• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران، بلاول سیاست کی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف کو فائدہ پہنچا

اسلام آباد (انصار عباسی) نواز شریف بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ انہیں عمران خان اور بلاول جیسے اپوزیشن رہنما ملے کیونکہ دونوں کی دلچسپی الزامات عائد کرنے کی سیاست میں زیادہ اور اپنے اپنے متعلقہ دائرۂ کار میں کارکردگی دکھانے یا حکومت پر اصلاحات کیلئے دبائو ڈالنے کے معاملے پر کم ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی سیاست کا عالم یہ ہے کہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی بجائے دونوں جماعتیں وزیر اعظم اور ان کی جماعت کی مقبولیت کیلئے کام کر رہی ہیں۔ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ نواز شریف حکومت نے کئی غلطیاں کی ہیں اور اس کی کچھ کمزوریاں بھی ہیں لیکن عوام کیلئے متبادل آپشن کے طور پر تین سال کے دوران پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی کارکردگی اس قدر مایوس کن ہے کہ نواز لیگ بدستور مقبول جماعت بنی ہوئی ہے۔ نواز لیگ نے اپنے انتخابی منشور اور انتخابات کے دوران کیے گئے اپنے بہت سے وعدوں پر تین سال گزر جانے کے باوجود تاحال عمل نہیں کیا۔ لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے مقابلے میں نواز لیگ مقبول جماعت بنی ہوئی ہے۔ آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن سے قبل، نواز لیگ پہلے ہی مختلف ضمنی انتخابات، گلگت بلتستان الیکشن، بلدیاتی انتخا با ت اور کنٹونمنٹ انتخا با ت میں پی پی اور تحریک انصاف کو شکست دے چکی ہے۔ عمومی طور پر دیکھا جائے تو حکمران جماعت غیر مقبول ہوتی جاتی ہے لیکن نواز لیگ کے معاملے میں کم از کم اب تک تو ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اس کیلئے نواز شریف کی بجائے پی پی اور تحریک انصاف کو سہرا جاتا ہے۔ نواز شریف کی تمام تر توجہ بڑے منصوبوں اور سروسز کی بہتر انداز سے فراہمی، کرپشن کی روک تھام، سول سروسز کی اوور ہالنگ، انصاف کی فوری اور تیز تر فراہمی وغیرہ پر مرکوز ہے۔ عمران خان کا بنیادی مسئلہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پہلے دن سے ہی شروع ہوگیا تھا اور وہ نواز شریف کو حکومت سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ خود کو وزیراعظم آفس میں پہنچانے کے معاملے میں بے صبر نظر آتے ہیں اور 2018ء کے الیکشن کا انتظار نہیں کرنا چاہتے۔ نواز شریف کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کے معاملے میں ان کی فرسٹریشن کا عالم یہ ہے کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ سے مدد لیتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی۔ عوام کی بلند توقعات کے برعکس، عمران خان کی متنازع سیاست نے انہیں اتنا نیچا کر دیا ہے کہ وہ شیخ رشید، گجرات کے چوہدریوں اور طاہر القادری جیسے افراد کے ساتھ گٹھ جوڑ بنانے میں لگے ہیں۔ یہ لوگ کسی اور معاملے کی بجائے سازشیں کرنے کیلئے زیادہ مشہور و مقبول ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خیبر پختونخوا پی ٹی آئی کی مستقبل کی سیاست کیلئے پارٹی کا گڑھ بن جانا چاہئے تھا، لیکن عمران خان نے صوبے کو انتہائی حد تک نظر انداز کیا ہے اور ماضی میں وہ اس بات کا کئی مرتبہ اعتراف بھی کر چکے ہیں۔ عمران خان نے تقریباً تین سال 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات دہراتے ہوئے ضایع کردیئے۔ ان کی اپنی پسند کے جوڈیشل کمیشن نے بھی انہیں غلط ثابت کردیا ہے لیکن اس کے باوجود جب بھی انہیں موقع ملتا ہے وہ الزامات کا رونا روتے ہیں۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد ہونے والے مختلف انتخابات میں پی ٹی آئی؛ نواز لیگ سے ہار چکی ہے۔ 2014ء کے تحریک انصاف اور طاہر القادری کے دھرنے نے بھی انہیں ہزیمت کا شکار کر دیا اور انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف ادارہ جاتی ذرائع سے اپنے ایجنڈے پر عمل کی بجائے اشتعال انگیزی کی سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کا معاملہ عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی سے زیادہ بدتر ہے۔ کے پی میں پی ٹی آئی کی حکو مت نے کچھ شعبوں میں پنجاب سے بھی زیادہ بہتر کار کر د گی کا مظاہرہ کیا لیکن اس کے برعکس سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بدستور خراب طرز حکمرانی اور کرپشن کی علامت بنی ہوئی ہے۔ اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے، پیپلز پارٹی نے پارٹی کی بقاء کیلئے بلاول زرداری بھٹو کو اس امید کے ساتھ متعارف کرایا ہے کہ بینظیر بھٹو کا بیٹا اور ذوالفقار بھٹو کا نواسہ ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین پارٹی کا کھویا ہوا مقام حاصل کر لیں گے۔ لیکن ایسا ہو رہا ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس وقت تک ہوتا  ہوا محسوس ہوتا ہے جب تک پارٹی سندھ میں کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرے۔ بلاول ووٹروں کو اپنی جانب صرف سخت تقاریر اور نواز شریف مخالف بیانات کے ذریعے کھینچنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ’’مودی کا یار‘‘ نعرہ لگا کر وہ نواز شریف کیخلاف آزاد کشمیر کے الیکشن میں جیت جائیں گے۔ لیکن، آزاد کشمیر کے ووٹروں نے انہیں صرف اسلئے مسترد کرد یا کہ پیپلز پارٹی نے کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اسے کرپشن کے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ اگر بلاول واقعی سیاست کے معا ملے میں سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی جماعت ملک کی سب سے بڑی جماعت کی کھوئی ہوئی شنا خت واپس حاصل کرے تو انہیں پیپلز پارٹی سے کرپٹ عناصر کو نکالنا ہوگا۔ بیان بازی اور نعرے لگانے کی بجائے بلاول کی توجہ کا اصل مرکز سندھ حکومت ہونا چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہے۔ پاناما پیپرز وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کیلئے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوئے لیکن عمران اور بلاول دونوں نے وزیراعظم کو فائدہ پہنچایا کیونکہ انہوں نے صرف وزیراعظم کو نشانہ بنانے کی نقائص سے بھرپور حکمت عملی اختیار کی۔ عمران اور بلاول کی پالیسی نے متحدہ اپوز یشن کو منقسم کردیا کیونکہ زیادہ تر جماعتیں بلا تفریق احتساب کی حامی ہیں۔ نواز شریف اور نواز لیگ کیلئے یہ بات باعث ا طمینان ہوگی کہ اب پی پی اور پی ٹی آئی کے پاس پاناما پیپرز کے حوالے سے مختلف حکمت عملی ہے۔ عمران خان نواز لیگ حکومت کیخلاف سڑکوں پر آ کر آئندہ ماہ سے تحریک چلانے کی سولو فلائٹ لے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس معا ملے میں شرکت نہیں کرنا چاہتی جبکہ دیگر اپوزیشن جماعتوں نے پہلے ہی خود کو پاناما پیپرز پر پی پی اور پی ٹی آئی سے علیحدہ کر لیا ہے۔ نواز لیگ کو معلوم ہے کہ منقسم اپوزیشن اور تنہا پی ٹی آئی حکمران جماعت اور اس کے رہنما کیلئے نقصان دہ ثابت نہیں ہوگی۔
تازہ ترین