پاناما لیکس پر 5ہفتے قبل شروع ہونے والا تماشا زور شور سے جاری ہے۔بدقسمتی سے صرف ہمارے ہاں ہی اس طرح کا تماشا ہوتاہے۔دوسرے کچھ ممالک میں پاناما لیکس پراٹھنے والا طوفان چند روز میں ہی تھم گیا اورکاروبار زندگی معمول پر آگئے ۔میچورقومیں بڑے سے بڑے مسائل کا حل بھی جلد ہی تلاش کرتی ہیں تاکہ سیاسی عدم استحکام پیدا نہ ہواور معمولات زندگی میں خلل نہ پڑے۔مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا سیاست کی نذرہو جاتا ہے ۔اس بار اس حقیقت کا بھی بالکل ادراک نہیں کیا جارہا کہ کافی عرصے بعد پاکستان ترقیاتی میدان میں ٹیک آف کر رہا ہے اور اگر ترقی کی یہی رفتار رہی تو اگلے چند سالوں میں ہمارے بہت سے مسائل جنہیں ہم بڑی دیر سے حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں شاید نظر بھی نہ آئیں ۔ ہمارے کچھ لیڈ رزہر وقت اسی خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر موجودہ حکومت اپنے ترقیاتی ایجنڈے کو کافی حد تک مکمل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو ان کی سیاست فارغ ہو جائے گی اور 2018ء کے عام انتخابات میں انہیں ناکامی ہو گی۔ بلاشبہ پاناما لیکس پر جاری و ساری طوفان کسی حد تک حکومت کی توجہ میگا ترقیاتی منصوبوں سے ہٹا رہا ہے جو کہ یقیناً ملک کے لئے سود مند نہیں ہے ۔ اس وقت ضروری ہے کہ ایجنڈے پر مکمل سیاسی اتفاق رائے ہو ۔ رہی سیاست کی بات تو حزب اختلاف کی جماعتوں کو حکومت کی خامیوں اور کوتاہیوں پر تنقید ضرور کرنی چاہئے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اس میں ملک نشانہ بنے ۔پاناما لیکس پر کچھ جماعتیں اپنی مردہ سیاست میں جان ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں اور بڑھ چڑھ کر تنازع کو طول دے رہی ہیں۔ اگر پی پی پی کو لیں تو سب جانتے ہیں کہ یہ مقبولیت کے گراف پر اپنی تاریخ کی بدترین سطح پر ہے اس کی یہ حالت اس کی گزشتہ 5سالہ حکومت نے کی جس پر مہر تصدیق 2013ء کے عام انتخابات میں لگ گئی۔ اس نے پانامالیکس کو سنہری موقع جانااور بڑے جارحانہ انداز میں اس پر سیاست چمکا رہی ہے۔ اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جنہیں ابھی سیاست کے خار دار میدان میں بہت کچھ سیکھنا ہے اپنی جماعت کے کچھ رہنمائوں جن کا تعلق پنجاب سے ہے کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور ایسے ایسے سخت بیانات دے رہے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف پی پی پی کو زندہ کرنا ہے۔ پنجاب پی پی پی کے یہ لیڈرز ابھی تک 2013ء میں نون لیگ کے ہاتھوں شکست کو نہیں بھولے اور وہ ہر طرح سے ملک میں افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کی جماعت اس طرح کے سخت رویے کی وجہ سے زندہ ہو رہی ہے عام خیال یہی ہے کہ ایسا نہیں ہو رہا اور پی پی پی آج بھی 2013ء والی پوزیشن پر ہی کھڑی ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس جماعت کے اصل کرتا دھرتا اور فیصلہ کرنے والے رہنما یعنی آصف علی زرداری پاناما لیکس میں ظاہر کی گئی آف شور کمپنیوں کے مسئلے پر بالکل خاموش ہیں اور انہوں نے گزشتہ 5ہفتوں کے دوران ایک لفظ بھی اس مسئلے پر نہیں بولا ۔ کیوں ؟صاف ظاہر ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی بامعنی تحقیقات ہو ورنہ وہ بھی اس کے شکنجے میںآجائیں گے۔
2014ء دھرنے کے مقاصد کے حصول کی ناکامی کے بعد پاکستان تحریک انصاف بھی سیاسی میدان میں کافی حد تک بے اثر نظر آرہی تھی اور اسے اپنی سمت متعین کرنے میں مشکلات درپیش تھیں۔ جونہی پاناما لیکس سامنے آئیں تو اس نے حسب معمول اس پر طوفان کھڑا کر دیا اور ہمیشہ کی طرح یہ سمجھ لیا کہ اس مسئلے کو جتنی ہوا دی جائے اتنی جلد ہی حکومت گھر چلی جائے گی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کمپین کی وجہ سے اس نے سیاسی طور پر کچھ حاصل کیا ہے یا کر رہی ہے ۔اگر اس کے حالیہ جلسوں جن کا مقصد صرف اور صرف پاناما لیکس کی وجہ سے حکومت پر دبائو ڈالنا ہے میں عوام کی شرکت کو سامنے رکھا جائے تو صاف لگ رہا ہے کہ لوگوں نے اس کی مہم پر وہ توجہ نہیں دی جو کہ پہلے یہ حاصل کرتی رہی ہے۔لاہور جو سیاست کا دل ہے میں اس نے مینار پاکستان کے وسیع و عریض گرائونڈ کی بجائے مال روڈ پرجلسہ کرنے پر اکتفا کیا۔سیاسی طور پر جو اسے حاصل ہونا تھا وہ ہوا مگر خواتین کے ساتھ اس کے نوجوان کارکنوں کی بدتمیزی اور بداخلاقی نے اسے بہت بدنام کیا جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔ جب یہ صحیح انتظامات نہیں کر سکتی جس میں خواتین کی عزت و احترام کویقینی بنایا جاسکے تو پھر اسے ایسے اجتماعات کرتے ہوئے بار بار سوچنا چاہئے کہ اس کی صلاحیت اور استطاعت کیا ہے ۔ جلسوں میں شرکاء کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے ہی اس نے فیصل آباد میں جلسہ کرنے کا پروگرام ترک کر دیا ۔اس کے پشاور کے جلسے میں بھی ہلڑ بازی عروج پر رہی یہاں تک کہ پولیس کو مجمع کنٹرول کرنے کے لئے ہوائی فائرنگ بھی کرناپڑی۔
یہ مثبت بات ہے کہ وزیراعظم نوازشریف حزب اختلاف کے ایک کے بعد دوسرے مطالبے کو تسلیم کئے جارہے ہیں۔ سب سے پہلےانہوں نے ان کی یہ بات مان لی کہ عدالتی کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس کریں گے اور یہ حاضر سروس ججوں پر مشتمل ہو گا۔پھر انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کا یہ مطالبہ بھی مان لیا کہ کمیشن احتساب کا عمل ان سے اور ان کے خاندان سے شروع کرے ۔ اب وہ قومی اسمبلی میں جمعہ کے روز پیش ہو کر اپنا نقطہ نگاہ پیش کریں گے اور حزب اختلاف کے سوالوں کے جواب دیں گے۔کئی روز سے اپوزیشن جماعتیں ایوان بالا اور ایوان زیریں کا بائیکاٹ کرتی رہی ہیں یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہ وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں آنا چاہئے کیونکہ جمہوریت میں ایساکرنا ضروری ہوتا ہے جیسے کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے آف شور کمپنی میں اپنا نام آنے کی وجہ سے کیا۔یہ اچھی بات ہے کہ نوازشریف قومی اسمبلی میں آئیں گے تقریر کریں گے اور سوالوں کے جواب دیں گے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن اس سے مطمئن ہو جائے گی جواب صاف ظاہر ہے کہ قطعاً نہیں اوریہ پاناما لیکس پر تماشا جاری رکھے گی۔ پھر پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے اظہار خیال کا کیا فائدہ ۔ایسی تحقیقات کے لئے اصل فورم عدالتی کمیشن ہے جس کے بننے کے آثار نظر نہیں آرہے۔اگر سنجیدگی ہو تو اپوزیشن جماعتوں کو چاہئے کہ وہ حکومت کو مجبور کرے کہ وہ صحیح تحقیقات کے لئے ایک متفقہ دستاویز تیارکرے مگر یہ ان کی ترجیح ہے ہی نہیں ۔ ترجیح ہے اگر تو صرف اور صرف سیاست کہ کیسے اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کیا جائے ۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ بھی ٹی او آرز کو حتمی شکل دینے کے لئے بلا تاخیر حزب اختلاف کے ساتھ ڈائیلاگ شروع کرے ۔آف شور کمپنیوں پر تماشے کو 5ہفتے ہو چکے جس کے دوران کافی شورشرابا ہو گیا ہے ملک مزید اس طرح کے تماشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جب تک سیاستدان اس اصول سے کے ان کی آف شور کمپنیاں ’’حلال ‘‘ ہیں اور ان کے مخالفین کی ’’ حرام‘‘ ترک نہیں کریں گے مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔پاناما لیکس پر سب سے زیادہ شور مچانے والی پی ٹی آئی اور پی پی پی کے اپنے نامی گرامی رہنما آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں مگر وہ نہیں چاہتیں کہ ان کی بھی تحقیقات ہوں کیونکہ ان میں سے کچھ کے نام پاناما لیکس میں نہیں آئے۔ عجیب منطق ہے یہ۔
آخر میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بہت مبارک کہ ان کے فرزند علی حیدر گیلانی بالآخر 3سال بعد اغوا کاروں سے رہا کرا لئے گئے ہیں ۔ اس دوران انہوں نے بڑی ہمت کے ساتھ اس صدمے کا سامنا کیااور شاید ہی کوئی طاقتور فرد یا ادارہ ایسا ہو جس سے انہوں نے بات چیت نہ کی ہو تاکہ جلد ازجلد علی حیدر کی رہائی ممکن ہو سکے۔