• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ کئی طرح کے نشیب و فراز سے گزرتے رہے ہیں، عمومی تاثر یہ ہے کہ امریکہ ہمارا صرف اچھے وقتوں کا دوست اور اتحادی ہے۔ مشکل وقت میں ہمارا ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور ایسا بھارتی لابی کی وجہ سے ہے جو پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے ہمہ وقت متحرک رہتی ہے اور امریکہ بھارت کو خوش کرنے کیلئے پاکستان پر دبائو ڈالتا رہتا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اس حقیقت کو سینٹ میں گزشتہ روز کھل کر بیان کیا اور اعتراف کیا کہ بھارتی لابی کی منفی سرگرمیوں کی وجہ سے حقانی نیٹ ورک، جوہری اثاثوں اور شکیل آفریدی کے معاملہ پر پاک امریکہ تعلقات گزشتہ تین ماہ سے سردمہری کا شکار ہیں۔ بھارت نے کوشش کی کہ امریکہ پاکستان کو ایف16 طیارے فروخت نہ کرے جو ہمیں دہشت گردی کے مقابلے کیلئے درکار ہیں۔ مگر بھارتی لابی نے انہیں بھارت کے خلاف استعمال میں لانے کے فرضی خطرے کا شور مچا دیا۔ اس کوشش میں تو وہ ناکام ہوا کیونکہ امریکی انتظامیہ نے کانگریس کو قائل کرکے طیاروں کی فروخت کے حق میں منظوری حاصل کر لی مگرامریکہ نے سبسڈی کے حوالے سے جورقم دینا تھی وہ روک لی۔ جمعرات کو اس مسئلہ پر سینٹ میں تحریک التوا پر بحث سمیٹتے ہوئے سرتاج عزیز نے واضح کیا کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی اور ترجیحات پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ امریکہ نے ہمارے نیوکلیئر پروگرام پر تحفظات ظاہر کئے جنہیں ہم نے مسترد کر دیا۔ شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کیا تو ہم نے اسے ٹھکرا دیا۔ ہم پر حقانی نیٹ ورک کی مدد کا الزام لگایا مگر ٹھوس ثبوت پیش نہ کئے اسلئے ہم نے اسے بھی رد کر دیا۔ ہم نے بھارت سے امریکہ کے نیوکلیئر معاہدے سمیت خطے میں توازن کی جانب امریکی انتظامیہ کی توجہ دلائی ہے۔ ہمارے درمیان اس وقت سٹرٹیجک مذاکرات چل رہے ہیں اور توقع ہے کہ امریکہ کسی ایک معاملے کی آڑ لے کر باہمی تعلقات میں تعطل نہیں آنے دے گا۔ سینٹ میں بحث کے دوران ارکان کی اکثریت نے پاک امریکہ تعلقات میں سردمہری کو خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دیا اور حکومت کو سخت موقف اپنانے کا مشورہ دیا۔ ارکان کا کہنا تھا کہ امریکہ ہمیں فرنٹ لائن اتحادی کہتا ہے مگر جھکائو اس کا بھارت کی طرف ہے۔ سینٹ میں مشیر خارجہ اور منتخب نمائندوں نے امریکی طرزعمل کے بارے میں جن تحفظات کا اظہار کیا ہے قوم کی سوچ بھی یہی ہے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے مسائل پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ حکومت نے امریکہ کے بے جا مطالبات مسترد کرکے قوم کی حقیقی ترجمانی کی ہے۔ قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ ہمیں کسی کا دم چھلا بننا چاہئے نہ کسی کی بلاوجہ دشمنی مول لینی چاہئے۔ اس خطے میں امریکہ کے بے شمار مفادات ہیں اور اس حوالے سے پاکستان اس کا سٹرٹیجک پارٹنر ہے وہ ہمیں نظرانداز نہیں کرسکتا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستان اور اس خطے کے دوسرے ممالک کی تقدیر بدلنے والی ہے جس پر بھارت بہت پریشان ہے اور اسے ناکام بنانے کیلئے وہ امریکہ کی مدد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسی دبائو کے زیراثر امریکہ پاکستان کے ساتھ غیرضروری معاملات اٹھا رہا ہے مگر اسے یہ بھی علم ہے کہ وہ پاکستان کی قیمت پر بھارت کو علاقے کا چوکیدار نہیں بنا سکتا اسلئے وہ پاکستان کے ساتھ معاملات میں احتیاط بھی برت رہا ہے۔ 30مئی سے 3جون تک واشنگٹن میں پاک امریکہ دفاعی گروپ کا اجلاس ہونا ہے۔ اس میں ایف16 طیاروں کی سبڈی کا مسئلہ بھی زیرغور آئے گا۔ حال ہی میں دونوں ملکوں کے ورکنگ گروپ کی میٹنگ ہوئی جس میں توانائی شراکت داری ماحولیاتی تبدیلی، دیامربھاشا ڈیم کی فزیبلٹی سٹڈی اور افغانستان کی تعمیر نو کے منصوبے میں حصہ لینے کا اعادہ کیا گیا۔ پاکستان کی دفاعی ضروریات کے حوالے سے بھی پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان افغانستان کے مفاہمی عمل میں فعال کردار ادا کررہا ہے جس کی اہمیت کا امریکہ کو پوری طرح احساس ہے اسلئے توقع ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں غیرضروری تعطل پیدا نہیں ہوگا۔ تاہم وزارت خارجہ کو مسلسل چوکس رہنا ہوگا اور بھارتی لابی کے ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے کیلئے سرگرمی سے کام کرنا ہوگا۔
تازہ ترین