• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیرون ملک اثاثوں کے مالک پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کے بارے میں پابند کرنے کیلئے حکومت نے ٹیکس قوانین میں تبدیلی کرنے کا عندیہ دیا ہے جس کے تحت انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے تحت بیرون ملک جائیداد کے حامل افراد کو 15فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور انہیں مستقبل کے گوشواروں میں اپنے ان اثاثوں کی پوری تفصیل درج کرنا ہوگی جس میں ناکامی کی صورت میں انہیں سخت انضباطی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ ان اثاثوں کو ڈیکلیئر نہ کرنے کی صورت میں غیر ملکی کرنسی ریگولیٹری ایکٹ(فیرا)کے تحت ایسے افراد کےپاکستان کے موجود اثاثوں کو قرق کیا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف دیگر تعزیراتی کارروائی بھی ہوسکے گی، تاہم ایسا صرف اسی صورت میں ہوسکے گا جب قانون کی خلاف ورزی ہوگی،ماہرین ٹیکس کا کہنا ہے کہ ٹیکس اصلاحاتی کمیشن کی جانب سے ٹیکس قوانین میں مذکورہ بالا جو تبدیلی تجویز کی گئی ہے، اگرچہ وہ کسی قدر سخت معلوم ہوتی ہے لیکن اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ اس سے زیادہ سخت ہے ۔ ٹیکس گریزی اور ٹیکس سےبچنے کے راستے نکالنا دو مختلف قسم کی اصطلاحات ہیں جن میں سے اولذکر کو مالیاتی جرم کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ ثانی الذکر کا جواز تلاش کیا جاتا ہے۔ پاناما لیکس میں کئے جانے والے انکشافات نے پوری دنیا کے مالی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے اور کئی ممالک کے اہم ترین سیاسی مناصب پر حامل افراد نے ان الزامات کے بعد اپنے عہدوں سے ہی استعفیٰ دے دیا ہے ۔ پاکستان میں پاناما لیکس نے بڑا ہنگامہ کھڑا کیا ہے جس کے بعد بیرونی ممالک میں اثاثے رکھنے والوں کیلئے ٹیکس قوانین میں تبدیلیاں ایک ناگزیر ضرورت بن کر رہ گئی ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ٹیکس اصلاحاتی کمیشن کی سفارشات کے مطابق ٹیکس قوانین میں نئی مجوزہ تبدیلیاں ان قوانین کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی جانب ایک اہم قدم ہوسکتی ہیں۔
تازہ ترین