• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یااللہ! کن مسخروں، اٹھائی گیروں، لیٹروں سے واسطہ پڑ گیا ہے؟ وطنی سیاست میں ایسی غیر سنجیدگی؟ (الامان الحفیظ)۔ خطہ ارضی، بھونچال کی زد میں، آفٹر شاکس کسی طور ٹھہرنے کو نہیں، پڑائو ڈال چکے ہیں۔ ایسے میں وطنی قومی رہنمائوں کی غیرسنجیدگی، کمتر ذہنیت، عاقبت نااندیشی، کم عقلی، کج روی، مفاد پرستی نقطہ عروج پر ہے۔ آج کی تاریخ میں تینوں بڑی پارٹیاں اقتدار میں، تین بڑے صوبوں کے حقوق ملکیت، بلاشرکت غیرے موجود۔ تین سال بعد، صوبہ سندھ اور صوبہ KP میں دھڑام سے ایسا خیال کیوں؟، معاملات بگڑ چکے ہیں۔ کرہ ارض پر ایسی سیدھی، سدھاسدھائی مسلکی عوام بھلا کہیں اور بھی؟ ہمارے قومی رہنمائوں کو بے وقوف عوام جیسی، کیسی کیسی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ سندھ میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے بعد،پیپلزپارٹی اگلا لائحہ عمل کیا دے گی؟ باقی ماندہ عرصہ، سندھی عوام کو کیسے ہانکا جائے گا؟ رینجرز سے کیسے نبٹا جائے گا؟ ترقی، تبدیلی، سندھ حکومت کی ترجیحات بھی ہوں گی؟ دوسری طرف ،عمران خان کے ٹرکس (Tricks) محدود ہوچکے ہیں۔ نیا 13نکاتی ایجنڈا اس دعوے کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ کوئی اور صوبہ ایسے بول بچن کرکے دکھائے۔ ایک بار پھر پرانی بوتل نئی پیکنگ میں پیش ہو چکی ہے۔ KP میں حکمرانی کرتے 3سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا۔ تبدیلی و ترقی کا پیٹا ڈھنڈورا ابھی بھی کان پھاڑ رہا ہے۔ یہ نیا 13نکاتی ایجنڈا، پٹاری سے کون سا سانپ نکلنے کو۔ بھلا ہو آدم خور چوہوں کا جو KP حکومت کی معمولی انتظامی صلاحیتوں کو آشکار کر گئے۔ سانحہ ہی کہ جہاں عمران خان کی مقبولیت کو چودہویں کے کئی چاند لگے ہوں، وہاں Hallucination اور Delusion شخصیت کو مسخ کر دے۔ تین سال سے بمع مالامال اعتماد پٹواری، صحت، تعلیم، امن و عامہ، پولیس بارے بلندوبانگ ایسے دعوے کانوں سے ٹکرائے کہ خالی دیگ بجانے کا شور دب جائے۔
چند ماہ پہلے، یہی مالامال اعتماد بنوں کے جلسے میں ہم جولی تھا۔ دوران تقریر جوش خطاب میں، بنوں کے عوام سے کارکردگی سرٹیفکیٹ مانگا، تصدیق چاہی۔ ’’بنوں کے لوگو! بتائو، تعلیم کے شعبہ میں بہتری آئی؟ (ہزاروں کا مجمع، نہیں! نہیں!)، اچھا! یہ بتائو، صحت کا نظام بہتر ہوا؟ (نہیں ! نہیں! نہیں کا شور)، پولیس؟ (نہیں نہیں نہیں کا غل غپاڑہ)۔ کوئی میرے جیسا عام انسان ہوتا تو پائوں اکھڑ جاتے۔ عمران خان وکھری ٹائپ کا بے مثال کردار، گویا ہوئے، ’’اچھا !(حیرانی کا عنصر غالب) تو گویا بنوں تک تبدیلی ابھی نہیں پہنچی‘‘۔ 4دہائیاں پہلے ،ایک ملتاجلتا واقعہ آج بھی محظوظ کرجاتا ہے۔ 1973میں وزیراعظم جناب بھٹو (Demagogue) نے بنگلہ دیش منظور کروانے کے رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے عوامی رابطہ مہم ترتیب دی۔ جوش خطابت پر زعم تھا۔ اندازہ یہی رہا کہ ایک ہلے میں عوام سے سحرانگیز خطابت منوالوں گا۔ آغاز کراچی سے ہوا، ’’کراچی ’’منی پاکستان‘‘ ہے، اردو بولنے والے، پٹھان، سندھی، بلوچ، گجراتی ساری قومیں، نسلیں یہاں آباد ہیں۔ اے کراچی کے لوگو! آپ بتائو بنگلہ دیش کو بحیثیت آزاد ملک تسلیم کرلوں‘‘۔ جواباً ٹھاٹھیں مارتے مجمع نے جوتے اتار کر، تلوے بھٹو صاحب کی طرف بلند کر دئیے۔ بھٹو سیاسی گرگ باراں دیدہ ، سیاسی دائو پیچ کا مائی باپ، خرانٹ اول درجے کا، نزاکت کو بھانپ گیا۔ ’’مجھے معلوم ہے جوتے مہنگے ہو گئے ہیں، مہنگائی کا بندوبست بھی کریں گے اور بنگلہ دیش کو نامنظور بھی‘‘۔ عمران خان، بھٹو ہے نہیں چنانچہ سمجھ نہ آئی کہ بھرے میدان میں، عوام کے چنگل سے اپنی شروع کسوٹی سے نکلے کیسے؟ KP کی تین سالہ حکومتی کارکردگی پر عمران کا بنفس نفیس پریشان ہونا بنتا ہے۔ صوبائی حکومت کا نامہ اعمال ہے ہی تکلیف دہ؎
شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
چند دن پہلے حکومتی کارکردگی کا کچاچٹھا، وزیراعلیٰ پرویز خٹک، ’’کلام شاعر بزبان شاعر‘‘، نے خود کھول کر رکھ دیا۔ مزید اضافہ کی گنجائش نہیں۔ ملفوف انداز اپنائے بغیر فرما گئے، ’’عمران خان خیالی و تصوراتی دنیا میں رہتے ہیں، تبدیلی کا نعرہ ابھی تو’’ہنوز دلی دور است‘‘، اگلے 5 سال، دوبارہ اقتدار ملا تو بارآور ضرور ہوگا‘‘۔ اس موضوع پر وزیراعلیٰ اور عمران کے درمیان لفظی جنگ نے سیاسی ماحول کو خاصا محظوظ رکھا۔ 25 جولائی (کل)، نیب کے خلاف احتجاج رقم کروانا تھا۔ پہنچے، تو اپنے ہی کارکنوں سے ملاقات ہوگئی۔ جو اپنی ہی پارٹی پر پارٹی فنڈز میں خوردبرد پر سراپا احتجاج بنے، پہلے سے موجود تھے۔ دھینگا مشتی کا خصوصی اہتمام ایسا کہ تین میڈیا پرسن کور کرتے ،نئے نویلے سرکش، اڑیل، جوشیلوں کی پھینٹی کی بھینٹ چڑھ کر شدید زخمی حالت ہسپتال پہنچ گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یکے بعد دیگرے سیاسی، انتخابی، تنظیمی سانحہ جات پر سرجوڑ کر سیاسی اسٹریجی کا تفصیلی معائنہ کیا جاتا، مرمت کا اہتمام رہتا۔ چند دن پہلے کشمیر میں توہین آمیز شکست کے سانحہ پر بھی غوروخوض اور حالت زار کا اندازہ کرکے کوئی نئی سیاسی پالیسی ترتیب دی جاتی۔ تنظیم کی نئی ترتیب پر غور ہوتا، گندے انڈے نکالے جاتے۔ بجائے گھسی پٹی احتجاجی تحریک کے مردے گھوڑے میں جان ڈالنے کے، انصافی خود احتسابی کا بندوبست کیا جاتا۔ مگرایسا کیوں ہوتا؟ کیسے ہوتا؟ کشمیر کے الیکشن پر برادرم نعیم الحق کی ٹویٹ ناقابلیت ،خودفریبی اور نااہلی کا نیا انداز چھوڑ گئی۔ ملاحظہ فرمائیں، ’’آزاد کشمیر الیکشن کے نتائج میں ن لیگ نے6 لاکھ 89 ہزار ووٹ جبکہ تحریک انصاف نے 3 لاکھ 53 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے مشترکہ ووٹ ن لیگ سے زیادہ ہیں، چنانچہ مجازی و تصوراتی (Virtual) جیت پی ٹی آئی/پی پی پی کی ہے‘‘۔جس پارٹی کے ترجمان وچیف سیاسی ایڈوائزر کو اپنے حاصل کردہ ووٹوں کا کُل معلوم نہ ہو، اس پارٹی کا اللہ ہی حافظ، یعنی ’’گڈبائی پارٹی‘‘۔ اصل حقائق بمطابق الیکشن کمیشن ملاحظہ فرمائیں،(i) ن لیگ723369 ، (ii) پیپلزپارٹی 349383، (iii) تحریک انصاف 210827، (iv)مسلم کانفرنس 171458 ، تینوں ہارنے والی پارٹیوں کے ووٹ جمع کریں تو بھی مسلم لیگ ن سے کچھ کم ہی ہیں۔ تحریک انصاف کے لئے لمحہ فکریہ اس لئے بھی، کہ کشمیری عوام کا مزاج، معاشرت وسیاست پنجاب(پنجاب کے خصوصاًپہاڑی علاقہ جات) سے ملتی جلتی ہے۔ قوی امکان کہ آنے والے دنوں میں پنجاب میں تحریک انصاف کو توہین آمیز صورت حال سے دوچار ہونے کا قومی امکان موجود رہے گا۔ صدمہ ہی کہ عوام الناس نے پیپلزپارٹی کو فارغ کیا، نواز شریف کا تیاپانچہ کرنے کے لئے عمران خان میں آسرا ڈھونڈا۔ آج عمران خان کی سیاست و ثقافت نے نوازشریف کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ جو تحریک 7 اگست کو نوازشریف کو گرانے کے لئے شروع کرنی تھی، کل کی پریس کانفرنس میں اس کا رخ پشاور مڑ چکا۔ 13 نقاطی چارٹر کو بار بار دیکھیں، پڑھیں، پرکھیں۔ فنانس کمیشن، احتساب سیل، پولیس ریفارمز وغیرہ وغیرہ وہ کون سی ایسی چیز ہے جس پر ماضی میں کامیابی کے جھنڈے نہیں گاڑھے گئے۔ بتانا ہوگا کہ تین سال کارکردگی صفر کیوں رہی، 13 نکاتی ایجنڈا کیوں ناکام رہا۔ آج تمام سابقہ بقایا دعوے بمع نعرہ تبدیلی منہ چڑھا رہے ہیں۔صحت کا حال ، ایک مثال کافی، KP کی پریمیر ہسپتال پشاور لیڈی ویلنگڈن کی حالت زار رقت آمیز، تعلیمی نظام زبوں حال اور سکولز، کالجز خستہ حال (دارالعلوم حقانیہ کو 30 کروڑ روپے کی امداد اس لئے کہ نوشہرہ کی سیاست وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے لئے اہم) ڈیرہ اسماعیل خان تا پشاور ہر شہر گندگی، کوڑا کرکٹ میں یکتا اور سڑکیں تباہ حال، پولیس نظام اتنا کمزور کہ 300سے زیادہ دہشت گرد ڈیرہ اسماعیل خان جیل توڑ کر نہایت سکون و تحمل سے براستہ لکی مروت بنوں، قبائلی علاقہ جات تشریف لے جاتے ہیں۔ صوبائی احتساب کمیشن کا کٹا چٹھا بمع وزیراعلیٰ پر الزامات، اپنے ہی مقررکردہ ڈائریکٹر جنرل کے خط میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، دوبارہ پڑھ لیں۔ آئی جی پولیس ناصر درانی کی شکایات ہر زبان زد عام کہ سیاسی دبائو میں کام جاری رکھنا مشکل ہے۔ تحریک انصاف کے اندر پرویز خٹک، مراد سعید، لواحقین کے لئے ایک قانون جبکہ اسد قیصر، ضیا اللہ آفریدی، شوکت یوسف زئی کے لئے دوسرا قانون۔
دیکھا نہیں کہ اسد قیصر کا بھائی جیل گیا، ضیا اللہ آفریدی جیل میں، پرویز خٹک خاندان اور ساتھی وزیر، قانون ہاتھ میں، کرپشن کے الزامات بدرجہ اتم ،دندناتے پھرتے ہیں۔ (مراد سعید ایک دن میں گریجویشن کر جاتے ہیں، وائس چانسلر کے احتجاج کرنے پر برخاست کر دیا جاتا ہے)۔ جناب خان صاحب ایک کرشمہ ساز شخصیت ،دل مچلا تو جناب شیرپائو پارٹی کو کان پکڑ، کرپشن کے الزام میں رسوا کرکے بذریعہ پریس کانفرنس باہر نکال دیا۔ ڈیڑھ سال بعد تھوکا چاٹنا پڑا، آج شیرپائو پارٹی دوبارہ وزارتیں سنبھالے ’’نیک نامی‘‘ کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔ پارٹی کی اندرونی صورت حال ایسی بھیانک، کہ کارکن لرزہ براندام ہیں۔ 22 مارچ 2012 کا دن عمران خان سے میرے تعلق کا ایک اہم دن، جب پارٹی کو تباہ و برباد کرنے پر، باز رکھنے کی آخری بھرپور کوشش کی۔ انٹرا پارٹی الیکشن رکوانے کی کوشش کی تو نادانوں نے اسے بغاوت جانا۔ وقت ایسا کہ رعونت عروج پرتھی، وزیراعظم کی خلعت پہن چکے تھے، میرے اخلاص اور جذبہ کو حقارت سے ٹھکرانا بنتا تھا۔ شرمناک انٹرا پارٹی الیکشن پر نابغہ روزگار معتبر شخصیات جسٹس وجیہہ الدین، جناب تسنیم نورانی اور کئی دوسروں کو توہین آمیز طریقے سے دھتکار دیا گیا۔ نکالنے والے موردالزام ٹھہرے جبکہ نامزد مجرم جہانگیر ترین، علیم خان، پرویز خٹک وغیرہ نے رفعتیں پائیں۔ واہ خان صاحب ! آپ کا انصاف، آپ کا میرٹ چھا چکا۔ اب آپ کا 13 نکاتی تبدیلی ایجنڈا چھا جانے کو۔ دیکھتا جا شرماتا جا.....
تازہ ترین