• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر منتخب ہونے کی صورت میں ڈونلڈ ٹرمپ کے عزائم کوئی پوشیدہ نہیں بلکہ اعلانیہ اور مخالفانہ ہیں۔ صدارت کیلئے پارٹی سے نامزدگی حاصل کرنے کے بعد ری پبلکن کنونشن کے آخری روز امریکہ کے انتہا پسند عیسائی مبلغین (EVANGILISTS) اور اپنے نامزد نائب صدر مارک پنس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ٹرمپ نےتصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان عیسائی مبلغین کی حمایت کے بغیر ان کا صدارتی نامزدگی حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے سابقہ موقف کو نئے مبہم الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ’’علاقے‘‘ دہشت گردی سے متاثر (کمپرومائز) ہوئے ہیں صدر منتخب ہوتے ہی وہاں سے امریکہ کیلئے امیگریشن کو فوری طور پر بند کرکے نئے موثر متبادل انتظامات نافذ ہونے تک پابندی عائد رکھیں گے۔ میری رائے میں ٹرمپ شام ، عراق ، لیبیا سے آنے والے ’’مہاجرین‘‘ تک پابندی محدود نہیں رکھیں گے بلکہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں پاکستان ، ترکی ، الجیریا، عرب ممالک بھی شامل فہرست ہوں گے۔ پاکستان کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ تو بڑی تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی فوج اور بھارت کے تعاون سے پاکستان کو ہینڈل کرنے کی بات کہہ چکے ہیں لیکن یہ کتنی تلخ حقیقت ہے کہ کسی پاکستانی صحافی یا مبصر نے اس اہم ری پبلکن کنونشن کا مطالعاتی یا صحافتی دورہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا حالانکہ ہر چار سال بعد صدارتی نامزدگی کیلئے ہونے والے اس کنونشن میں ری پبلکن کانگریس مین ، سینیٹرز ، پارٹی عہدیدار، مبصرین و ماہرین اور کارکن اکٹھے ہو کر وہ پالیسی ، فیصلے اور امیدوار سامنے لاتے ہیں جو اگلے چار سال تک امریکہ کے سیاسی نظام پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہم امریکی سیاسی4نظام کو جانےاور سمجھے بغیر ہی یہ توقع کرتے ہیں کہ امریکی قائدین وہ پالیسیاں بنائیں جو ہماری مرضی اور معیار پر پورا اتریں۔ ہمیں اپنے نوجوان صحافیوں کو ان ری پبلکن اور ڈیموکریٹک کنونشنز میں صحافتی شرکت اور عالمی پریس کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنے اور امریکی سیاسی نظام کو سمجھنے کیلئے ضرور بھیجنا چاہئے۔ مجھے اس موقع پر یہ کہنے کی اجازت دیں کہ ادارہ جنگ / جیو نے گزشتہ تمام سالوں میں نہ صرف ڈیموکریٹک اور ری پبلکن کنونشنز میں شرکت اور کوریج کیلئے ہمیشہ ہمت افزائی کی۔ زندگی کے ایک طویل عرصہ میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن کنونشنز کی کوریج کرنے کا ایک طویل عرصہ کا اعزاز مجھے اس ادارے کی بدولت حاصل ہے۔ری پبلکن پارٹی کنونشن کے دوران مجھے متعدد اہم امریکی سینٹیرز ، کانگریس مینوں اور پالیسی ساز شخصیات سے ملاقاتوں اور تبادلہ خیال کا موقع ملا پاکستان، مسلم دنیا ، ٹرمپ اور ہیلری سمیت مختلف سیاسی امور پر اتفاق اور اختلاف رائے کے حق کے ساتھ گفتگو رہی ۔
ری پبلکن پارٹی کے 85سالہ انتہائی سنجیدہ ، اہم اور کنزرویٹو ری پبلکن سینیٹر اور ن ہیچ گزشتہ 40سال سے مسلسل سینیٹر چلے آرہے ہیں۔ وہ جب کسی مسئلے پر بولتےہیں تو امریکی سیاسی نظام ان کی بات کو سنتا ہے۔ ری پبلکن کنونشن میں آمنا سامنا ہوا تو ان کے نئے معاون نے حسب معمول مداخلت اور رکاوٹ کا کام دکھایا مگر سینیٹر اورن ہیچ نے ماضی کے جھروکے سے شکل شناسائی کی کی بدولت نہ صرف آگے بڑھ کر کاندھے پر ہاتھ رکھ کر خیریت پوچھی بلکہ انٹرویو کیلئے میری درخواست پر فوراً ہی آمادگی کا اظہار کرکے اپنے نئے معاون کیلئے حیرانی پیدا کردی۔ اس انٹرویو کی تفصیل تو آپ ’’جیو‘‘ پر دیکھ چکے ہوں گے۔ پاک امریکہ تعلقات میں موجودہ خراب صورتحال کا ذکر میں نے کیا تو بولے کہ ان تعلقات کو پھر سے بہتر بنانے کا کام بھی ہورہا ہے لیکن میں تفصیلات نہیں بتاسکتا ۔ اورن ہیچ نے ٹرمپ کی کھل کر حمایت اور اس کی وجوہات اور نظریاتی اتفاق کا اظہار کیا۔وہ پاکستان کے بارے میں مثبت رویہ رکھنے والے امریکی سیاستدان ہیں۔
جان بولٹن اقوام متحدہ میں جارج بش (جونیئر) کے دور میں اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں۔ کنزرویٹو ری پبلکن اور اپنے نظریات کا دوٹوک اظہار کرکے اپنی طاقتور پرسنالٹی اور متنازع امور پر توجہ دلانے کا کام کرتے رہے ہیں۔جان بولٹن خارجہ پالیسی کے بارے میں ری پبلکن پارٹی اور کنزرویٹو حلقوں میں بڑے احترام اور مقبولیت کے مالک ہیں۔ جارج بش (جونیئر) کے دور میں بااختیار سفیر اور کابینہ کے رکن تھے۔ ٹرمپ کے مشیروں میں بھی شامل ہیں۔ مجھے دوسری مرتبہ یہ دیکھنے اور جاننے کا اتفاق ہوا کہ وہ ری پبلکن پارٹی میں کس قدر محترم اور مقبول ہیں۔ گفتگو چلی تو میںنے ان کے سامنےسوال اٹھایا کہ ڈونلڈٹرمپ تو اپنے امریکی کنزرویٹو حلقوں اور ووٹرز کی حمایت کے حصول کیلئے خارجہ پالیسی اور امیگریشن کےبارےمیں متنازع بیانات دیکر مسلم ورلڈ میں تشویش کی لہر دوڑا چکے آپ کی ڈپلومیسی کا کیا ہوگا؟ آف دی ریکارڈانہوں نے اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ امریکی ووٹرز نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر بنانا ہے اورتم جانتے ہو کہ امریکی صدر مسلم ورلڈ سمیت دنیا بھر کے لیڈروں سے ڈیل کرتا ہے۔ جان بولٹن کی بات درست اور عملی ہے ۔ جب پاک امریکہ تعلقات میں موجودہ صورتحال اور ٹرمپ پریزیڈنسی میں پاک امریکہ تعلقات کی بات چلی تو جان بولٹن نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات کا انحصار نئے مذاکرات پر ہوگا۔ان کاجو نتیجہ ہوگا وہی ٹرمپ دور میں پاک امریکہ تعلقات کو شکل دے گا۔ جان بولٹن پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں افغانستان ، بھارت اور جنوبی ایشیا میں امریکی ڈپلومیسی کا حصہ رہے ہیں میرے اندازے کے مطابق اگر ٹرمپ صدر بنے تو جان بولٹن کو اہم عہدہ اور ذمہ داری ضرور دی جائے گی۔ وہ شروع سے ہی ٹرمپ کے کھلے حامی چلے آرہے ہیں۔ ان سے تفصیلی انٹرویو ’’جیو‘‘ کے ناظرین دیکھ چکے۔
نیویارک سے منتخب ری پبلکن کانگریس مین ڈان ڈوناون ایوان نمائندگان کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے رکن بھی ہیں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور پاک امریکہ تعلقات کی بہتری بھی چاہتے ہیں۔ڈونلڈٹرمپ کی کامیابی کیلئے مصروف کار ہیں نیویارک ڈیموکریٹک اکثریت کی حامل اسٹیٹ ہے مگر ڈین ڈوناون ری پبلکن اکثریتی انتخابی حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ’’جیو‘‘ کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے پاکستان کے حوالے سےاپنے خیالات کا اظہار کیا۔
نیو ٹ گنگرچ کو تمام ڈیموکریٹ اور ری پبلکن یکساں طور پر جانتےہیں۔ ایوان نمائندگان کے اسپیکر صدارتی امیدوار اور ری پبلکن سیاست کے صف اول کے لیڈر رہ چکے ہیں اور آج بھی موثر فرنٹ لائن رول ادا کررہے ہیں۔ نیوٹ گنگرچ جارجیا اسٹیٹ سے ہیں ا ور دوٹوک گفتگو کرنے والے کنزرویٹو ری پبلکن ہونے کے باعث خاصے متنازع مگر موثر لیڈر ہیں۔ کنونشن کے دوسرے روز ان سےآمنا سامنا ہوا تو پاکستان کے حوالے سے گفتگو میں کہنے لگے کہ پاکستان میں حالات بہتر ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ جنوبی ایشیا میں موجودہ بگڑی ہوئی صورتحال کے بہتر نہ ہونے اور تسلسل کی پیشگوئی کرتے نظر آئے۔ باقی معاملات میں یہ ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی دو ہاتھ آگے کنزرویٹو سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد ری پبلکن قائدین سے آف دی ریکارڈ گفتگو رہی جو اخلاقی پابندی کی زد میں ہیں لیکن نام لئے بغیر تجزیوں اور مشاہدات کا حصہ رہیں گے۔ ری پبلکن کنونشن ٹرمپ کی تقریر اور نعروں کے ساتھ پرجوش انداز میں ختم ہوا۔ البتہ کنونشن کے دوسرے روز ایک پاکستانی نژاد امریکی وکیل ساجد تارڑ نے کنونشن کی کارروائی کا اختتام مسلمانوں کی نمائندگی اور دعا سےختم کیا۔ یہ بڑا جرات مندانہ اور امریکی تناظر میں بڑا درست اقدام تھا۔ تاریخ میں پہلی بار کنونشن میں اسلام اور مسلمانوں کی نمائندگی ہوئی امریکہ کے مسلمانوں کو امریکی سیاسی نظام کا حصہ بننا ہوگا خواہ وہ ری پبلکن یا ڈیموکریٹ ہوں مگر اپنی حیثیت اور شناخت تو قائم کریں۔
تازہ ترین