• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں جو کسی کے ساتھ نہیں کھڑا وہ کہیں بھی نہیں کھڑا۔ اس زریں قول کو من و عن مانتے ہیں، مگر ہر کھڑے ہونے کا تعلق من و سلویٰ ہی سے نہیں ہوتا۔ اپنے سنگ سنگ ضمیر کو بھی کھڑا رکھ لینے میں ہزار برکت اور ہزار نعمت ہے۔

دوستوں اور اپنے آپ سے ہمیشہ یہدرخواست ہوتی ہے کہ حرف اور ظرف معاشرے کی آکسیجن ہیں اور معاشیات بھی، دونوں میں توازن کا مطلب سماجی و فلاحی توازن ہے۔ گویا جو ہمیں محبوب ہے اس کی تعریف و توصیف ضرور کریں مگر غالب کی محبت میں میر سے دشمنی شعر و سخن میں کہیں بھی رائج نہیں۔ جیسے اردو سے الفت کیلئے انگریزی سے نفرت لینگوئسٹک لورز کا کبھی وتیرہ نہیں رہا۔ سیدھی سی بات ہے سیاستدان سے محبت اور وکالت کا رشتہ مطلوب ہے تو سیاسی فہم کو مقصود رکھو گر تمہارا شمار وطن دوستوں میں ہے اور ملک کو چاہنا پڑے گا چاہنے والوں کی طرح کیونکہ ملکی چاہت اور انس کا مطلب ہے آئین کو چاہا جائے، فیئر ٹرائل کے رسم و رواج سے دل لگائیے اور ڈیو پراسس کو مدِنظر رکھیے، آپ اشرافیہ کی سنہری زندگی والے ہیں یا عام حسب نسب والے شہری، ہر صورت میں اپنے اپنے مقام پر ہر کسی کا منفرد اعزاز ہے، اگر کوئی زندوں میں ہے۔ وطنِ عزیز سے محبت اور ذمہ دارانہ شہری ہونے کیلئے ڈگریوں کی نہیں احساسِ ذمہ داری کا مادہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، عام آدمی ماں کی گود، زمانے کی استادی اور دنیوی کتاب سے اتنے علوم حاصل کر گیا ہوتا ہے کہ گھر سے محلے اور پھر شہر سے ملک تک کے رہن سہن کو سمجھ سکے، گلوبل ویلیج کا قیام بھی ایک اہم تعلیم سامنے لا چکا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برطانیہ، سعودیہ، اسرائیل، نیوزی لینڈ اور کینیڈا وغیرہ میں تو کوئی روایتی آئین نہیں گویا ان کو ڈیفائیڈ معاملہ ہے تاہم وہاں کے شہری روایات، اخلاقیات اور قانونی نکات کے بل بوتے پر ترقی کی منزلیں طے کرتے جارہے ہیں کیونکہ ان میں حب الوطنی کا جذبہ موجود ہے۔

صحافت ہزار بار کہیں زیر عتاب ہو یا چین اور سعودیہ جیسے ممالک میں انجینئرڈ ہی کیوں نہ ہو، اس کی اہمیت اور افادیت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، گلوبل ویلیج میں تو بالکل ہی نہیں کیا جا سکتا، چند سال قبل جب راقم وزارتِ اعلام (انفارمیشن منسٹری) سعودی عرب کی دعوت پر حج پر گیا تو وہاں دنیا بھر کے مسلم اخبار نویسوں اور میڈیا پرسنز کو مدعو کیا گیا، مناسکِ حج کے ساتھ مختلف سیمینارز اور شاہی محل کی ملاقاتیں بھی جاری رہیں، وی وی آئی پی پروٹوکول کیوں ملا، ظاہر ہے سعودیہ صحافت کے آداب اور معاملات سے آشنا ہے۔ ایسے ہی جب چین کے دورے پر وفود جائیں تو تمام دریچے کھلے ہوتے ہیں۔ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں صحافت کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے چہ جائیکہ صحافت کو لابیز اور پروپیگنڈوں کیلئے استعمال بھی کیا جاتا ہے مگر اس کو خصوصی مقام حاصل ہونے کی سمجھ تو خواص و عوام کو خوب آتی ہے۔ ہمارے ہاں خواص کی مجالس، عوام کی محافل میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے۔ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے تینوں ستون بھی اسے چاہتے نہ چاہتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں! مطلب یہ کہ اگر بیوروکریسی، عدالتوں اور پارلیمانی شخصیات جو زیر بحث رہتی ہیں، میڈیا پر بھی تو بات ہوتی ہے، جب ان کی خوبی و خامی اور فضیلتوں کی بازگشت ہوتی ہے تو غیرذمہ دارانہ صحافت کا چرچا بھی ہو تو فطری بات ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان تینوں کی طرح صحافت پر منحصر ہے کہ وہ اقوام کی ترقی اور ریاستی، خارجی و داخلی معاملات میں کتنا مثبت یا کتنا منفی کردار ادا کرتی ہے پھر اس کی اپنی قومی و بین الاقوامی ساکھ کیسی ہے؟

صحافت وہ فریضہ ہے جس میں قلم کو گر شمشیر بنانا ہے تو اس کا مرہم بننا بھی ضروری ہے۔ صرف تنقید مضر ہے اور قصیدہ گوئی بھی، چاکری صحافت کا کبھی وتیرہ ہو نہیں سکتا۔ چاپلوس رائٹر تو ہو سکتا ہے مگر کالم نگار و فیچر نگار نہیں، خبر میں خبریت کی خاطر ڈنڈی مارنا پروفیشنل رپورٹر کا ظرف نہیں۔ ظاہر ہے صحافت کے ساختی اور فنکشنل یونٹ صحافی ہی ہیں، صحافی کو کھرا اور دیانت دار ہونا پڑے گا، مصلحتیں اپنی جگہ، کچھ کہی و ان کہی بھی اپنی جگہ مگر جھوٹ گھڑنے یا اپنے قاری و ناظر سے بےوفائی کی اجازت نہیں دیتا تب ہی جمہوریت اور ریاست حتیٰ کہ ضمیر کی ڈیوٹی ممکن ہوتی ہے!

سینئرز اور جونیئرز 1990کی جھرلو، 90کی دہائی کے دو انتخابات کی مینجمنٹ کے علاوہ 2002کے الیکشن کی قبل از انتخابات اور بعد از انتخابات کی پولیٹکل سائنس سے بخوبی آشنا ہیں۔ 2013کے 35پنکچرز کی عجیب و غریب بات اور 2018کی سائنسز، آر ٹی ایس سسٹم کے بیٹھنے کی دریافت اور ایجاد سے مکمل باخبر ہیں ان مواقع پر کس نے اپنا کتنا کردار ذات اور کتنا ملک و ملت کی خاطر ادا کیا ،اس پر کوئی بحث نہیں۔ پھر الیکشن 2018سے قبل اور بعد میں جو معاہدوں اور وعدوں کا تضاد ملا، اسے بھی صحافتی آنکھ، جان اور دماغ جانتا ہے!

کریڈیبل صحافی الیکشن کمیشن سے عدالت تک اور پارلیمنٹ سے بیوروکریسی تک کا محافظ، مؤذن اور اسپوکس پرسن ہوا کرتا ہے۔ دماغ اور افراد ڈیموکریٹ و ٹیکنوکریٹ ہوں تو ملک ڈیموکریٹ اور ترقی یافتہ ہوا کرتے ہیں جبکہ صحافت کا دماغ اور مزاج تو اعلیٰ ظرف ہونا ہی چاہئے، رائٹر کا مضمون میں لگایا ہوا ایک شعر اور ایک جملہ کہرام مچا دیتا ہے یا آنکھیں کھول دیا کرتا ہے۔ ’’ادھر ہم ادھر تم‘‘ والے آدھے جملے اور نامکمل شہ سرخی نے کیا کچھ نہیں کردیا تھا۔ کل پرسوں ہی کی بات دیکھ لیجئے کہ محسنِ پاکستان اے کیو خان کے جہان فانی سے کوچ کر جانے کو کس نے کس کس زاویے سے لیا اور صحافت نے کتنا کردار ادا کیا؟ صحافت کا شجاعت، امانت، دیانت اور فراست والا کردار اب پہلے سے زیادہ ضروری ہو چکا۔ بتانا ہوگا کہ بھارتی سائنسدان عبدالکلام اور پاکستانی سائنس دان لیڈر اے کیو خان میں کیا فرق تھا اور عوام و حکومت نے کہاں کیا کیا، یہ آج کا سیاسی و صحافتی صفحہ تھا اور کون کس صفحہ پر تھا؟

صحافتی زندگی میں تو بارہا ایک طرف دل اور ایک طرف دماغ، کبھی ایک طرف ضمیر اور ایک طرف حرص ہوگی مگر فیصلہ تو کریڈیبلٹی کو لینا ہوگا کہ کدھر جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین