• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان جس طرح مسلّمہ طور پر ایک نظریاتی مملکت ہے اور جہاں اسلام اس کی اصل و بنیاد ہے، وہیں اردو زبان بھی پاکستان کے قیام کی ایک بڑی محرّک ہے۔ 1867ء میں جب ہندو قوم پرستی نے اردو زبان کی کُھل کر مخالفت شروع کی، تو سرسیّد احمد خان نے اعلان کیا کہ’’ اب ہندوستان میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔‘‘ہم اِس اعلان کو تحریکِ پاکستان یا مطالبۂ پاکستان کی بنیاد سمجھتے ہیں۔

چناں چہ اِسی خیال کو ملحوظ رکھتے ہوئے راقم نے 1969ء میں جامعہ کراچی سے ایم اے کے لیے"تحریکِ پاکستان کا لسانی پس منظر‘‘ کے عنوان پر مقالہ لکھا اور بعدازاں اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ’’ تحریکِ آزادی میں اردو کا حصّہ‘‘(مطبوعہ انجمن ترقّیٔ اردو،کراچی1976ء اور مجلس ترقّیٔ ادب، لاہور،2010ء) تحریر کیا۔

ان مقالات میں مسلمانوں کے تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے مطالبے میں اردو زبان کا کردار نمایاں کیا۔دراصل، اردو زبان کا دفاع اور اس کے لیے تاریخ کی طویل ترین جدوجہد بھی مسلمانوں کو مطالبۂ پاکستان کے مرحلے تک لے آئی تھی ۔چناں چہ، اردو زبان کا دفاع اور اس کا فروغ بھی مسلمانوں کا ایک بڑا مقصد رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو کا مکمل نفاذ اور بطور ذریعۂ تعلیم اس کا رواج، ہمارے مخلص و درد مند رہنماؤں، جماعتوں اور اداروں کا مطمحِ نظر رہا، جن میں بابائے اردو، مولوی عبدالحق پاکستان بننے سے پہلے ہی سے پیش پیش اور مستعد و سرگرم رہے۔

یہی پس منظر تھا کہ مخلص و مستعد رہنماؤں اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے قیامِ پاکستان کے فوری بعد مُلک میں اردو کے نفاذ کی کوششیں شروع کردیں۔اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے کے ضمن میں مولوی عبدالحق کی جانب سے’’ اردو یونی ورسٹی‘‘ کے قیام کے مطالبے نے ایک واضح صُورت اختیار کی، لیکن بدقسمتی سے قائدِ اعظم کے انتقال، سیاسی بحرانوں اور قیادت کی تبدیلیوں کے باعث منصوبہ تاخیر کا شکار رہا۔ تاہم، عوام کے مسلسل مطالبات کے نتیجے میں یہ منصوبہ آخر کار 2002ء میں کراچی میں واقع’’ اردو کالج‘‘ کو’’ اردو یونی ورسٹی‘‘ کی حیثیت دینے پر منتج ہوا۔

کراچی میں قائم کردہ’’ وفاقی اردو یونی ورسٹی‘‘ کے بنیادی یا ابتدائی وجود ’’اردو کالج‘‘ سے ہماری اوّلین رسمی یا تدریسی وابستگی بحیثیت طالبِ علم 1963ء سے 1965ء تک انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کے لیےرہی ،لیکن ان دو سالوں میں جو مثالی ماحول دیکھا اور جن اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا، اُن کے طفیل کالج سے فخرو انبساط کا جو احساس زندگی میں شامل ہوا، وہ اب تک باقی ہے۔ اس احساس کے پسِ پُشت مولوی عبدالحق سے1962ء میں اپنے اسکول کے مشفق ترین استاد، اقتدار احمد اکبر کی معیّت میں ایک نوعُمری کی متاثر کُن، سرسری سی ملاقات، پھر "انجمن ترقّیٔ اردو" سے ایک جذباتی تعلق اور ساتھ ہی کاغذ اور قلم کے ساتھ اس سے عملی وابستگی بھی شامل و کارگر رہی۔ 

ہماری اوّلین اہم اور یادگار تصانیف بھی اسی ادارے سے شایع ہوئیں۔’’انجمن ترقّیٔ اردو ‘‘کے ایک دیرینہ خواب کے تحت اردو کالج کو خوشی خوشی یونی ورسٹی بنتا بھی دیکھا، لیکن اسی دَوران خوشیوں کے ساتھ اندیشوں نے بھی گھیرا، جواب تک گھیرے ہوئے ہیں۔ یہ اندیشے، کوتاہ نظر ذمّے داروں اور نااہل انتظامیہ کی ذاتی اغراض، مفاد پرستی اور تنگ نظری کے باعث اس یونی ورسٹی کا مقدر بنے ہیں۔ 

اب لگتا ہے کہ یہ یونی ورسٹی کبھی فروغ نہ پاسکے گی کہ آج اساتذہ اور منصب داروں کی اکثریت کو اپنی علمی واخلاقی حالت بہتر بنانے کا کوئی خیال ہے اور نہ ہی یونی ورسٹی کا مفاد و معیار عزیز ہے۔پھر اکثریت وہ اہلیت و فضیلت بھی نہیں رکھتی، جو یونی ورسٹی کے اساتذہ میں ہونی چاہیے۔ اس لیے بصد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ یہ یونی ورسٹی اپنی موجودہ تعلیمی، علمی سرگرمیوں کے حوالے سے پچاس، ساٹھ سال پہلے کے اپنے اردو کالج کی سی عزّت و توقیر کی حامل بھی نظر نہیں آتی۔

زمانۂ طالبِ علمی کے بعد سے اب تک ایک فاصلے ہی سے اردو یونی ورسٹی کا قیام، پیش رفت دیکھتا اور غیر مطمئن ہوتا رہا ہوں۔ تاہم، حالیہ تین برسوں میں اسے بہت قریب سے دیکھنے کے مواقع میّسر آئے کہ اس کی سینیٹ کا رُکن نام زد ہوا اور اس حیثیت سے اجلاسوں میں شریک رہا ۔ ماضی میں ایک موقعے پر ’’تلاش کمیٹی‘‘ کا رکن بھی رہا ہوں، جس کے دَوران وائس چانسلر کی تلاش کا مرحلہ نہایت شفّاف اور دیانت دارانہ طریقے سے ہوتا دیکھا اور اپنا ممکنہ کردار بھی ادا کیا۔ 

اس کمیٹی کے منتخب کردہ وائس چانسلر، الطاف حسین کی خواہش اور فرمائش پر ’’مسندِ بابائے اردو‘‘ (Baba-e Urdu Chair)کے لیے ایک منصوبہ، خاکہ بناکر اُن کی خدمت میں پیش کیا کہ یہ مسند کیوں اور کن حدود وقیود پر قائم ہونی چاہیے اور اس کی سرگرمیاں کیا ہوں؟ اس مسند پر فائز شخص کو کن اہلیتوں اور فضیلتوں کا حامل ہونا چاہیے؟ یہ بہت عمدہ منصوبہ تھا، لیکن الطاف حسین کو اس کی تکمیل کی مہلت نہ مل سکی۔ خیر، جامعہ کی سینڈیکیٹ نے حالیہ عرصے میں جو’’ تلاش کمیٹی‘‘ وضع کی اور جسے سینیٹ نے منظور کیا، اس میں اساتذہ کی جانب سے ایسے اراکان بھی نام زد کیے گئے،جو محض لیکچرار اور اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت و اہلیت سے زیادہ کے نہ تھے۔

انھیں اس’’ تلاش کمیٹی‘‘کا حصّہ نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن وہ شامل کیے گئے اور طریقۂ کار ایسا رہا کہ سینڈیکیٹ اور سینیٹ نے ہمارے تحریری اعتراض و احتجاج کے باوجود اس پر صاد کیا۔کمیٹی کے سربراہ کو چاہیے تھا کہ ان ارکان کو قبول کرنے سے انکار کردیتے، بلکہ چانسلر صاحب کو مداخلت کرکے اس فیصلے کو روکنا یا کم از کم اس کی مذمّت کرنی چاہیے تھی، جو نہیں کی گئی۔

ہم نے اس فیصلے کے سینیٹ میں زیرِ غور لائے جانے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے سینیٹ ارکان اور چانسلر کو ایک خط لکھا،جس میں اس فیصلے کو رد کرکے سینڈیکیٹ میں بارِ دیگر غور کی خاطر بھیجنے کی درخواست کی، جو صدا بصحرا ثابت ہوئی۔یوں ’’تلاش کمیٹی‘‘ نے ناموزوں اراکان کی موجودگی میں بالآخر وائس چانسلر کے تقرّر کا فیصلہ کرلیا۔پھر’’ لائبریری کمیٹی‘‘ کے رکن کی حیثیت سے بھی ایک تلخ تجربہ ہوا۔ہمیں یونی ورسٹی کے تینوں کیمپسز میں واقع کتب خانوں کی حالت پر اپنی رائے دینی تھی تاکہ ان میں ممکنہ بہتری لائی جاسکے۔

تاہم،اِس ضمن میں محض کراچی کے آرٹس کیمپس کی لائبریری کا معائنہ ممکن ہوا، جس میں کمیٹی کے ایک اور رُکن، ڈاکٹر توصیف احمد خان بھی ساتھ تھے۔ایک بڑے سے کمرے میں، جو کاٹھ کباڑ کا منظر پیش کر رہا تھا، سلیقے سے الماریاں جمی تھیں، نہ ہی اُن میں کتابیں رکھی تھیں۔ جو رکھی تھیں، اُن میں بھی موضوعاتی ترتیب بہت نمایاں اور سائنٹیفک نہیں تھی۔ بظاہر ایک لائبریرین موجود تھے، لیکن وہ پیشہ وَر نہ تھے، بلکہ کسی کو عارضی طور پر یہ منصب دے دیا گیا تھا، جو مخلص تو تھے، لیکن فنی تقاضوں اور ضرورتوں سے نا آشنا تھے اور لگتا تھا کہ لائبریری اُن کے قابو میں نہیں۔

یہاں تک کہ تمام کتب کے کیٹیلاگ کارڈز بھی نہیں بنے تھے۔ جب کارڈز کے ایک دو باکس کھول کر دیکھے، تو ان میں کارڈز کی بجائے کچرا سا بھرا ہوا تھا۔ گویا لائبریری میں آنے اور استفادہ کرنے والے کبھی کارڈ دیکھتے ہی نہ ہوں۔ اِس معائنے کے دَوران نظریں وہ کتب بھی تلاش کرتی رہیں، جو ہم زمانۂ طالبِ علمی میں دیکھتے رہے تھے، لیکن اب کہیں نظر نہیں آئیں۔ گویا وہ فروخت یا ضائع کردی گئی تھیں۔ان میں جامعہ عثمانیہ اور دارالترجمۂ عثمانیہ کی کتب اور تراجم بھی شامل تھے۔یہ سب دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یونی ورسٹی انتظامیہ کے فرائض یا ترجیحات میں لائبریری کی قطعی کوئی حیثیت ہی نہیں اور لگتا ہے کہ اِس جانب کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں، تو بہتری کیا لاتے؟ الماریوں میں نئی کتب اور نئے رسالے بھی نظر نہ آئے، گویا اس کتب خانے میں رسائل کے آتے رہنے کا کوئی انتظام ہی نہ تھا۔

سینیٹ سے ہماری وابستگی کے دوران تو یونی ورسٹی کی فلاح و بہتری کی بابت کوئی منصوبہ پیش نہیں ہوا۔ یونی ورسٹی کے قواعد و ضوابط کی فرسودگی ختم کرکے اُنھیں موجودہ تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے ڈاکٹر جعفر احمد کی سربراہی میں اراکینِ سینیٹ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے ذوق وشوق سے کام بھی کیا، مگر اُس کی محنت بھی بوجوہ رائیگاں گئی۔یہ صُورتِ حال ہماری زندگی کے مایوس کُن تجربات میں اضافے کا سبب بنی۔

سو، اس یونی ورسٹی سے اپنی وابستگیوں اور تجربات کی روشنی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہ یونی ورسٹی واقعتاً ایک سرکاری وفاقی اردو یونی ورسٹی کا احساس دِلانے میں قطعی ناکام ہے۔ اور اگر کوئی اس کا اہم سبب پوچھے، تو بلا تامل عرض کروں گا کہ اگرچہ اِس یونی ورسٹی کے قیام کا فیصلہ بہت صائب، قومی تقاضوں اور امنگوں کے مطابق تھا، لیکن اس کے قیام کی منصوبہ بندی کسی ماہرانہ حکمتِ عملی، دیدہ وَری اور روشن خیالی کے ساتھ نہیں ہوئی۔ ایک دیرینہ قومی مطالبے کے تحت اردو کالج ہی کو یونی ورسٹی کا درجہ دے دیا گیا، جو ایک نامناسب اور عجلت میں کیا گیا فیصلہ تھا۔ 

بظاہر اس اقدام کے پسِ پُشت جمیل الدّین عالی نمایاں اور پیش پیش رہے اور’’ انجمن ترقّیٔ اردو‘‘ کے کرتا دھرتا ہونے کی وجہ سے یونی ورسٹی کے قیام کے معاملات میں دخیل بھی رہے۔لیکن غالباً اُن کے پیشِ نظر کوئی ٹھوس علمی و تعلیمی منصوبہ نہیں رہا تھا۔اِس لیے اُنھوں نے بھی جو ہو رہا تھا، ہونے دیا۔حالاں کہ ایک عرصے تک وائس چانسلر جیسے عُہدے تک پر اُن ہی کے فیصلے لاگو ہوتے رہے۔مزید ستم یہ ہوا کہ اردو کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ دیتے ہوئے اساتذہ کا نئے سرے سے تقرّر کرنے کی بجائے کالج کے اساتذہ ہی کو یونی وسٹی کا استاد تسلیم کرلیا گیا، جو قطعی مناسب نہ تھا کہ صرف ایم اے، ایم ایس سی یا اِکّا دکّا کے پی ایچ ڈی ہونے کا مطلب یہ نہ تھا کہ ان میں یونی ورسٹی کا استاد ہونے کی اہلیت بھی موجود تھی۔ 

اردو یونی ورسٹی میں علمی و تدریسی معاملات میں جس قدر بدنظمی ہوئی یا جتنے مسائل پیدا ہوئے اور اب تک ہورہے ہیں،اُن میں سے بیش تر شاید ان اساتذہ ہی کے باعث ہیں، جن کی بنیاد اور شناخت اردو کالج سے منسلک رہی ہے۔اب کالج کی سطح و معیار کے اساتذہ سینڈیکیٹ اور سینیٹ کے بھی رکن بن جاتے ہیں۔ وہ سلیکشن بورڈ اور وائس چانسلر کے لیے قائم’’ تلاش کمیٹی‘‘ کے رکن بن کر خود 19 ویں اور 20 ویں گریڈ میں رہ کر 21 اور 22 ویں گریڈ کے اعلیٰ مناصب کے لیے فیصلے کرتے ہیں۔

اِس لیے فوری طور پر سینیٹ اور سینڈیکیٹ میں تشکیل پانے والی کمیٹیز کے لیے قانون اور ضوابط میں یہ تبدیلی لائی جانی چاہیے کہ ان میں اساتذہ کی نمائندگی نہ ہو۔یا اگر یہ ناگزیر ہو، تو یہ لازم کیا جانا چاہیے کہ منتخب اساتذہ کی اہلیت ایک مکمل پروفیسر کے لیے ایچ ای سی کی مقرّر کردہ اہلیت سے ہرگز کم نہ ہو۔مزید یہ کہ یونی ورسٹی کے قوانین خاصے فرسودہ ہیں اور آج کی جدید علمی، انتظامی ضرورتوں کے مطابق نہیں ہیں، جنھیں تبدیل کیا جانا ضروری ہے۔یونی ورسٹی کے کلیۂ سائنس کی تجربہ گاہوں اور تینوں کیمپسز کے کتب خانوں کی اصلاح و بہتری کے لیے مناسب اقدامات بھی اشد ضروری ہیں۔

ان کوتاہیوں اور کم زوریوں ہی کی وجہ سے علمی و مطالعاتی میدانوں میں اس یونی ورسٹی کا نام پاکستان کی معمولی سے معمولی یونی ورسٹیز کی صف میں بھی نظر نہیں آتا اور نہ ہی یہاں سے ایسا کوئی علمی و تحقیقی مجلّہ نکلتا ہے، جسے اپنے معیار کی مناسبت سے کوئی شہرت ملی ہو۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال تو یہاں کے اُن اساتذہ کو خود اپنے آپ سے کرنا چاہیے، جو طرح طرح کے احتجاج اور مطالبات کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، جلسے جلوسوں اور تقاریر میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔

مذکورہ حالات میں یہ یونی ورسٹی بابائے اردو، مولوی عبدالحق کے خواب اور انجمن ترقّیٔ اردو کی کوششوں اور مقاصد کے مطابق نہیں ہے، اِس لیے اس کے انتظامی معاملات کو درست راہ پر لانے کے لیے جو بھی سنجیدہ، مخلصانہ اقدامات ممکن ہوں، ضرور کیے جانے چاہئیں، لیکن آج اس یونی ورسٹی کو وہ یونی ورسٹی نہیں سمجھنا چاہیے، جو بابائے اردو کا خواب تھی۔

اُن کی عُمر بھر کی خدمات کا تقاضا ہے کہ ان کے اردو یونی ورسٹی کے ایک سو سالہ پرانے خواب کے مطابق موجودہ’’ وفاقی اردو یونی ورسٹی‘‘ کو اس کے حال پر چھوڑ کر جدید علمی و تعلیمی تصوّرات کے مطابق ایک نئی’’ بابائے اردو یونی ورسٹی" کے قیام کی بابت سوچا جائے،جو اِس سلسلے کے سابقہ ناکام تجربے کی بجائے خلوصِ نیّت کے ساتھ ایک مستعدانہ کوشش ہو اور جو اپنی حیثیت و معیار کے مطابق ہمارے بزرگوں کے دیرینہ خواب کی تعبیر ہو۔

تازہ ترین