلیں،
معذرت خواہ ہوں۔
اب تک مجھے روز ہزاروں ہمدردوں کی نیک خواہشات اور دُعائیںبذریعہ ای میل، ایس ایم ایس، واٹس ایپ موصول ہورہی ہیں اللہ پاک قبول فرمائے۔ آپ سب کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔ الحمداللہ اب پہلے سے صحت بہت بہتر اور خطرے سے باہر ہے صرف تھوڑی کمزوری ہے ان شااللہ وہ بھی جلد دور ہوجائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب کبھی مجھے تنہا نہ چھوڑے گا۔
روزنامہ جنگ کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کالم ہفتہ وار شائع کرنے کا اعزاز حاصل تھا۔ڈاکٹر صاحب کا آخری کالم ملاحظہ فرمائیں۔(ادارہ)