• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی ترجمان مارک ٹونز نے وزیر اعظم پاکستان کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز کے اس بیان پر کہ بھارت کشمیر پر مذاکرات سے بھاگ رہا ہے، ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ کشمیر پر مذاکرات کی رفتار، نوعیت اور کردار کا تعین پاکستان اور بھارت کو خود ہی کرنا ہوگا ۔ امریکہ کا یہ موقف فی الحقیقت اس کی جانب سے اپنی ایک واضح ذمہ داری کی ادائیگی سے گریز کے مترادف ہے ۔کشمیری عوام کو آزادانہ رائے شماری سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دینے کی یقین دہانی پوری عالمی برادری نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی شکل میں کرائی تھی اور عالمی طاقت ہونے کی بناء پر ان قراردادوں پر عمل درآمد کرانا سب سے بڑھ کر امریکہ کی ذمہ داری تھی۔ امریکہ کو اس معاملے میں اپنا کردار ویسے ہی مؤثر طور پر ادا کرنا چاہیے تھا جس کا مظاہرہ اس نے عراق ، مشرقی تیمور اور بوسنیا وغیرہ کے سلسلے میں کیا۔تاہم اس حوالے سے امریکہ نے نہ صرف پچھلی سات دہائیوں میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی بلکہ آج بھی وہ اس سے برملا انکار کررہا ہے ۔ نیز بھارت کو بالادست طاقت بنانے کے اقدامات کرکے خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے پر تلا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ایک طرف تنازع کشمیر کا منصفانہ تصفیہ مزید دشوار ہوتا جارہا ہے اور دوسری طرف پورے خطے میں عدم استحکام کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔افغانستان کے معاملے میں بھی امریکہ کا عملی کردار یہی ہے جو امن مذاکرات میں معاون بننے کے بجائے رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔اس حقیقت کا برملا اظہار امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین جان مکین نے گزشتہ روز میڈیا کے سامنے ان الفاظ میں کیا کہ’’ افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان یا اشرف غنی نہیں بلکہ امریکی حکومت کی پالیسیاں ہیں۔‘‘ امریکی حکومت کو کم از کم اپنے سینیٹر کے تجزیے پر تو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
تازہ ترین