• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کی حکومت کو اپنے آپ کو بہتر کرنا چاہیے،قمر زمان کائرہ

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام " آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ" میں سندھ میں رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے میزبان شاہ زیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ کور کمانڈر کراچی نوید مختار اور وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے درمیان ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی جس کے بعد یہ خبریں سامنے آئیں کہ سندھ حکومت اور رینجرز کے معاملات طے پا گئے ہیں لیکن اندر کی خبر یہ ہے کہ سندھ حکومت رینجرز اختیارات میں توسیع اورلاڑکانہ واقعے پر اپنے موقف پر قائم ہے۔ملاقات کے دوران وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور بتایا کہ دبئی میں پارٹی قیادت سے رینجرز اختیارات کے معاملے پر بات کی جائیگی۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں کوئی بریک تھرو نہیں ہوا جس کی تصدیق رینجرز ذرائع اور حکومتی ذرائع بھی کر چکے ہیں۔پاکستان میں بدلتے سیاسی رجحان، آزاد کشمیر انتخابات میں ن لیگ کی 31 نشستوں میں کامیابی اور بلاول بھٹو کی سیاست پر پیپلز پارٹی کے رہنماء قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو آزاد کشمیر مہم میں گئے اور اپنی ذات ک حد تک انھوں نے ہجوم اکٹھا کیا ، حکومت سے لوگ ناراض تھے ، جس کی بھی وفاق میں حکومت ہو کشمیر ، گلگت بلتستان میں انتخابات ہمیشہ جیت لیتا ہے ۔سندھ کی حکومت کو اپنے آپ کو بہتر کرنا چاہیے۔بلاول بھٹو نے سیاسی طور پر بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اپنی جماعت کا واضح موقف دیا ہے ۔ متحدہ حزب اختلاف کے حوالے سے قمر زمان کا کہنا تھاکہ تکبر مسلم لیگ کا خاصہ ہے اگر حزب اختلاف ان کے خلاف متحد نہیں بھی ہوتی تو یہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑیاں مار لیں گےلیکن عمران خان نے جو اعلان کیا ہے بہتر ہوتا کہ وہ اس بارے میں باقی جماعتوں سے بات کرتے ۔جما عتو ں پر کوئی قدغن نہیں ہے اگر وہ اکیلے نکلنا چاہیں تو جا سکتی ہیں لیکن اگر حزب اختلاف متحد ہو کر جائے تو لوگ اس کی بات کو زیادہ سنجیدہ لیں گے ۔ سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ سندھ میں گزشتہ 27 سال میں حکومت میں آنے والی ہر سیاسی جماعت نے پولیس کو اپنے عسکری ونگ کے طور پر استعمال کیا ، اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے استعمال کیا اور پولیس اس قدر سیاسی ہو گئی تھی کہ اگر شفیق الرحمان کی رپورٹ کو پڑھیں تو اندازہ ہو گا ایک مجرم کی جے آئی ٹی اور جنرل شفیق الرحمان کی رپورٹ وہ بالکل ایک ہی جیسی ہیں کہ کس طرح سی آئی اے سینٹر لا کر اغواء کاروں کو رکھا جاتا ۔2002 میں پولیس آرڈر جب آیا تھا تو یہ امید ہوئی کہ شاید اب پولیس کو غیر سیاسی کرنے کا عمل ہو گا لیکن اسی دور میں ا سے واپس کر دیا گیا اور اس میں اب ایسی ترامیم کی گئیں کہ وہ اب اپنی اصل شکل میں برقرار نہیں ہے۔اسی لئے رینجرز کے سپرد امن و امن کی صورتحال کر دی گئی ۔ لیاری گینگ وار کے حوالے سے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ لیاری گینگ وار صرف چار پانچ تھانوں کے سیاسی ہونے کی وجہ سے کئی سال چلا۔ارشدپپو سمیت کئی ایسے واقعات ہیں جس میں پولیس کا ملوث ہونا ہمیں نظر آتا ہے ۔80 کی دہائی سے اب تک جو بھی حکومتیں رہیں انھوں نے پولیس کو صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ۔ وسیم اختر کے حوالے سے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ آج جو ایم کیو ایم کا دھرنا ہوا ، اس میں گرما گرمی دیکھنے میں آئی اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ وسیم اختر کا حال بھی آفتاب احمد جیسا نہ ہواور یہ ان کا خدشہ تھا ۔راؤ انوار سے جب میری بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ میں ایس ایس پی ضرورہوں ملیر کا لیکن وسیم اختر کی حراست میرے پاس نہیں ہے ان کاتفتیشی ونگ الگ ہے۔بطور سپروائزر انھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وسیم اختر 12 مئی سمیت کئی معاملات پر تفتیش ہو رہی ہے، کیوں کہ اس وقت وہ وزیر داخلہ بھی تھے اس لئے تفتیش کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں کوئی جے آئی ٹی بنائی جائے۔یہ خدشہ ایم کیو ایم کو ہے اس لئے جمعے کو وہ وزیر اعلیٰ سے ملنا چاہتے تھے ۔
تازہ ترین